حکومتی آپریشن میں دوہرا معیار

پیر 29 دسمبر 2014

Syed Farzand Ali

سید فرزند علی

جس طرح نائن الیون واقعہ کے بعد امریکہ اور اسکی اتحادی افواج نے افغانستان پر دھاوا بول دیاتھا آج اسی طرح سانحہ پشاور کے بعد پاکستانی سیکورٹی اداروں نے بھی دینی مدارس پر دھاوابول دیاہے نائن الیون واقعہ میں کوئی افغانی ملوث نہیں تھا لیکن پھر بھی دہشت گردامریکہ اور اسکی اتحادی افواج نے بمباری کرکے ہزاروں مسلمان افغانیوں کو شہید کردیاسانحہ پشاور میں بھی دینی مدارس کا کوئی طالب علم ملوث نہیں تھا اس کے باوجود حکومت اور سیکورٹی ادارے ناصرف دینی مدارس کو شک وشبہ کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں بلکہ انہیں ہراساں بھی کرنا شروع کردیاگیا صوبائی دارلحکومت لاہور سمیت ملک بھر کے مختلف دینی مدراس میں چھاپوں کا سلسلہ جاری ہے اور مشکوک افراد کے نام پر گرفتاریاں بھی کی جارہی ہے لیکن دینی مدارس میں گرفتار کئے گئے ابھی تک ایک بھی ایسے شخص کومنظر عام پر نہیں لایاگیاجو سانحہ پشاور یا کسی دیگر دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث پایاگیاحالانکہ سابق صدر جنرل (ر)پرویز مشرف اور جی ایچ کیوپر حملوں میں ملوث جن دہشت گردوں کو پھانسیاں دی گئی ان میں بھی کوئی شخص دینی مدارس سے فارغ التحصیل نہیں تھا وہ مختلف سکولوں ،کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھتے رہے لیکن سیکورٹی اداروں نے ان سکولوں ،کالجوں اور یونیورسٹیوں میں آج تک ایک بھی چھاپہ نہیں مارا گیا ۔

(جاری ہے)


گذشتہ دنوں وزیر اعظم محمد نوازشریف کی زیرصدارت پارلیمانی جماعتوں کی آل پارٹی کانفرنس میں دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کاروائیوں کی منظوری کے ساتھ ساتھ سوال وجواب کی نشست بھی ہوئی جس میں جمعیت علماء اسلام (ف)کے قائد مولانا فضل الرحمن نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ پاکستان میں عسکری تنظیمیں کس نے پیدا کیں ؟جس پر جنرل راحیل شریف نے جواب دیا کہ مولانا آئندہ آپکو یہ شکوہ نہیں ہوگا جس پر مولانا فضل الرحمن کاکہناتھاکہ آئندہ مدارس سے بھی کسی کو کوئی شکوہ نہیں ہوگا مولانا فضل الرحمن کا مزید کہناتھاکہ دینی مدارس کو مغربی ایجنڈے کے تحت بدنام کیاجارہاہے اگر ملک میں یکساں نصاب تعلیم رائج کرنا ہے تو پھر ملک بھر کے تمام تعلیمی اداروں میں یکساں نصاب تعلیم رائج کیاجائے مدارس بھی یکساں نصاب تعلیم رائج کرلیں گے ۔


دوسری طرف جمعیت علماء اسلام (س)مولانا سمیع الحق بھی شکوہ کررہے ہیں کہ مغربی قوتوں کی خواہش پرہمیں خواہ مخواہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ جوڑا جارہاہے حالانکہ کہ ہم نے پاکستان فوج کے ساتھ ملکر افغان جہاد میں حصہ لیاتھا انکاکہناتھاکہ افغان طالبان کے ساتھ ہمدردیاں ضرور ہیں کیونکہ افغان طالبان قابض افواج کے خلاف آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں لیکن کالعدم تحریک طالبان پاکستان سمیت کسی دہشت گردتنظیم سے ہمارا یا ہمارے کسی ساتھی کاکوئی تعلق نہ ہے مولانا سمیع الحق کامزید کہناہے کہ پاکستانی طالبان کے ساتھ مذاکرات وزیر اعظم نوازشریف کی خواہش پر شروع کئے گئے جو کامیابی کے آخری مراحل میں داخل ہوچکے تھے لیکن بیرونی پریشر پرحکومت مذاکرات سے بھاگ گئی اور ہم نے بھی خاموشی اختیار کرلی اب الزام ہم پر کیوں لگایاجارہاہے ؟
وفاق المدارس العربیہ پاکستان ،وفاق المساجد پاکستان، پاکستان علماء کونسل اور صوت الاسلام پاکستان سمیت مختلف دینی جماعتوں کی جانب سے سانحہ پشاور کی کھل کر مذمت کی گئی اور مطالبہ کیاگیاسانحہ پشاور میں ملوث دہشت گردوں کے خلاف ایکشن لیکر انہیں عبرتناک سزائیں دی جائیں اس کے علاوہ تمام دینی جماعتوں نے حکومت کی جانب سے دہشت گردوں کو پھانسی دینے کے فیصلے کی ناصرف حمایت کی بلکہ مطالبہ کیاکہ صرف دہشت گردہی نہیں بلکہ قتل وغارت گری کرنے والے تمام افراد کو پھانسی کی سزادی جائے کیونکہ خون کے بدلے خون کی سزااللہ کا قانون ہے جس سے انحراف نہیں کیاجاسکتا جبکہ اقوام متحدہ اور پاکستان میں موجود غیرملکی امداد سے چلنے والی این جی اوز نے دہشت گردوں کو پھانسی دینے کی مخالفت کی ہے لیکن اس کے باوجود حکومت ان نام نہاد این جی اوز کے خلاف کاروائی سے گریزکررہی ہے حکومت پاکستان اور ریاستی ادارے مدارس سے سوال کرتے ہیں کہ انہیں فنڈنگ کون کررہاہے ؟ لیکن نام نہاد این جی اوز سے سوال نہیں کیاجاتاکہ انہیں فنڈنگ کون کررہاہے ؟یہ دوہرامعیار پاکستان کو کبھی قائداعظم کا پاکستان نہیں بناسکتا ۔


پاکستانی دینی مدارس اور مساجد کو شاید یہ اعتراض نہ ہوگا کہ حکومت تمام دینی مدارس اور مساجد کو اپنے کنٹرول میں لے لیں اور تعلیمی اخراجات ،اساتذہ وعلماء کرام کی تنخواہیں حکومت برداشت کرئے لیکن جو حکومت اپنے تعلیمی اداروں کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتی اور اسے بیرون ممالک کی ایسی نام نہاد تعلیمی این جی اوز کا سہارالیناپڑتاہے جنہوں نے پاکستانی تعلیمی نظام کا بیڑہ غرق کردیا وہ حکومت دینی مدارس اور مساجد کو کسطرح چلاسکے گی ؟
وزیر اعظم نوازشریف نے قومی ایکشن پلان کیلئے تین ورکنگ گروپ تشکیل دے دئیے ہیں اب جلد ہی عملدرآمد کا آغاز ہوجائے گا فوجی عدالتوں کے قیام کیلئے بھی مسودہ تیار کر لیا گیاوزیر اعظم پاکستان کے ان اقدامات پردینی مدارس سمیت پور ی قوم حکومت کے ساتھ ہوگی لیکن دہشت گردوں کے نام پربیرونی ایجنڈے کے تکمیل کیلئے دینی مدارس کے خلاف ایکشن کوئی قبول نہیں کرئے گا حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وزیر داخلہ نے دہشت گردی وانتہاپسندی میں ملوث جن10فیصد دینی مدارس پرسوالیہ نشان لگایاہے ان دینی مدارس اور سربراہوں کے ناموں کو منظرعام پر لایاجائے یقینا تمام دینی مدارس کے وفاق حکومت کے ساتھ ہونگے لیکن محض سوالیہ نشان لگانے سے ملک میں اشتعال انگیزی میں ناصرف اضافہ ہوگابلکہ مزید مسائل بھی پیدا ہونگے اور پاکستان مزید مسائل کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :