آؤ کہ کوئی خوا ب بنیں کل کے وا سطے۔۔۔پودا ۔۔ایک خواب

جمعرات 18 دسمبر 2014

Tariq Ghouri

طارق غوری

15اور 16اکتو بر پو ری دنیا میں دیہی عو رتو ں کے کے حوا لے سے منا یا جا تا ہے۔اس دن دنیا بھر میں عو رتو ں کے حقو ق کے لئے کا م کر نے وا لے ادارے ،تنظیمیں دیہی عو رت کو در پیش مسا ئل کو اجا گر کر نے ، ان کے مسا ئل اور مشکلا ت کے تدا رک کے لئے حکو متوں اور پا پالیسی سا ز ادا روں پر دبا ؤ بڑہنا مقصو د ہو تا ہے کہ وہ عو رتو ں خصو صا ً دیہی علا قو ں میں رہنے والی عو رت کے حقوق کے تحفظ کے لئے موثر قا نو ن سا زی کر یں ،دو سر ی طر ف جو کہ نا مسا ئد حا لا ت ، معا شر تی،ثقا فتی رویوں الجھنو ں رکا ورٹو ں کے با وجو دجس عظم و استقلا ل کے سا تھ ان سب مشکلا ت کا مقا بلہ کر رہیں ہیں اور نہ صرف اپنے خا ندا نو ں بلکہ مجمو عی طو ر پر ملکی تعمیر و تر قی میں با طو ر ِاحسن خد ما ت سر انجا م دے رہیں ہیں۔

دیہی خواتین کانفرنس حکمت عملی کے حوالے سے اہمیت رکھتی ہے کیونکہ صنف کے حوالے سے اقدامات کو وسعت دینے اور ترقی اور امن کے مباحث میں عورتوں کو اہم تر کردار دینے کے مواقع پیدا کرنے کے لئے یہ اہم وقت ہے۔

(جاری ہے)

بدقسمتی سے اس وقت امن اور سلامتی کے مسائل سے متعلق تمام تر گفتگو پر مرد حاوی ہیں ،یہ بات مدنظر نہیں رکھی جاتی کہ خاندان، معاشرے ، ملک یا خطے میں ہونے والے تشدد کے بدترین نتائج کا سامنا عورتوں کو ہی کرنا پڑتا ہے ۔

ہمیں جمہوریت کی پائیداری میں دیہی خواتین کے مثبت کردار کو بھی اُجاگر کرنا ہو گا اور امن کے حوالے سے خواتین کی خدمات پر بھی بات کرنا چا ئیے۔
اقوام متحدہ نے 15 اکتوبر کو دیہی عورتوں کا عالمی دن قرار دیا ہے ۔ادارہ پودا گزشتہ چھ برسوں سے اس دن سالانہ کانفرنس منعقد کرتا آرہاہے۔ 2014 کی کانفرنس کا موضوع ہے ”دیہی عورت۔ جمہورت، ترقی اور امن ہے" ۔

امن کے قیام کے لئے فیصلہ سازی میں عورتوں کی رائے کی اہمیت کو نمایاں کریں اور پاکستان کی ترقی میں خواتین کے مثبت جمہوری کردار پر روشنی ڈالنے کی ضرو رت ہے۔اس سا تویں سالانہ کانفرنس برائے دیہی خواتین میں 97ضلعوں سے 1000سے زیادہ عورتوں نے شرکت کی ۔ یہ کانفرنس لوک ورثہ اسلام آباد میں منعقد ہوئی ۔ کانفرنس کے پہلے سیشن میں محترمہ کشور ناھید نے دیہی عورتوں کے لیے ایک خصوصی نظم پڑھی اور عورتوں کو اکھٹے ہونے پر مبارک باد یش کی ۔

پودأ کی ساتویں سالانہ کانفرنس کا موضوع دیہی عورت۔ جمہوریت ترقی اور امن تھا۔ پہلے سیشن میں ممبر قومی اسمبلی طاہرہ اورنگزیب (PML-N) نے دیہی عورتوں کی صحت کے حوالے سے بات کی اور کہا کہ عورتوں کے لیے ہر ضلع میں ہسپتال ہونے چاہیئے اور حکومت کا فرض ہے کہ وہ عورتوں کو صحت اور تعلیم کی سہولتیں مہیا کرے۔ ڈائریکٹر پود أ(پو ٹھو ہارآ رگنا ئز یشن فا ر ڈویلپمنٹ ) ثمینہ نذیر نے کانفرنس کے شرکاء کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی ترقی دیہی عورتوں کی ترقی کے بغیر ممکن نہیں ہے کیونکہ دیہاتوں میں رہنے والی عورتیں 60فیصد زراعت کا کام کرتی ہیں جس سے ہماری خوراک ممکن ہوتی ہے اور لوگ بھوکے نہیں رہتے ۔

لوک ورثہ کی ڈائریکٹر محترمہ شہیرا شاہد نے کہا کہ لوک ورثہ قومی ادارہ ہے جو قومی ثقافت کے فروغ کے لیے کام کر رہا ہے اور ہم خواتین آرٹیزن اور کاریگروں کے لیے کام کر رہے ہیں اور اس میں عورتوں کے کام کو فروغ کی ضرورت ہے ۔
SPOکے ڈائریکٹر نصیر میمن نے کہا کہ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ دیہی عورتوں کے کام کو گِنا جائے ، ماناجائے اور اس بات کا اعتراف کیاجائے کہ عورتوں خاص طور پر کسان اور ماہی گیر عورتوں کے کام کو پاکستان کی مجموعی معاشی ترقی میں شامل کیا جائے ۔

کانفرنس کے پہلے سیشن میں بیداری این جی اونے یو ۔ این ۔ وویمن کے ساتھ مل کر گھر میں کام کرنے والی عورتوں کے حقوق پر بات کی ۔بیداری کے صدر ارشد محمود اور ڈائریکٹر حنا نورین نے کہا کہ پاکستان میں فٹ بال انڈسٹری میں سب سے زیادہ کام عورتیں کرتی ہیں جن کے حقوق کے بارے میں جن کے مسائل اور حقوق کے بارے میں زیادہ تر پاکستان کو پتہ ہی نہیں ہے اور اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ پاکستان میں Decent Wage for decent workکے قانون کی اشد ضرورت ہے ۔


سیشن میں عرفان مفتی (SAP-PK)اور عظمی قریش نے خطاب کیا اور سیالکوٹ میں فٹ بال بنانے والی گھر مزدور عورتوں کے مسائل کو اُجاگر کیا۔ عرفان مفتی نے کہا کہ پاکستان کی اصل مالک دیہات کی عورت ہے ۔ کسان عورت ہے ۔ مزدور عورت ہے اور اگر پاکستان کی باگ ڈور عورتوں کے ہاتھ میں دے دی جائے تو پاکستان ایک کامیاب ملک بن جائے گا ۔ محترمہ فوزیہ وقار، چیئر پرسن پنجاب کمیشن برائے وقار نسواں (PCSW)نے کہا کہ ایسی پالیسیاں بنائی جائیں جو عورتوں کو تحفظ دیں خاص طور پر مزدور اور کسان عورتوں کے حقوق کی حفاظت کریں اور عورتوں کا کام تسلیم کیا جائے ۔

عظمیٰ قریش نے کہا کہ پاکستان نے بہت سے عالمی معاہدے دستخط کیے ہیں جس میں حکومت پاکستان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان عالمی معاہدوں کی پاسداری کرے۔
پروگرام کے دوسرے حصے میں ہینڈی کرافٹس کی نمائش کا افتتاح کیا گیا ۔ اس نمائش کا افتتاح مس کرسٹینا ہیڈن ، ڈپٹی کلچرل اٹاشی ، امریکہ ایمبیسی اسلام آباد نے کیا انہوں نے ہنر مند خواتین کے خوبصورت کام کی تعریف کی اور کہا کہ پاکستان میں بہت خوبصورت ثقافت ہے اور عورتیں اس ثقافت کی سفیر ہیں۔

پروگرام کے اگلے سیشن میں موسمی تبدیلوں اور دیہی عورتوں کی زندگی پر اثر کے بارے میں بات کی گئی ۔ اس سیشن میں بارانی زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر رائے نیاز احمد نے کہا کہ پاکستان میں تمام وسائل اور پانی موجود ہے جس سے دنیا بھر میں بہترین زراعت کی جاسکتی ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اتفاق سے کام لیں اور پاکستان کی کسان عورتوں کو آگے بڑھنے کا موقع دیا جائے تاکہ وہ جو زراعت کا کام کرتی ہیں اسے مزید بہتر کیا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ بارانی زرعی یونیورسٹی کسان عورتوں کی معاونت کے لیے تیار ہے ۔ انہوں نے ادارہ پودأ کو دعوت دی کہ اگلے سال کی کانفرنس بارانی زرعی یونیورسٹی کے ساتھ مل کر کی جائے ۔
اس سیشن میں دیہاتی عورت اور غذائی تحفظ پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے بارے میں گفتگو ہوئی جس میں سب سے پہلے دیہی عورتوں نے اپنے مسائل کا ذکر کیا ۔ اور یہ بھی بتایا کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں موسمی تبدیلیوں سے ہونے والے مسائل کا کیسے مقابلہ کرتی ہیں۔

اس سیشن میں آکسفیم کے عاصم ثقلین اور ٹی سی سی آر کی زبیدہ بھیروانی نے بتایا کہ پاکستان نے ماہی گیری کی صنعت کو سخت زوال ہے اور عورتوں کا کام متاثر ہو رہا ہے جس سے ماہی گیروں میں غربت بڑھ رہی ہے ۔ محترمہ سید گل جو چترال کے کیلاش علاقے سے آئی ہیں ، بتایا کہ چترال میں جن مہینوں میں پہلے سردی ہوتی تھی اب گرمی ہوتی ہے اور کسان عورتوں کو موسمی تغیر سے نبٹنے کے لیے کوئی مدد نہیں دی جا رہی۔

محترمہ عقیلہ ناز جو خانیوال میں کسان عورتوں کی لیڈر ہیں کہا کہ زراعت سے متعلق پالیسی سازی ان لوگوں کو کرنی چاہیئے جو زراعت کے بارے میں جانتے ہیں اور کسان عورت سے زیادہ زراعت کو ئی نہیں جانتا کیونکہ عورت زراعت کی ماں ہے ۔ عقیلہ ناز نے مطالبہ کیا کہ ہر کسان عورت کو ایک ایکڑ زمین دی جائے ۔ ایف اے او کی نومینا انیس نے کہا کہ عورتوں کو اچھی غذا کھانی چاہیئے ۔
ادارہ پو دا کا یہ اقدا م یقینا قا بل ستا ئش و تقلید ہے۔سا تھ سا تھ ضرو رت اس امر کی ہے کہ قا نو ن سا ز ادارے خصو صاً حکو مت وقت کی یہ زمے داری ہے کہ وہ دیہی عو رت کو در پیش مسا ئل کو جس قدر جلد ہو سکے کم کر نے کے لئے عملی اقدام کر یس۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :