ہم بھی ہیں صف آرا

جمعرات 25 دسمبر 2014

Prof.Mazhar

پروفیسر مظہر

چوٹ بہت گہری ،ناقابلِ بیاں ،ناقابلِ برداشت۔دردکی کوئی زباں نہ کَرب کی ۔زبانیں گُنگ اور زنگ آلود ،آنکھیں پتھرائی ہوئیں اور لفظی بازی گری کے سارے حربے ناکام کہ ذہن کے اداس صفحے پر کوئی خیال ٹھہرتاہی نہیں ۔ نرغہٴ وہم وگماں کے کسی دورافتادہ گوشے میں بھی یہ شائبہ تک نہ تھا کہ کوئی اتناوحشی ،اتنادرندہ ،اتناشقی القلب بھی ہوسکتاہے کہ معصوم پھولوں اور کلیوں کو مسل کر اپنی مردانگی کا ثبوت دے گا۔

صبرکا یارانہیں پھربھی لَب خاموش کہ یہی اذنِ ربی اور یہی حکمت کی کتاب میں درج ”کوئی ذی روح اللہ کے اذن کے بغیر مر نہیں سکتا ،موت کا وقت تو لکھا ہواہے “(آل عمران)۔ربّ ِ لَم یزل نے خودہی یہ حکم دے دیا” شہید کو مُردہ مت کہو ،وہ زندہ ہے “۔اِس لیے ہم اپنے شہیدوں کو مردہ کہنے کی جسارت نہیں کرسکتے ۔

(جاری ہے)

دُنیادیکھ لے کہ ہمارے معصوم شہیدوں کے لہوسے ٹپکتی نور کی کرنوں نے ہماری بے حسی کے سارے قفل توڑکر کچھ کرگزرنے کی امنگوں کو جواں کردیا ورنہ ہم تو نااُمیدی کی بکل اوڑھے یہی سمجھتے رہے کہ

دور لگے وہ وقت ابھی جب ٹھہری رات کے آنگن میں
پھیکا پڑ کے چاند ہمیں آثارِ سحر دکھلائے گا
پوری قوم یکسو اور ہرکسی کی زبان پر حضرت عمر کا یہی قول کہ ”ظالموں کو معاف کرنا مظلوموں پرظلم کے مترادف ہے “۔

طالبان کے جذباتی حامی بھی اُن سے نفرت کا برملااظہار کررہے ہیں ۔محترم عمران خاں نے اپنی ساری سیاسی سرگرمیاں ترک کرکے اعلان کردیا کہ وہ میاں نوازشریف کی قیادت میں یہ جنگ لڑنے کے لیے ہمہ وقت تیارہیں۔مولانافضل الرحمٰن نے کہا ”ہم اپنے نونہالوں کو خون آلود مستقبل دینے پر شرمندہ ہیں اورہم اُنہیں امن کی نویدبھی نہیں دے سکتے “۔محترم سراج الحق نے سانحہ پشاورکو حیوانیت قراردیتے ہوئے کہا ”ہم نے جنازوں پر پھول تو دیکھے لیکن آج ہم نے پھولوں کے جنازے پڑھے ہیں“۔

اکابرینِ جماعت اسلامی نے سانحہ پشاور کی بھرپورمذمت کی اور چھوٹے بڑے کئی شہروں میں اِن پھولوں کی غائبانہ نمازِجنازہ بھی پڑھی لیکن ایک بدفطرت اینکر نے طالبان کے حوالے سے جماعت اسلامی کو بدنام کرنے کی بھرپور کوشش کی ۔اُس بدکُن نے یہ تک نہ سوچا کہ جتنی ملّی یکجہتی کی آج ضرورت ہے پہلے کبھی نہ تھی کیونکہ اب اِس میں معصوم شہیدوں کالہو بھی شامل ہوچکاہے ۔

جب ٍاینکر موصوف سے سوال ہے کہ اگر طالبان سے مذاکرات کی حمایت کرنے والا اور اُن کے لیے دل میں نرم گوشہ رکھنے والا لائقِ تعزیر ہے تو پھرمحترم عمران خاں سمیت اِس جرم میں سبھی سیاسی جماعتیں شریک ہیں اور افواجِ پاکستان بھی کیونکہ صرف جماعت اسلامی ہی نہیں ،اُس وقت سبھی مذاکرات کے حامی تھے لیکن جب اُن کے مکروہ چہرے سامنے آئے تو سبھی نے نہ صرف اِس کی بھرپورمذمت کی بلکہ دہشت گردوں کو نیست ونابود کرنے کا عہدبھی کیا ۔

سبھی جانتے ہیں کہ اینکرموصوف کی زبان سے کبھی سچ نہیں نکلا اسی لیے وہ عدالتوں میں دھکے کھاتے اور رسواہوتے رہتے ہیں لیکن چونکہ موصوف جھوٹ بولنے کے نفسیاتی مریض ہیں اِس لیے بے بس ہیں ۔
طالبان سے مذاکرات کا ڈول ڈالاگیا اور مذاکرات کا مینڈیٹ حاصل کرنے کے لیے اے پی سی بلائی گئی اور مذاکرات کا فیصلہ بھی ہوگیا توتب بھی میں نے یہی لکھا کہ یہ محض وقت کا زیاں اور طالبان کو اپنی صفیں درست کرنے کا موقع دینے کے مترادف ہے ۔

میں نے یہ بھی عرض کیا کہ
پکڑ کے زندہ ہی جس درندے کو تم سدھانے کی سوچتے ہو
بدل سکے گا نہ سیدھے ہاتھوں وہ اپنے انداز دیکھ لینا
لیکن تب سبھی اتمامِ حجت کے چکر میں تھے اور وزیرِاعظم صاحب نے بھی پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر یہ فرمایاتھا کہ ”ہم مذاکرات کو ایک اور موقع دینا چاہتے ہیں “۔دوسری طرف طالبان نے مذاکرات کو حکومتی کمزوری سمجھتے ہوئے ہمارے دلوں پر ایسے گہرے گھاوٴ لگائے کہ ہم آپریشن ضربِ عضب پرمجبور ہوئے اور محترم جنرل راحیل شریف کی قیادت میں جری جوانوں نے وہ کچھ کردکھایا جس کے بارے میں لوگ کہتے تھے کہ یہ ناممکن ہے ۔

میں سمجھتا ہوں کہ سانحہ پشاور بجھتے دیے کی لَو ہے اوروحشی درندوں کا انجام قریب۔
عین اُس وقت جب پوری قوم حالتِ سوگ میں ہے ،پتہ نہیں مولاناعبدالعزیز کے مَن میں کیاآئی کہ انہوں نے انتہائی شَرپسندانہ بیان داغ دیا ۔سانحہ لال مسجدکا ہم نے کئی روزتک سوگ منایا اور کالم بھی لکھے ۔آمرپرویزمشرف کے حکم پر جس طرح سے جامع حفصہ اور لال مسجدکے معصوم طلباء وطالبات کو فاسفورس بموں سے جلایاگیا وہ آج بھی اُتناہی اذیت ناک ہے جتنا کہ اُس وقت تھا لیکن لال مسجدکے خطیب مولاناعبد العزیز نے یہ کیا کہہ دیاکہ یہ آپریشن ضربِ عضب کا ردِعمل ہے ۔

وہ بھلے دہشت گردوں کی مذمت نہ کریں کہ قوم کو اُن کی مذمت کی ضرورت بھی نہیں لیکن اپنا مُنہ بندرکھیں کہ یہ اُنہی کے لیے بہتر ہے کیونکہ قوم کے جذبات کا الاوٴ اپنی انتہاوٴں پرہے اور کہیں ایسا نہ ہو کہ مولانا جذبات کے اِس الاوٴ میں بھسم ہوجائیں ۔مولانا عبدالعزیز سے سوال ہے کہ قیدیوں کا قتل کس شریعت کادرس ہے ؟۔نہتے ،معصوم اور بے گناہ مسلمانوں کو بم دھماکوں اور خودکش حملوں میں مار دینا کہاں کا اسلام ہے؟ ۔

درسگاہوں ،امام بارگاہوں اور مساجدپر حملے کس دین میں جائزہیں ؟۔کیا قُرآن وحدیث اور کسی بھی فقہ میں ایسی وحشت ودرندگی کی اجازت ہے کہ ننھے منے معصوموں کو بے جرم وخطا شہید کردیا جائے ؟۔میرادین تو کھیتوں،کھلیانوں کو اجاڑنے سے بھی منع کرتا ہے لیکن اِن درندوں نے تو ہسپتالوں ،مارکیٹوں ،بازاروں ،شاہراہوں ،بینکوں حتیٰ کہ جنازوں تک کو بھی نہیں چھوڑا ۔

اِن بزدلوں کا ٹارگٹ تو ہروہ جگہ ہے جہاں نہتے عوام کا ہجوم ہو ۔مولاناصاحب ! آپ اپنا دین اور اپنی شریعت اپنے پاس سنبھال کر رکھیں کیونکہ دینِ مبین میں تو اِس کی کوئی گنجائش نہیں ۔اسی حوالے سے اکابرینِ ایم کیوایم اور خصوساََ الطاف بھائی سے استدعاہے کہ اتنی دور نہ نکل جائیں کہ مراجعت ممکن نہ ہو ۔محترم حیدرعباس رضوی نے مولانا عبد العزیز کے خلاف مذمتی بیان میں فرمایا ”پاکستان کا سنٹر آف گریوٹی کراچی ہے ،کراچی کا سنٹر آف گریوٹی نائین زیرو اور نائین زیرو کا مالک الطاف حسین “۔

گویا پاکستان کے مالک محترم الطاف حسین ہیں ۔یہ بجا کہ کراچی پاکستان کا سنٹر آف گریوٹی ہے اور نائین زیرو کے مالک الطاف حسین ہی ہیں لیکن کراچی کا سنٹر آف گریوٹی نائین زیرو ہرگز نہیں ۔کراچی سب کا ہے اور ہرپاکستانی کے دل میں بستاہے اِس لیے ایم کیوایم کراچی پر اپنا حقِ ملکیت ثابت کرنے کی کوشش نہ کرے کیونکہ ایسا کرنے سے نقصان بہرحال اُن کاہی ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :