ماں کی فریاد!

جمعرات 18 دسمبر 2014

Nabi Baig Younas

نبی بیگ یونس

آج نہ صرف میرا بلکہ پوری انسانیت کا دل دکھ اور درد میں ڈوبا ہوا ہے۔ انسان جب انتہائی کرب میں مبتلا ہو اور دکھ اور درد انسان پر غالب ہو تو جذبات اور احساسات کو الفاظ کا روپ دینا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوجاتا ہے۔ 16 دسمبرہر سال پاکستانیوں پر بھاری گزرتا ہے، اس روز پاکستانیوں کے پرانے زخم تازہ ہوجاتے ہیں۔ 16دسمبر1971کو سقوط ڈھاکہ کا سانحہ پیش آیا تھا، پاکستان دوٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا ایک مشرقی پاکستان جو بنگلہ دیش بن گیا اور مغربی پاکستان جو آج تک پاکستان کے نام سے ہی پکارا جاتا ہے۔

یہ ایک ایسا زخم ہے جو ہمیشہ پاکستانیوں کو درد میں مبتلا رکھے گا۔ اِس سانحہ پر کئی کتابیں تحریر کی گئیں، لکھنے والے نہ صرف پاکستانی اور بنگلہ دیشی ہیں بلکہ بیرونی ملکوں کے مصنفین نے بھی سانحہ ڈھاکہ پر تصانیف لکھی ہیں تاہم اِس کے باوجود ہم آج تک اِس نتیجے پر نہیں پہنچے کہ اس المناک سانحہ کا اصل مجرم کون تھا، کون تھے وہ لوگ جن کی کوتاہیاں پاکستان کو دو لخت کرنے کا موجب بن گئیں۔

(جاری ہے)

کوئی پاکستانی سیاستدانوں کو اور کوئی پاک فوج کو قصوروار ٹھہراتا ہے اور کوئی سارا ملبہ بنگالیوں پر ڈال دیتا ہے۔ قصور وار جو بھی تھا لیکن نقصان پاکستان اور پاکستانیوں کا ہوا، اس سانحہ سے پاکستان بہت کمزور ہوا، مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے علاقے جو جدا ہوئے ، دونوں علاقوں میں رہنے والے مسلمان ہی ہیں۔
16 دسمبر2014 کو جب ایک مرتبہ پھر پاکستانیوں کے زخم تازہ ہورہے تھے تو ایک اور سانحہ پیش آیا جو سب دکھوں پر بھاری ہے، ایسا دردناک سانحہ جس نے ہر آنکھ کو اشک بار کیا، ہر دل کو اضطراب میں مبتلا کردیا، ہر روح کو بے قرار کردیا، ہر چہرے کو مرجھادیا۔

16 دسمبر کو مسلح دہشت گرد پشاور میں آرمی پبلک سکول اینڈ کالج میں داخل ہوئے اور 132معصوم پھول جیسے بچوں کو گولیوں سے بھون کر انکی ماؤں کی گودیں اُجاڑدیں، ایسے معصوم بچے گولیاں تو کھار ہے تھے لیکن انہیں معلوم نہیں تھا کہ اُن پر کیوں گولیاں چلائی جارہی تھیں، دہشت گرد کیوں انکے سکول میں داخل ہوئے، اُن کا کیا قصور ؟ لیکن درندہ صفت مسلح دہشت گردوں کا مقصد ہی پوری قوم کو درد میں ڈبودینا اور ذہنی اضطراب میں مبتلا کرناتھا۔

یہ معصوم بچے جنہیں اپنی ماؤں نے صبح نہلا نے کے بعد سکول کا یونیفارم پہنایا اور تیار کر کے انکے سروں پر ہاتھ پھیر کر سکول بھیجا، اُن ماؤں کو کیا پتہ تھا کہ اُن کے جگر گوشے واپس کفن میں آئیں گے اور اب انہیں کبھی صبح تیار نہیں کرنا پڑے گا، کبھی انہیں یونیفارم نہیں پہنانا پڑے گا، کبھی انہیں صبح سکول جانے کیلئے جلدی نہیں جگانا پڑے گا، کبھی انکی واپسی کا انتظار نہیں کرنا پڑے گا، کبھی انہیں شرارتیں کرنے پر ڈانٹنا نہیں پڑے گا۔

ان ننھے پھولوں اور چھوٹی چھوٹی ٹہنیوں کو خون میں لت پت دیکھ کر دنیا بھر میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص ہر روح تڑپی، ہر انسان خون کے آنسورویا، اور پاکستان میں یہ آنسو بدستور جاری ہیں جو شائد نہ تھمنے والے ہیں۔
میں نے پاکستانی قوم کو اتنا زیادہ صدمے سے دوچار کبھی نہیں دیکھا۔ 16 دسمبر کی دوپہر کو میں اپنے جیو ٹی وی اسلام آباد دفتر کے نیوز روم میں پہنچا تو سب لوگوں کی نظریں ٹی وی سکرینوں پر لگی ہوئی تھیں اور تمام آنکھیں بھیگی تھیں۔

ہر گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ شہید ہونے والے بچوں کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہورہا تھا اور خون میں ڈوبے معصوم بچوں کی تصاویر دیکھ کر لرزہ طاری ہورہا تھا اور آنکھوں سے مسلسل آنسو چھلک رہے تھے، رات گئے میں گھر پہنچا تو گھر والوں کی آنکھیں بھیگی تھیں۔ صبح ناشتے پر اخبارات کھولے تو سارے اخبارات معصوم بچوں کے خون سے سرخ تھے ،پھر
آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔

سانحہ پشاور کو چوبیس گھنٹے سے زیادہ کا وقت گزرالیکن ملک بھر میں ہر طرف سناٹا ہے، ہر دل درد اور غم میں ڈوبا ہے، کہیں غائبانہ جنازے ادا کئے جارہے ہیں تو کہیں شہید ہونے والے بچوں کی یاد میں شمعیں روشن کی جارہی ہیں، کہیں دہشت گردی کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں تو کہیں دہشت گردی کے خلاف پالیسیوں پر بات ہورہی ہے۔
سانحہ پشاور کے بعد ایک مثبت بات سامنے آگئی ، وہ یہ کہ پوری قوم دہشت گردی کی لعنت کے خلاف یکجا ہوگئی، ہر فرقے اور ہر طبقے کے لوگ بلا تفریق اکٹھا ہوگئے۔

وزیر اعظم میاں نواز شریف نے پشاور میں کل جماعتی اجلاس طلب کیا تو کئی ماہ سے جاری سیاسی بحران کے بعد پہلی بار نواز شریف اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھے نظر آئے، پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف اور خیبر پخونخوا میں انکے ہم منصب پرویز خٹک بھی ایک دوسرے کے پاس تشریف فرما تھے اور اجلاس میں تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہوں نے اپنے اختلافات بالائے طاق رکھ کر دہشت گردی کے خلاف نیشنل پالیسی آف ایکشن کی ایک متفقہ پالیسی سات روز کے اندر لانے کا عزم کیا۔

دہشت گرد ہمیں زخم دے گئے ، وہ ہمیں رُلانے میں کامیاب ہوگئے لیکن اِن آنسووں نے ہمیں یہ پیغام بھی دیا کہ اگر ہم اب بھی ایک قوم بنکر یکجا نہ ہوجائیں تو دشمن ہم پر غالب آسکتا ہے۔
پشاور میں رہنے والی ایک ایسی ماں بھی ہے جس نے 16 دسمبر کی صبح اپنے تین بچوں کو اے پی ایس سکول بھیجا۔اُسے جب سکول میں دہشت گردی کے واقعہ کا علم ہوا تو وہ دوڑتے دوڑتے ننگے پاؤں سکول پہنچی، اپنے بچوں کو خون بہت تلاش کیا، بچے نہ ملے، بالآخر چیختے چلاتے سی ایم ایچ پہنچی تو دیکھا اُسکے تینوں بچے ہسپتال کی صحن میں خون میں لت پت پڑے تھے ۔

ماں اپنے تینوں بچوں کو پکارتی رہی وہ جواب نہیں دے رہے تھے، اُسنے بچوں کو ہلا یا ، اُنکے چہروں پر تھپکیاں دیتے ہوئے اُنہیں جگانے کی کوشش کی، لیکن وہ تو ہمیشہ کیلئے سو رہے تھے! ماں پکارتی رہی میرے بچوچلو گھر ،دیر ہوگئی ہے، کپڑوں پر خون لگا ہے گھر جاکرکپڑے تبدیل کرو لیکن اب انہیں اِس دنیا میں کسی چیز کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ ماں سیاسی قائدین اور سیکورٹی لیڈروں سے فریادکررہی ہے کہ کیا اُسکے بچوں کا خون ایک بار پھر رائیگاں ہو جائے گا؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :