معافی آخر کیوں

جمعرات 25 دسمبر 2014

Muhammad Wajid Tahir

محمد واجد طاہر

آج پھر ہم ہار گئے ہر بار کا ہار جاناہم سب کو کافی کوفت میں مبتلا کر دیتا تھاہر دفعہ ہم عزم کرتے تھے کہ ہم اس دفعہ جیت کر رہیں گے مگرآج پھر ہار ہمارا مقدر بنی۔ باوجود اس کے کہ انڈین ہمارے باولنگ اٹیک سے خوف ذدہ رہتے تھے اور ہم ہمیشہ انکو تھوڑے سے اسکور پر آوٹ بھی کر لیتے تھے مگر ہم پھر بھی ہار جاتے تھے۔ جب ہم اسکور کا پہاڑ کھڑا کرتے تو اس دن وہ ٹارگٹ کو پہنچ جاتے تھے۔

بلاشبہ دونوں جانب پلیئرز بہترین صلاحیتوں کے حامل تھے ۔میچز میں سپورٹس مین سپرٹ اور فائیٹ دونوں قابل تعریف ہوتے تھے مگر ہم اکثر ہار جاتے اور ہر دفعہ ہم ہار کی ذمہ داری ان پلیرئز پر ڈال دیتے جو اس دن اچھا پرفارم نہیں کر پاتے تھے یا پھر کپتان ان ساتھیوں کو کوستا تھا جو وعدہ کر کے بھی گراونڈ میں نہیں آتے تھے اور کھیل کا حصہ نہیں بنتے تھے۔

(جاری ہے)

مگر انڈین لڑکوں سے گراونڈ بھرا ہوتا تھا۔ ایک تو انکی تعداد بہت ذیادہ تھی اور دوسرا وہ پاکستان سے کھیلنے آتے تھے۔
کل ایک جرمن دوست نے گھر کھانے کی دعوت دی۔ وہ دوست انٹرنیشنل ریلشنز میں پی ایچ ڈی کر رہا تھا اور اسکی ریسرچ کا ایریا انڈیا پاکستان کے ساوتھ ایشین ممالک سے تعلقات تھی کھانے کے دوران بات چیت انڈیا پاکستان کے تعلقات کی طرف چل نکلی ۔

اس دوست کے مطابق آنے والے وقت میں پاکستان کوانٹرنیشنل کمیونٹی میں بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑھ سکتا ہے خصوصا جب اسکے اعتماد کا رشتہ اپنے ان پڑوسی ممالک کے ساتھ بھی خراب ہو چکا ہے جو اسکے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے وہ دوست تو اپنے دلائل میں یہ بھی کہہ گزرا کہ پاکستان کا اپنا وجودبھی خطرے سے دوچار ہو سکتا ہے۔اسکے مطابق خطے میں دونوں ممالک ایٹمی طاقت ہیں لیکن موجودہ حالات یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ نریندر مودی کی سرکار انڈیا کو ترقی کے وہ تمام زینے طہ کرنے میں مد د کرے گی جو انکی پچھلی حکومتیں نہیں کر پائیں۔

کیونکہ انڈیا کے امریکا سے بڑتے ہوئے تعلقات کے پیش نظر علاقائی سیاست میں پاکستان کا دخل بہت کم رہ جائے گا ۔ انڈیا اپنے تعلقات تمام پڑوسی ممالک سے ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان تعلقات میں تجارت اور دفاع کے معاہدوں کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ اور جو داخلی مسائل کا سامنااس وقت پاکستان کو ہے اس سے تو صاف لگتا ہے کہ پاکستان کے لوگ ان آنے والے مشکل حالات کا ادراک ہی نہیں کر پا رہے۔

اور یوں لگتا ہے کہ تم لوگوں کی آپس کی انارکی تمہارے ملک کو اس ریس میں بہت پیچھے چھوڑ دے گی۔ میں نے اسکی ان باتوں پر اتفاق نہیں کیا اور مختلف دلائل سے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ اب دنیا کی سیاست تبدیل ہو رہی ہے۔یہ بات درست ہے کہ پاکستان کو اس وقت کافی داخلی اور خارجی مسائل کا سامنا ہے مگرہم ان کا بہادری سے مقابلہ کر رہے ہیں اور کامیابی کے لیے پر امید ہیں اگر ہمارے ہمسائے ہمارے معاملات میں دخل دینا بند کر دیں۔

میں نے اس سے پوچھا تمہیں کیا لگتا ہے کہ پاکستان کو جو اس وقت مسائل کا سامنا ہے اس کا ذمہ دار انڈیا نہیں ہے۔ میں نے اسے کافی تفصیل سے بتایا کہ کس طرح انڈیا ہمارے ملک میں دخل اندازی کر رہا ہے اور بجائے اس کے کہ وہ ہماری اس جنگ سے نکلنے میں مدد کرے جو کہ ہم شدت پسندوں کے خلاف لڑ رہے ہیں وہ ان شدت پسندوں کو سپورٹ کرتا ہے ہمارے پاس اسکی انوالومینٹ کے ٹھوس شواہد ہیں ۔

وہ بولا میں تمہارے جذبات کوسمجھتا ہوں مگر حقیقت اس کے برعکس بھی ہو سکتی ہے میں یہ نہیں کہتا کہ انڈیا تمہارے ملک کے ان حالات سے الگ ہے مگر وہ تمہارے ملک سے لڑ تو نہیں رہا ۔ یہ تو تہارے اپنے لوگ ہیں جو ایک دوسرے کو نقصان پہچارہے ہیں۔آج جب پاکستان میں لوگ کسی بلاسٹ میں مرتے ہیں تو مرنے اور مارنے والے دونوں پاکستانی ہیں ہوتے ہیں۔ مجھے ایسا لگتا ہے انڈیا تم لوگوں کے ساتھ ڈیوائیڈ اینڈ رول کی گیم کر رہا ہے اور تم لوگ اسکا آسانی سے شکار ہو رہے ہو۔

تم لوگوں کے آپس کے اختلافات اس کے کام کو اور آسان کر رہے ہیں۔ جانتے ہو میں جب بھی تم لوگوں کے کرکٹ میچ دیکھتا ہوں تو کھیل کے علاوہ میں نے تمہارے رویوں کے بارے میں ایک اور چیز سیکھی ہے ۔ اور وہ ہے تم لوگوں کی نا اتفاقیاں اور انڈینز کا تم لوگوں کے خلاف اتحاد۔
میں نے پوچھا وہ کیسے۔ وہ بولا لگتا ہے تم کرکٹ کھیلنے کے باوجود ان میچز سے کچھ نہیں سیکھتے ۔

میں نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا کیا۔ وہ ہنس دیا اور بولا اب تم اتنے انجان مت بنو تم جانتے ہو میرا اشارہ کس چیز کی طرف ہے۔ہر میچ میں تم لوگ اپنی تعداد پوری نہیں کر پا تے اور اگر کبھی ٹیم مکمل ہو بھی جائے تو میچ کے دوران آدھے لوگ تو ایک دوسرے سے خفا نظر آتے ہیں۔ یہ صاف دکھ رہا ہوتا ہے کہ تم لوگوں کی ٹیم اس لیے پوری نہیں ہو پاتی کیونکہ تم میں سے کچھ لوگ آپس میں جھگڑے ہوئے ہیں اور ان جھگڑوں کی وجہ سے تم لوگ اکٹھے نہیں ہو پاتے ۔

اسی لیے باوجود سخت کوشش اور مقابلہ کے تم اکثر ہارجاتے ہو۔ میری بات کا برا مت منانا مگر تم لوگوں کا یہ رویہ تمہارے ملک کی نمائندگی کرتا ہے جیسے تم لوگ یہاں انڈین سے کرکٹ میں جیتنا چاہتے ہو ویسے ہی تمہارے ملک میں لوگ اپنے حالات درست کرنے کی خواہش رکھتے ہیں مگر کامیابی کے چانسز دونوں میں بہت کم لگتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ تم لوگ اپنے اختلافات کو حل ہی نہیں کرنا چاہتے اور اپنی خود پسندی کے محور میں اتنے گم ہو کہ اپنی غلطیوں کو محسوس کرنااور انکا بات چیت سے حل نکالنا تم لوگوں کے لیے ناممکن بات ہے۔

جیسے تم لوگ اپنے ملک میں بات چیت کو چھوڑ کر طاقت سے اپنے د اخلی اور خارجی مسائل کا حل چاہتے ہو ویسے ہی تم لوگ یہاں آپس کی ناچاکیاں پروان چڑھا کر کرکٹ میں کامیابیاں حاصل کرنا چاہتے ہو۔ جہاں تک میں جانتا ہوں تمہارا دین تو طاقت ور اسے گردانتا ہے جو اپنی غلطی کی معافی مانگنے میں اور معاف کرنے میں دیر نہیں کرتا مگرتم لوگوں کو دیکھ کر تو یہ لگتا ہے کہ تم لوگ معافی مانگنے یا معاف کرنے کو اپنی تذلیل سمجھتے ہو حالنکہ غلطی کی گنجائش تو ہر مذہب کے ماننے والوں میں ہوتی ہے مگر معافی وہ عمل ہے جو معاشروں میں امن کی بنیاد بنتا ہے۔

اور جو افراد یا معاشرے اس عادت کو نہیں اپناتے نقصان انہیں کا مقدر بنتا ہے۔میں نے کہا یہ سب تو انسانی رویے ہیں انڈین کونسا فرشتے ہیں یہ انفرادی اختلافات تو ان لوگوں میں بھی پائے جاتے ہیں ۔اس نے مجھے ٹوک دیا اور بولا ہاں مگر وہ لوگ جب تم لوگوں سے ملتے ہیں تو اپنے اختلافات پیچھے چھوڑ دیتے ہیں اور پوری کوشش کرتے ہیں کہ تم لوگوں کو اپنے اختلافات کی ہوا نہ لگنے دیں ۔

تم اس چیز کا مظاہرہ کرکٹ کے میدان میں دیکھ چکے ہو۔ وہ لوگ پریکٹس میچ میں سب آئیں یا نہ آئیں مگر پاکستان سے میچ کے لیے اکھٹے ہو جاتے ہیں۔ اس لیے اکثر جیت انکا مقدر بنتی ہے۔
اسکی باتیں سنکر میں اپنے اندر کو ٹٹولنے لگ گیا اور مجھے پتا چلا کہ وہ سچ کہ رہا تھا۔کیونکہ باوجود اسکے کہ ہم سب اعلی تعلیم کے حصول کے لیے جرمنی میں جمع تھے اور ہم ہر بیٹھک میں ایک دوسرے کی برائیاں تلاش کرتے تھے اور دوسروں کو نیچا دکھانے کا کوئی موقع خالی نہیں جانے دیتے تھے۔

سیاسات پر بحث کرتے ہوئے ہم انفرادی تذلیل پر بھی آنے سے گریز نہیں کرتے تھے۔ اول تو ہمیں اپنی غلطیاں دکھتی ہی نہیں تھیں اور اگر کسی طرخ غلطی کا پتا چل بھی جاتا تو ہم میں سے کوئی بھی اپنی غلطی کی معافی مانگنے پرتیار نہیں ہوتا تھا کیونکہ اس سے ہمارے اندر کے پرتکبر انسان کی عزت مجروح ہونے کا شدید خدشہ ہوتا تھا۔ہماری یہ شدید خواہش ہوتی تھی کہ ہم انڈین کو کرکٹ میں شکست دیں مگر اپنی تعداد کی کمی کی وجہ سے کئی دفعہ ہمیں ان سے فیلڈر ز ادھار لینے پڑتے تھے۔

مسئلہ تعداد کا نہیں تھا پرابلم ہماری انا کا تھا کیونکہ ناراض لوگ اپنی ناراضگی کا اظہار کھیل کے دوارن کرتے تھے جب وہ کئی دفعہ وعدہ کر کے بھی نہیں آتے تھے مگر اگلے دن خوشی سے انڈین لڑکوں کے منہ سے انکی فتح کی کہانیا ں سنتے اور دل میں اپنی اہمیت کو اجاگر کرکے خود ہی خوش ہوتے تھے۔مگر یہ بھول جاتے کہ انڈین تو پاکستان سے کھیل رہے ہوتے ہیں نہ کہ جرمنی میں پاکستانی سٹودنٹس کے ساتھ ۔ مگر ایک آخری سوال میرے دل میں کانٹے کی طرح پھنس گیا کہ جب تک ہر غلطی یا ذیادتی کرنے والا ہر اس شخص سے معافی نہیں مانگے گا جو اس کے فعل سے متاثر ہوا تھا تب تک ناراض لوگ انڈین سے کرکٹ کھیلنے کے لیے کیوں آئیں گے۔ اور یہی سوال میں نے اپنی ملک کے لوگوں کے لیے بھی چھوڑ دیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :