سوال یہ ہے کہ

بدھ 31 دسمبر 2014

Prof.Mazhar

پروفیسر مظہر

سانحہ پشاور پر احتجاج دم توڑرہاہے ،سردراتوں میں چوراہوں پر معصوم پھولوں اورکلیوں کی یادمیں جلائی جانے والی شمعیں بھی بجھ چکیں ۔الیکٹرانک میڈیاحسبِ سابق سب کچھ بھلاکر اپنی پرانی ڈگر پرلوٹ آیا ۔وہی ریٹنگ کی جنگ، وہی چائے کی پیالی میں طوفان اوروہی مزاحیہ پروگرام جن میں ہزل گوئی ،پھکڑپَن ،جگت بازی اور ذومعنی جملوں کی بھرمار۔

لیکن اندھیری راتوں میں بندکواڑوں کے پیچھے بے کل ماوٴں کی سسکیاں اب بھی راتوں کا سکوت توڑرہی ہیں ،اُن کی اُجڑتی کوکھیں اب بھی نوحہ کناں اور گھر گھرمیں صفِ ماتم ۔ہم اِس سولہ دسمبرکو اُسی طرح بھولتے جارہے ہیں جس طرح سولہ دسمبر 71ء کو بھول چکے ۔تب توہماراپڑوسی دشمنی نبھانے کے لیے ہمارے سامنے تھا اورسقوطِ ڈھاکہ کے بعد اندراگاندھی نے بڑے فخرسے کہہ بھی دیا ”ہم نے نظریہ پاکستان کو خلیج ِ بنگال میں ڈبودیا“۔

(جاری ہے)

معاملہ اب بھی وہی درپیش ،ملکی سلامتی داوٴ پرلیکن اب کی باردشمن خارجی نہیں ،داخلی ہے اورہم اسے پہچانتے بھی نہیں ۔کوئی نہیں جانتا کہ اُس کے ساتھ بیٹھاشخص محبِ وطن ہے یادہشت گرد ۔جس کی شناخت ممکن ہے اُس پر ہاتھ ڈالنے کی کسی میں ہمت ہے نہ سکت ۔کوئی حکمرانوں سے یہ سوال کرنے کی جرأت بھی نہیں کرتاکہ افلاس کے مہیب سایوں میں اُن دَس لاکھ سے زائد زبردستی کے مہمانوں(افغان مہاجرین) کو اُن کے گھروں میں کیوں نہیں بھیجاجاتا؟۔

قوم نہیں جانتی کہ پچاس لاکھ سے زائد ازبک ،چیچن ،تاجک ،سومالین ،نائجیرین ،سوڈانی ،برمی ،بنگلہ دیشی اور آذربائیجانی آسمان سے گرے یا زمین سے اُگے ۔اگر سرحد پارکرکے آئے توہماری تین درجن خفیہ ایجنسیاں کس مرض کی دواہیں اوراُن پر اربوں روپیہ کیوں صرف کیا جارہاہے؟۔کوئی بتلائے توسہی کہ CIA کے ہزاروں ایجنٹوں کو بنا کسی تصدیق کے کس نے ویزے جاری کیے اوردہشت گردوں کو جدیدترین ہتھیاراور بارودکے ڈھیر فراہم کرنے والے کون ہیں؟۔

اورہاں وہ جو میموگیٹ سکینڈل پرہمارے وزیرِاعظم خود کالاکوٹ پہن کر سپریم کورٹ جا پہنچے تھے ،اُس سکینڈل کو بحرِہند میں غرق کیا یا بحرِ عرب میں؟۔ باتیں بہت کہ یہاں تو ”قدم قدم پہ ہے جائے نالہ وفریاد“ لیکن چلیں یہ سب کچھ یہیں چھوڑ کر آگے بڑھتے ہیں کہ ہمارے سپہ سالارنے کہا ”ماضی کو چھوڑیں ،آگے بڑھیں“۔سوال مگریہ کہ آگے بڑھیں توکیسے؟۔

یہ بجاکہ ہمارے پُرعزم سپہ سالارآپریشن ضربِ عضب میں بے مثل کامیابیاں سمیٹ رہے ہیں اوریہ یقین کہ انشاء اللہ عنقریب وہ وزیرستان سے دہشت گردوں کا مکمل صفایا کردیں گے لیکن بصدادب گزارش ہے کہ یہ ناسورتو وطنِ عزیزکی نَس نَس میں سماچکا،اِس گلتے ناسور کی بُوسے تو وطنِ عزیزکی فضائیں مسموم ہوچکیں ۔اِس ناسورکی جراحی کون کریگا؟۔
سیاسی اورعسکری قیادت نے متفقہ طورپر بیس نکاتی ایکشن پلان کی منظوری دے دی لیکن کیایہ بھی سوچاکہ اِس پرعمل درآمد کیسے ممکن ہے ؟۔

وزیرِاعظم صاحب نے توانا آوازمیں دہشت گردوں کو منطقی انجام تک پہنچانے کاعزم کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک آپریشن ضربِ عضب افواجِ پاکستان فاٹا میں کررہی ہیں ،دوسرا آپریشن ضربِ عضب ہم پورے ملک میں کریں گے ۔ہمیں وزیرِاعظم صاحب کی نیت پر کوئی شک ہے نہ عزمِ صمیم پرلیکن راستہ اتناطویل ،کٹھن اور پُرخارہے کہ سوچتے ہوئے بھی ڈرلگتا ہے ۔ طالبان نامی دہشت گردوں کے خلاف تو آپریشن کامیابی سے جاری ہے لیکن یہاں تو کئی قسم کی دہشت گردی کاسامناہے ۔

جن مذہبی اورسیاسی جماعتوں نے اپنے عسکری ونگز بنارکھے ہیں کیا وہ دہشت گردنہیں؟۔کیانفرت انگیزلٹریچر چھاپنے اور فرقہ واریت کو ہوادے کر فسادات کروانے والے دہشت گردنہیں؟۔ کیا ٹارگٹ کلنگ اوربھتہ خوری دہشت گردی نہیں؟۔ دین میں شدت کاعنصر داخل کرنے والے تودہشت گردہیں ہی لیکن کیا فسطائیت کا دفاع کرنے والے ”لبرل“دہشت گردنہیں ؟۔

کیانیوزچینلز پر بیٹھ کر اللہ اور اُس کے رسولﷺ کے احکامات کی صریحاََخلاف ورزی کادرس دے کرقوم کے جذبات بھڑکانے والے دہشت گردنہیں؟۔ ”پنبہ کجا کجانہم“کے مصداق وزیرِاعظم صاحب کِس کِس کے گردشکنجہ کسیں گے؟ ۔سبھی جانتے ہیں کہ کچھ مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے عسکری ونگ بنا رکھے ہیں اور انہی سیاسی جماعتوں پر ٹارگٹ کلنگ اوربھتہ خوری جیسے الزامات بھی لگتے رہتے ہیں ۔

کیامرکزی حکومت کراچی سمیت پورے ملک میں بلاامتیاز کارروائی کرنے کے لیے پُرعزم ہے ؟۔
غیرملکی فنڈنگ پرپلنے والی سیکولرنظریات کی حامل NGO's ہمیشہ بلندآہنگ سے دینی ومذہبی جماعتوں کے خلاف زہراُگلتی رہتی ہیں کیونکہ اُنہیں فنڈنگ ہی منافرت پھیلانے کی ملتی ہے ۔دوسری طرف مذہبی جماعتیں بھی ترکی بہ ترکی جواب دیتی رہتی ہیں جس کی بناپر تصادم کی فضاپیدا ہوتی ہے ۔

کیاحکومت اِن NGO's پر ہاتھ ڈال سکتی ہے؟۔ہماری خفیہ ایجنسیاں بھی یہ تسلیم کرتی ہیں کہ دینی مدارس کی غالب اکثریت میں صرف دینی تعلیم ہی دی جاتی ہے لیکن کچھ مدارس ایسے بھی ہیں جودہشت گردوں کی تربیت گاہیں اور پناہ گاہیں ہیں ۔کیاحکومت تمام دینی مدارس کو آئین وقانون کے دائرے میں لانے کی ہمت رکھتی ہے ؟۔ہم تو صرف دعاہی کرسکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو عزمِ صمیم کی دولت سے مالامال کرے لیکن یہ کام اگر ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرورہے اور اسے تووہی پایہٴ تکمیل تک پہنچا سکتاہے جوحضرت خالدبِن ولید کی طرح سفینے جلانے کی ہمت رکھتاہو۔


وزیرِاعظم صاحب کے متواتر بیانات سے یقین ہوچلاہے کہ اب اُن میں کچھ کرگزرنے کی اُمنگ جوان ہے،یہ الگ بات کہ کچھ لکھاری اب بھی یہ ماننے کو تیارنہیں ۔شایدیہ بغضِ معاویہ ہی ہے کہ ایک لکھاری میاں صاحب کے بارے میں فرماتے ہیں”یہ صلح جو روحیں ہیں جو صرف مذاکرات اورامن کی راگنی ہی چھیڑسکتی ہیں اور اگر فعالیت کامرحلہ درپیش ہوتو کُل جماعتی کانفرنس کی ڈھال کے پیچھے پناہ کا آپشن موجودرہتاہے ۔

۔۔جب میں ایم این اے تھا اور مجھے پارلیمانی پارٹی کی میٹنگ میں شرکت کرناہوتی تھی تو وہاں یہی نغمہ گونجتاتھا کہ ”میاں صاحب ! اٹھارہ کروڑ افرادآپ کے منتظرہیں ۔۔توشام کو مجھے مُنہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے اسکاٹ لینڈ کی عمدہ ترین مصنوعات میں سے ایک کی ضرورت پڑتی تھی ۔وزیرِاعظم ہاوٴس میں گزارے ہوئے ایک دِن میں پتہ نہیں جرنیل صاحبان نے مُنہ کا ذائقہ کیسے بدلا ہوگا“۔

عرض ہے کہ لکھاری موصوف کوشام توکیا ،ہر وقت ہی اسکاٹ لینڈکی عمدہ ترین مصنوعات میں سے ایک کی ضرورت پڑتی رہتی ہے لیکن لکھاری موصوف خاطرجمع رکھیں ہمارے جرنیل صاحبان کومُنہ کا ذائقہ بدلنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ۔ویسے جس ”شے“سے موصوف مُنہ کا ذائقہ بدلتے رہتے ہیں اُس سے بندہ ایسے ہی مخبوط الحواس ہوجاتاہے جیسے ہمارے یہ” عظیم لکھاری“آجکل ہوچکے ہیں۔ ویسے اگرمحترم لکھاری نوازلیگ کی پالیسیوں سے اتنے ہی نالاں تھے تو2013ء کے الیکشن میں میاں برادران سے ٹکٹ کی بھیک کیوں مانگتے رہے اور جب ایم این اے تھے تواپنی غیرت و حمیت کو مہمیزدیتے ہوئے مستعفی کیوں نہیں ہوئے؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :