ایک اور سانحہٴ 16 دسمبر…!!

جمعرات 18 دسمبر 2014

Molana Shafi Chitrali

مولانا شفیع چترالی

منگل کے روز پاکستانی قوم سقوط مشرقی پاکستان کے ناقابل فراموش سانحے کی تلخ یادیں تازہ کرکے افسردہ اور رنجیدہ تھی کہ ایک اور انتہائی دل گداز اور روح فرسا سانحہ وقوع پذیر ہوگیا۔ پشاور میں دہشت گردی کے بدترین واقعے میں ڈیڑھ سو کے قریب افراد جن میں اکثریت اسکول کے معصوم بچوں کی تھی، شہید اور سینکڑوں کی تعداد میں زخمی ہوگئے۔میڈیا رپورٹوں کے مطابق مسلح حملہ آور جو ایف سی کے لباس میں تھے، اسکول کے عقبی دروازے سے اندر داخل ہوئے اور عمارت میں موجود اساتذہ اور طلبہ کا بے رحمی سے قتل عام شروع کردیا ۔

عمارت کے اندر کئی گھنٹوں تک سیکورٹی اہلکاروں اور حملہ آوروں کے درمیان لڑائی جاری رہی اور متعدد دھماکے بھی سنے گئے۔اس واقعے نے پوری پاکستانی قوم کو ہلاکر رکھ دیا ہے اور حکومتی شخصیات سمیت تمام قومی حلقوں اور مذہبی جماعتوں نے اس کی شدید مذمت کی ہے۔

(جاری ہے)

ملک میں 3دن کے سوگ کا اعلان کیا گیا ہے اور تحریک انصاف نے 18دسمبر کو ہونے والی ملک گیر ہڑتال موخر کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ وزیر اعظم نے قومی قیادت کا خصوصی اجلاس طلب کرلیا ہے۔


اس واقعے کو بجا طور پر ایک نئے سانحہٴ دسمبر سے تعبیر کیا جارہا ہے اور درحقیقت یہ اتنا بڑا سانحہ اور المیہ ہے کہ اس کے اثرات ہماری قومی تاریخ اور نفسیات پر تادیر محسوس کیے جاتے رہیں گے۔ اس سانحے نے پاکستان کی بین الاقوامی ساکھ کو بہت گہرا گھاؤ لگادیا ہے اور حقیقت میں ایسے واقعات دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کی بدنامی کا بھی ذریعہ بنتے ہیں حالانکہ دہشت گردی کے ان واقعات کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔

اسلام عین حالت جنگ میں مسلمانوں سے براہ راست لڑنے والے کافروں کے بچوں کو بھی مارنے سے سختی سے منع کرتا ہے اور کوئی بھی باشعور اور راسخ العقیدہ مسلمان اسلام کی ان واضح تعلیمات سے ناواقف نہیں ہے۔ اس لیے ہمیں یہ کہنے میں کوئی شک نہیں ہے کہ پشاور کے اسکول میں پڑھنے والے معصوم بچوں کو خاک و خون میں تڑپانے والے اسلام اور مسلمانوں کے خیر خواہ ہر گز نہیں ہوسکتے۔


بادی النظر میں یہ واردات اسلام اور پاکستان کو بدنام کرنے کی سازش لگتی ہے اور اس واردات کے لیے 16 دسمبر کی تاریخ کا انتخاب محض اتفاق نہیں بلکہ اس کے پیچھے اسلام دشمن و پاکستان دشمن قوتوں کی وہ مخصوص ذہنیت کار فرما ہے جس کا مقصد پاکستان کو سانحہٴ سقوط ڈھاکا کی تلخ یادوں کے ساتھ ایک نئے سانحے کا چرکا لگانا ہوسکتا ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ اس طرح کے سانحات میں مقامی عناصر و عوامل کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔

یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ نائن الیون کے بعد کے حالات میں ہمارا پورا خطہ کشت و خون اور تباہی و بربادی کا شکار ہے۔ ہمارے قبائلی علاقے اور افغان سرحد سے مستقل پٹی طویل عرصے سے گرم محاذ بنی ہوئی ہے۔ مغربی سرحد کے اس پار اگر نیٹو افواج اور طالبان کے درمیان عسکری جنگ لڑی جاری ہے، تو سرحد کے اس پار کئی ممالک کے درمیان انٹیلی جنس کی ایک جنگ بھی طویل عرصے سے چل رہی ہے جس کے دوران اس خطے میں بدامنی اور فساد پھیلانے کی خواہش مند قوتوں کو اپنا کھیل کھیلنے کا پورا موقع میسر رہا ہے۔

ان قوتوں نے اس علاقے میں پاکستان اور افواج پاکستان کے خلاف عسکریت پسندی کو منظم طریقے سے فروغ دیا اور ایک جانب ڈرون حملوں اور دیگر کارروائیوں کے ذریعے علاقے میں اشتعال کی فضا پیدا کی تو دوسری جانب اس اشتعال کی آگ سے پاکستان مخالف عسکریت پسندی کی چنگاریاں اڑائیں اور علاقے کے عوام میں پنپنے والے استعمار مخالف جذبات کا رخ پاکستان، اس کی مسلح افواج اور ایجنسیوں کی طرف موڑنے میں کامیابی حاصل کرلی۔


پاکستان کے عوام اور مسلح افواج کو آپس میں لڑوانا عالمی اسلام دشمن قوتوں کا دیرینہ منصوبہ رہا ہے۔ بدقسمتی سے نائن الیون کے بعد اختیار کی گئی ہماری بزدلانہ پالیسیوں نے اس منصوبے کو پایہٴ تکمیل پہنچانے کا موقع فراہم کردیا۔اب ہماری افواج کو اپنے ملک کے اندر ہی ملک کی سلامتی کی جنگ لڑنا پڑرہی ہے اور ظاہر ہے کہ اس جنگ میں بہت بڑی تعداد میں لوگ متاثر بھی ہورہے ہیں اور خارجی قوتوں کے پروردہ تخریب عناصر کے خلاف کارروائیوں میں بہت دفعہ بے گناہ اور غیر متعلقہ لوگ بھی مارے جاتے ہیں جس سے علاقے میں وفاق پاکستان اور اس کے قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف جذبات کو فروغ ملتا ہے۔

اس لیے اب یہ امر از حد ضروری اور ناگزیر ہوچکا ہے کہ ہم اپنے قبائلی علاقوں کو دشمن قوتوں کی آماج گاہ بننے سے بچائیں اور جلد وہاں امن قائم کرکے قبائلی عوام کی گھروں کو واپسی ممکن بنائیں۔پورے ملک سے بے امنی اور شورش کا خاتمہ کرنے کے لیے قبائل علاقوں میں امن کا قیام ناگزیر ہے، حالیہ دنوں قبائلی جرگوں میں جو مطالبات پیش کیے گئے ہیں، حکومت کو ان پر عمل کرنا چاہیے۔


علاوہ ازیں ہمیں اس موقع پر بحیثیت قوم بیداری، احساس ذمہ داری اور اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔بہت سے مبصرین کے مطابق پشاور کا سانحہ اگر روکا نہیں جاسکا تو اس کا ایک بڑاسبب حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان جاری کشیدگی کو بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ محب وطن قومی حلقے ایک عرصے سے یہ دہائی دیتے رہے ہیں کہ ایک ایسے وقت میں جبکہ ملک کے قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن جاری ہے اور لاکھوں متاثرین در بدر پھر رہے ہیں، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان جوتم پیزار کی گنجائش نہیں ہے۔

یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جارہا تھا کہ آپریشن ضرب عضب کے رد عمل میں بندوبستی علاقوں میں تخریب کاری کی وارادت ہوسکتی ہے اس لیے قومی اداروں بالخصوص خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کو امن و سلامتی کے اقدامات پر پوری توجہ دینی چاہیے اور ملک دشمن عناصر کو کسی وارادات کا موقع نہیں دینا چاہیے، بعض رپورٹوں کے مطابق خفیہ اداروں نے بھی ممکنہ تخریب کاری کے خطرے سے آگاہ کردیا تھا مگر صوبائی حکومت چونکہ وفاقی حکومت کے خلاف احتجاج اور دھرنوں میں مصروف رہی، اس لیے پشاور کے انتہائی حساس علاقے میں واقع فوجی اسکول پر اتنے بڑے حملے کو روکا نہ جاسکا۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے اور تحریک انصاف کو اسے تسلیم کرنا چاہیے تاہم یہ وقت وفاقی و صوبائی حکومتوں اور دیگر قومی اداروں کی جانب سے ایک دوسرے پر الزام تراشی کا نہیں ہے، وزیر اعظم میاں نواز شریف نے واقعے کے فورا بعد پشاور پہنچ کر وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سے ملاقات کرکے اور اس سانحے سے مل کر نمٹنے کے عزم کا اظہار کرکے مثبت قدم اٹھایا ہے، اب ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام ذمہ دارقومی حلقے اس نازک موقع پربالغ نظری اور بصیرت کا مظاہرہ کریں اور قوم کو دہشت گردی کے اس عفریت سے نجات دلانے کی فکر کریں جو نائن الیون کے بعد غیروں کی جنگ کا حصہ بننے کے نتیجے میں مسلسل ہمارا تعاقب کر رہا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :