قومی اتفاق رائے کو ضائع نہیں ہونا چاہئیے

پیر 22 دسمبر 2014

Shahid Sidhu

شاہد سدھو

سانحہ پشاور کی کوکھ سے جنم لینے والے قومی اتفاق رائے کو کِسی صورت ضائع نہیں ہونا چاہیئے۔ کراچی سے پشاور اور کشمیر سے کوئٹہ تک پوری قوم دہشت گردوں کے خاتمے کے لئے ایک آواز ہے۔ اب ” جس نے بھی یہ کام کیا ہے“، ” ناراض بھائی“ ، ”یہ مسلمان نہیں ہوسکتے“، ” اپنے لوگ“ ، ” نا معلوم افراد“ اور ” سخت مذمت “ جیسی ہومیو پیتھک ترا کیب سے کام نہیں چلے گا۔

قوم سخت ایکشن اور واضح نتائج چاہتی ہے۔ وہ تمام دہشت گرد جو طالبان، کسی کالعدم تنظیم، کسی لسانی دہشت گرد جتھے یا فرقہ وارانہ دہشت گرد لشکر سے منسلک ہیں ، ان سب پر پاکستان کی زمین تنگ ہونی چاہئے۔ اب وقت آگیا ہے کہ حکومت پشاور میں معصوم بچوں کے خون سے کھینچی گئی سرخ لکیر کو پار کرنے والے ہر دہشت گرد گروہ کو سختی سے کچلنے کا آغاز کرے۔

(جاری ہے)

دہشت گردوں اور ان کے حامیوں کو چاہے انہوں نے بندوقیں اٹھا ئی ہوئی ہوں یا مذہبی عالموں اور سیاسی لیڈروں کا لبادہ اوڑھا ہو ، چاہے ان کے ہاتھوں میں نفرت لکھنے والے قلم ہوں یا منافقت بکھیرنے والے ٹی وی کے مائک، چاہے یہ شہروں میں رہتے ہوں یا پہاڑوں پر ان سب کو کیفر کردار تک پہنچانا ہوگا۔ حکومت کو ہر قسم کے دہشت گردوں کو بے نقاب کرنا ہوگا۔


دہشت گردی چاہے مذہب کے نام پر ہو، عقیدے کے نام پرہو ، نظریے کے نام پر ہو، فرقے کے نام پر ہو یا لسانی بنیاد پر ہو ہر طرح کے د ہشت گردوں سے یکساں طریقے سے نمٹنا ہوگا۔ ہر قسم کے دہشت گرد کا انجام ایک سا بھیانک ہونا چاہئے۔ اچھے اور برے طالبان کی طرح دیگر اچھے اور برے ظالمان میں بھی کوئی تفریق نہیں ہونی چاہئے۔
پاکستان کی جڑوں میں بیٹھے ہوئے ان دشمنوں سے جنگ یقینا آسان نہیں مگر اللہ کی زمین پر فساد پھیلانے والے ان فتنوں سے نمٹنا بہت آسان ہو جائے گا اگر ملک کے سیکیورٹی کے ذمہ دا ر تمام ادارے مکمل یکسوئی سے اس مشن میں جت جائیں اور ملک بھر کے شہروں اور دیہاتوں کے محلوں اور رہائشی علاقوں کے صرف چند مکین ہی اپنے اپنے علاقوں میں چھپے ہوئے ان دہشت گردوں کی نشاندہی کا فریضہ انجام دینا شروع کردیں۔

اگر سیکیورٹی کے ذمہ دار اداروں نے سانحہ پشاور سے آخری سبق سیکھ لیا ہے تو ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ زیادہ دیر کی بات نہ ہوگی، انشاء اللہ تعالیٰ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :