ارتقاء کا سفر ۔ قسط نمبر2

پیر 29 دسمبر 2014

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

ہم پاکستان کی بات کر رہے تھے ۔ پاکستان نے 68سالوں میں اپنی عمر اور اپنے قد سے بڑھ کر کامیابیاں حاصل کی ہیں ۔ دنیا میں کو ئی ملک ، کوئی قوم اور تہذیب ایسی نہیں جس نے اپنی پیدائش کے فورا بعد کا میابی کے جھنڈے گاڑ دیئے ہوں ، افراد ہوں ، اقوام یا ملک سب کو ارتقاء کے پل سے ضرور گزرنا پڑتا ہے۔ آج آپ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست بنائیں اور ا س کے بعد ان ممالک کی تاریخ اور ان کی ترقی کا جا ئزہ لیں آپ کو نظر آئے گا یہ تمام ممالک مسائل کے دریا عبور کر کے اس مقام تک پہنچے ہیں ، ان تما م ممالک نے مشکلات کی ندیاں عبور کی ہیں اور یہ تمام ممالک کرپشن، لاء اینڈ آرڈر، خانہ جنگی اور آمریت کے پہاڑ کاٹ کر موجودہ مقا م تک پہنچے ہیں ۔

آپ صرف فرانس کی مثال لے لیں ، فرانس اٹھارویں صدی تک دنیا کا بدترین ملک تھا ، 1789تک فرانس میں بادشاہی نظام تھا اور عوام فاقوں سے مر رہے تھے ۔

(جاری ہے)

بادشاہ نے اپنی ایک مجلس شوری بنا رکھی تھی جس کا کام صرف ٹیکس نافذ کر نااور عوام کا خون چوسنا تھا۔ شوریٰ میں تین طرح کے لوگ شامل تھے، جاگیردار، کلیسا اور عوام ۔ عوام کی نمائندگی برائے نام تھے، کلیسا اور جاگیر دار آپس میں ملے ہوئے تھے اور جب کو ئی قانون پاس کر نا ہو تا دونوں آپس میں گٹھ جو ڑ کر لیتے اور عوام بیچارے منہ دیکھتے رہ جاتے ۔

شوری ٰ کا اجلاس طلب کر نا بادشاہ کی صوابدید پر تھا ، آپ یہ سن کر حیران ہوں گے 1789تک سینٹ کے اجلاس کو بلائے ہوئے 116سال گزر چکے تھے یعنی 116سالوں سے سینٹ کا کو ئی اجلاس ہی نہیں ہو ا تھا ۔ بادشاہ اپنی فضول خرچیوں اور جاگیردار اور کلیسا عوام کا خان نچوڑنے میں مصروف تھے۔ عوام کا غصہ آخری حدوں کو چھو رہا تھا ، عوام نے سینٹ کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کر دیا ، بادشا ہ کے انکار پر عوام نے اپنے مسائل خو دحل کرنے کا ارادہ کیا، عوامی راہنمااکھٹے ہوئے اور اپنا الگ اجلاس بلا لیا ۔

عوام نے اپنی الگ اسمبلی بنا لی اور قومی اسمبلی کا لفظ پہلی بار یہیں استعمال ہوا ، عوامی راہنما ایک ٹینس کو رٹ میں اکھٹے ہوئے اور ملک کے لیئے ایک نیا دستور مرتب کر لیا ، دستور مرتب ہوا تو عوام اس کے حق میں سڑکوں پر نکل آئے اور بادشاہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اس دستور پر دستخط کرے ، بادشاہ نے انکار کیا تو عوام اسے زبردستی اٹھا کر لے آئے اور اس سے دستخط کروا لیئے ۔

دستخط کر نے کے بعد بادشاہ کو خیال آیا کہ اگر میں اب بھی سویا رہا تو اقتدار ہاتھ سے نکل جائے گا ، اس نے جرمنی کی مدد سے انقلابیوں کو سبق سکھانا چاہا لیکن اس وقت تک چڑیاں کھیت چگ چکی تھیں ، انقلابیوں کو اس سازش کا علم ہوا تو انہوں نے بادشاہ کو پکڑ کر جیل میں بند کر دیا ،کچھ عرصے بعد ا س پر بغاوت کا مقدمہ چلااور اس کا سر قلم کر دیا گیا۔

یہ فرانس کا ماضی تھا اور اس انقلاب کے بعد فرانس نے فرانس بننے کا سفر شروع کر دیا ۔ آج فرانس اگرفرانس ہے تو اس فرانس کے پیچھے ایک لمبی کہانی اور ایک طویل جد و جہد ہے۔ آپ کو اٹھارویں صدی کے فرانس اور 2014کے پاکستان کے مسائل ایک جیسے نظر آئیں گے ، وہی بادشاہی نظام ،ٹیکسز کا نفاذ، عوامی غصہ، جاگیرداری نظام، اقرباء پروری، کرپشن، سرمایہ داروں کا گٹھ جوڑ اور عوام کا استحصال۔

فرانس نے اپنے اس فرسودہ اور گلے سڑے نظام کے خلاف بغاوت کی ، حکمرانوں اور جاگیر داروں کے خلاف اکٹھے ہو ئے اور طویل جد وجہد کے بعد وہ اس مقام تک پہنچ گئے ،۔ آج پاکستان بھی ارتقاء کے انہی مراحل سے گزر رہا ہے اور بہت جلد یہ ملک بھی اپنے پاوٴں پر کھڑا ہو جائے گا۔
اب ہم آتے ہیں اس سوال کی طرف کہ دنیا کے بہت سارے ممالک ایسے ہیں جنہوں نے بہت کم عرصے میں ترقی کی ہے ، انہوں نے صدیوں کا سفر سالوں اور سالوں کا سفر مہینوں میں طے کیا ہے۔

آپ کہہ سکتے ہیں عرب ریاستیں اور بہت سے یورپی ممالک ایسے ہیں جو پاکستان کے بعد آذاد ہوئے لیکن آج وہ ترقی یافتہ ممالک کی صف میں سب سے اوپر کھڑے ہیں ۔ ناروے ، ڈنمارک، سوئرزلینڈ،آئر لینڈ ،بیلجئم، سنگا پور، بحرین ، مسقط، عمان، کویت، عرب امارات، اردن اور برونائی سب ایسے ممالک ہیں جنہوں نے بہت کم عرصے میں ترقی کی ہے اور آج یہ ممالک ترقی یافتہ ممالک میں سر فہرست ہیں ۔

ان ممالک کی ترقی کی حقیقت جا ننے سے پہلے آپ ان ممالک کا جغرافیہ ، ان کی آبادی ، ان کے ہمسائے ممالک اور ان کی معیشت کا جائزہ لیں ۔ ناروے کی آبادی صرف 51لاکھ ہے ، فن لینڈ 55لاکھ ، سنگا پور 55 لاکھ ، آئر لینڈ 46لاکھ ، سویڈن 98لاکھ ، ڈنمارک 57لاکھ اور اسی طرح عرب ریاستوں کی آبادی بھی لاکھوں کے ہندسے سے تجاوز نہیں کر تی ، اب یہ چھوٹے چھوٹے ممالک ہیں ، ان کی آبادی ساتویں ہندسے سے آگے نہیں بڑھتی ، ان کی ہمسائے ممالک کے ساتھ کو ئی جنگ نہیں ، انہیں ایٹم بم، فوج اور اسلحے کی پرواہ نہیں ،ان کی جغرافیائی حیثیت نے انہیں ہر طرح کے خطرات سے محفوظ رکھا ہوا ہے اور شرح خواندگی ان ممالک میں سو فیصد ہے لہٰذا ان ممالک کی ترقی ایک لازمی امر ہے ۔

جبکہ پاکستان کی جغرافیائی حیثیت، ہمسایہ ممالک ، آبادی ، شرح خواندگی اور انرجی کے مسائل یکسر مختلف ہیں ۔پاکستان کی آبادی تقریبا بیس کروڑ کی حدوں کو چھو رہی ہے ،صرف کراچی شہر کی آبادی ڈیڑھ کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے ، لاہور شہر بھی ڈیڑھ کروڑ افراد کو اپنے دامن میں سمائے بیٹھا ہے لہٰذا 50لاکھ آبادی والے ملک اور ڈیڑھ کروڑ آبادی والے شہر کا موازنہ کیسے کیا جا سکتا ہے ۔

ظاہر ہے جس شہر کی آبادی ڈیڑھ کروڑ ہو گی اس کے مسائل بھی اسی لحاظ سے ہوں گے ، جس ملک پر بیس کروڑ عوام کا بوجھ ہو گا اس کے مسائل بھی اسی لحاظ سے ہو ں گے ، اس ملک میں ٹرانسپورٹ ، سڑکیں ، بازار، ریلوے ، ایئر پورٹس، شاپنگ مالز، گھر، فلیٹ ، سیوریج سسٹم ،صاف پانی، غذائی اجناس اور ضروریات زندگی کے مسائل بھی اسی حساب سے ہوں گے ۔یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک ایسا ملک جس کی آبادی بیس کروڑ، جس کی فوج دس لاکھ، جس کے ہمسائے انتہائی ”شریف“، جس کی شرح خواندگی ساٹھ فیصداور جس کو اپنا میزائل سسٹم اور ایٹمی سسٹم اپ گریڈ رکھنا ہو اس ملک کے مسائل اور ایک ایسا ملک جس کی آبادی صرف پچاس لاکھ ، فوج صرف دس ہزار ، ہمسائے بے ضرر اور اس کی شرح خواندگی سو فیصد ہو ان دونوں کے مسائل ایک جیسے ہوں ؟ شاید ایسا نہیں ہو سکتا اور اگر ہم ایسا کر تے اور سوچتے ہیں تو شاید ہم غلط ہیں ۔

اسی طرح آپ عرب ریاستوں کو دیکھ لیں ، یہ بھی سب چھوٹی چھوٹی ریاستیں ہیں ، ان کی آبادی لاکھوں سے تجاوز نہیں کرتی ، ہمسایہ ممالک کے ساتھ کو ئی جنگ نہیں اور میزائل اور اسلحے کی انہیں ضرورت نہیں، اور ویسے بھی جب سے تیل دریافت ہوا ہے ان ریاستوں کی ترقی کو پر لگ گئے ہیں ۔
میں یہ نہیں کہتا کہ پاکستان ایک آئیڈیل ریاست ہے یقینا مسائل ہیں لیکن مسائل ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ ہم صبح شام ٹی وی اسکرینوں پر بیٹھ کر اس ملک کی تباہی اور بربادی کے دعوے کریں ۔ اب رہا یہ سوال کہ چین ، جاپان اور انڈیا ہمارے ساتھ آذاد ہو ئے تھے اور ان ممالک کے مسائل بھی ہمارے جیسے تھے تو یہ ملک کیسے آگے نکل گئے ؟ اس کا جواب اگلے کالم میں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :