ذرا نم ہوتو

پیر 29 دسمبر 2014

Molana Shafi Chitrali

مولانا شفیع چترالی

اقراء حفاظ بوائز سیکنڈری اسکول ٹی بلاک نارتھ ناظم آباد کے اندر داخل ہوا تو میرے سامنے حیرت کا ایک جہاں کھلاتھا۔ اسکول انتظامیہ نے سائنس، آرٹس اور اسلامی ثقافتی نمائش دیکھنے کی دعوت دی تو میں سوچنے لگا کہ اسکول کی سطح کے بچوں نے ایسے کیا تخلیقی جوہر دکھائے ہوں گے، جن کو دیکھنا ناگزیر ہو۔ مگر یہاں جو دیکھا اس نے میرے اندازے کو غلط ثابت کردیا۔

ممکن ہے تمام بڑے اسکولوں میں اس طرح کی نمائش ہوتی ہو اور اس شعبے سے وابستہ لوگوں کے لیے یہ عام سی بات ہو، مگر میں نے جو دیکھا وہ میرے لیے بالکل نیا اور انوکھا تجربہ تھا۔ اسکول کے وسیع ہال میں اسلامی ثقافت، آرٹس اور سائنس کے مختلف پروجیکٹس، چارٹس اور ماڈلز کے اسٹالز ترتیب اور سلیقے سے لگے ہوئے تھے اور ہر اسٹال پر 10 سے 15 سال کی عمر کے مستعد بچے دیکھنے والوں کو ہر پروجیکٹ سے متعلق مکمل معلومات فراہم کرنے کے لیے موجود تھے۔

(جاری ہے)

ایک طرف دیواروں پر لگے خوبصورت چارٹس اور خاکے اسلامی تہذیب وتمدن کے مختلف مناظر کی منظرکشی کررہے تھے تو دوسری طرف اردو، عربی اور انگریزی تینوں زبانوں میں زندگی کے اہم شعبوں سے متعلق معلومات کو رنگوں اور دیدہ زیب نقشوں کی مدد سے پیش کیاگیا تھا۔
سامنے لگے اسٹالوں میں تو ہر پروجیکٹ تفصیلی توجہ کا طالب تھا۔ یہ ایک میز ہے جس پر اسلامی تاریخ کے اہم واقعہ غزوہٴ احد کا تصوراتی منظر تخلیق کیا گیا ہے۔

احد کا پہاڑ، سامنے کا میدان ،تیراندازوں کا نظام اور عقب سے حضرت خالد بن ولید کے حملے کی جگہ کی نشاندہی کی گئی ہے اور میز پر موجود ننھا سا طالب علم دیکھنے والوں کو غزوہٴ احد سے متعلق تمام معلومات فراہم کررہا ہے۔ تھوڑا سا آگے بڑھیں تو دوسرے اسٹال پر بادشاہی مسجد لاہور کا لکڑی سے بنا شاندار ماڈل ہے جسے اقراء کے پانچ طلبہ نے مل کر بنایا ہے۔

ساتھ ہی تاج محل کا آنکھوں کو خیرہ کرتا ہوا نمونہ ہے جو” نقل مطابق اصل“ کا منظر پیش کررہا ہے۔ اس نمونے کو بنانے والے طالب علم نے شاید ساحر لدھیانوی کا یہ شکوہ سنا ہوگا کہ #
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
سو اس نے یہ ثابت کردیا کہ غریب بھی اگر چاہے تو اپنی محبت کا تاج محل بناسکتا ہے۔

آرٹس کے حصے میں اور بھی دیکھنے کی چیزیں ہیں مگر آگے بڑھیے ،سائنس کے حصے میں اقراء روضة الاطفال کے بچے آپ کو ملک وقوم کو درپیش اہم مسائل کا حل بھی پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ آج ملک میں درپیش اہم مسئلہ سیکورٹی کاہے۔ اقراء کے بچوں نے خودکار طریقے سے کام کرنے والا سیکورٹی الارم بنایا ہے، جو بہت کم خرچے میں آپ کو کسی بھی خطرے سے آگاہ کرسکتا ہے۔

ملک میں توانائی کا بحران ہے اور لوڈشیڈنگ نے لوگوں کا جینا دوبھر کیا ہوا ہے۔ اقراء کے حافظ قرآن بچے آپ کو ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے طریقے بتاکر اس مشکل کا حل پیش کررہے ہیں اور یہی نہیں، بلکہ انہوں نے ایک مصنوعی ایٹمی ری ایکٹر بھی تیار کررکھا ہے جس کے پرامن مقاصد کے لیے استعمال کا پورا خاکہ آپ کے سامنے تیارہے۔ ری ایکٹر کے کام کرنے کی تفصیل جو ایک بچہ خالص سائنسی زبان میں بیان کرتا ہے، اگر میری طرح آپ کے بھی سر کے اوپر سے گزر جائے تو کوئی بات نہیں، آپ یہ تسلی کرسکتے ہیں کہ یہ بچے آگے چل کر ہماری سوچ سے ماوراء کارنامے بھی سرانجام دے سکتے ہیں۔

یہی نہیں بلکہ ذہنی آزمائش کے کئی دلچسپ کھیل بھی ہیں، جو طلبہ آنے والے مہمانوں کی تواضع ذوق کے لیے پیش کررہے ہیں۔ میں نے یہاں کوئی ایسی چیز نہیں دیکھی جو معیار، سلیقے، ترتیب اور پیشکش میں حس لطیف کے بہترین تاثر سے عاری ہو۔ میں نے اسکول کے سینئر استاذ، ماہر تعلیم اور کالم نگار سید حسن الله ہما صاحب سے حیرت واستعجاب کے اپنے جذبات کا اظہار کیا تو ان کا جواب تھا #
ذرا نم ہوتو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
ظاہر ہے کہ ساری زندگی تدریس کے عمل سے وابستہ رہنے والے ایک شخص کا یہ بیان محض رواں تبصرہ نہیں ،بلکہ اس امید اور یقین کا اظہار ہے کہ اگر اس قوم کے نونہالوں کو صحیح تعلیم، تربیت اور ماحول فراہم کیا جائے تو اس ملک کے سارے دلدر دور ہوسکتے ہیں۔

اقراء کے حافظ قرآن بچوں کے ان شاندار تخلیقی جواہر پاروں کو دیکھ کر میرے اس یقین میں اضافہ ہوا کہ جس بچے کی تعلیم کی ابتداء قرآن کریم سے ہوجائے، اس میں غیرمعمولی صلاحیتوں کا پیدا ہونا فطری امر ہے۔ آج ہم اسلامی تاریخ کے جس زریں عہد پر فخر کرتے ہیں، یہ وہ دور ہے جس میں مسلمان بچے کی تعلیم کی ابتداء قرآن کریم سے ہوتی تھی اور تفسیر، حدیث اور فقہ کو بنیادی تعلیم کا درجہ حاصل تھا، اس کے بعد ہر بچہ اپنے اپنے ذوق اور ذہنی میلان کے مطابق دیگر علوم وفنون کی طرف متوجہ ہوتا تھا اور اسی بناء پر بڑے بڑے دماغ سامنے آتے تھے۔

اقراء روضة الاطفال نے اپنے نظام تعلیم میں اسلامی تاریخ کے اس شاندار دور کو ایک بار پھر آواز دینے کی اچھی کوشش کی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ دین ودنیا کے حسین امتزاج کے تصور پر مبنی متوازن نظام تعلیم ہی ہمارے روشن اور مضبوط مستقبل کی نوید ہے۔ اقراء حفاظ بوائز سیکنڈری اسکول کی عمارت سے باہر آتے ہوئے اقراء نظام تعلیم کے بانی اور ہمارے مخدوم ومحبوب مولانا مفتی جمیل خان شہید کا چہرہ میرے چشم تصور کے سامنے تھا اور زبان پر بے ساختہ یہ اشعار تھے #
خوابوں کی طرح تھا نہ خیالوں کی طرح تھا
اک شخص اندھیروں میں اجالوں کی طرح تھا
الجھا ہوا ایسا کہ کبھی حل نہ ہوسکا
سلجھا ہوا ایسا کہ مثالوں کی طرح تھا
وہ مل تو گیا تھا مگر اپنا ہی مقدر
شطرنج کی الجھی ہوئی چالوں کی طرح تھا
وہ روح میں خوشبو کی طرح ہوگیا تحلیل
جو دور بہت چاند کے ہالوں کی طرح تھا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :