یوم سقوط ڈھاکہ سلگتا کل

منگل 16 دسمبر 2014

Badshah Khan

بادشاہ خان

تقسیم پاکستان جیسے سقوط ڈھاکہ نام سے تاریخ میں لکھا گیا،جس کے زخم دن بدن تازہ ہوتے جارہے ہیں،بنگلہ دیشی حکمران ہر اس شخص اور نشانی کو ختم کرنے کے درپے ہیں جو متحدہ پاکستان کی تھی،سقوط ڈھاکہ امت مسلمہ کا وہ عظیم سانحہ ہے کہ جس نے جنوبی ایشیاء پر گہرے اثرات مرتب کئے اور اب تک جاری ہیں ۔ سولہ دسمبر کا دن ہر سال اس تکلیف کی یاد کو تازہ کرتا ہے کہ دشمن نے کس طرح ایک امت ایک قوم کے افراد کو تقسیم کیا۔

گذشتہ سال جماعت اسلامی کے رہنماء عبدالقادر ملا کی پھانسی اس کے بعد اب تک کئی بنگلہ دیش کے اسلامی رہنماؤں کو سزائیں سنائی جاچکی ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے ، شہید عبدالقادر ملا اور ان سب افرادپر سقوط ڈھاکہ میں پاکستان کا حامی ہونے اور عسکری تنظیم البدر سے تعلق کا الزام تھا جس نے عسکری کاروائیاں کی ۔

(جاری ہے)

بنگلہ دیش میں جنگی جرائم کی عدالت نے جماعت اسلامی کے کئی رہنماؤں کو ۱۷ کی جنگ میں جنگی جرائم میں ملوث ہونے کا مرتکب پاتے ہوئے پھانسی کا حق دار قرار دیا۔

ہمیں اس طرح دولخت کرنے میں بنیادی کردار ہمارے شرارتی پڑوسی ہندوستان کا تھا۔ جس نے ہر حربہ استعمال کیا اور آج بھی کر رہا ہے۔جبکہ ہمارے وزیراعظم صاحب ان سے تعلقات قائم کرنے کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔کسے معلوم نہی کہ اسوقت پاکستان کو کس نے دولخت کیا ؟ اور آج کراچی و بلوچستان میں کون تخریب کاری کروارہا ہے۔؟ مشرقی پاکستان میں جب اپنوں اور غیروں کی ملی جلی ریشہ دوانیوں اور سازشوں کی وجہ سے حالات دن بدن بد سے بد تر ہونے شروع ہو گئے۔

جب محب وطن پاکستانیوں پر ان کے اپنے ہی دیس اور اپنے ہی علاقے اور شہر بلکہ گھروں کی زمین بھی تنگ کر دی گئی۔ جب ایک طرف ان کے اپنے ہی بظاہر بھائی بند ا ور ہم وطن  دوسری طرف بھارت سے تربیت یافتہ مکتی باہنی کے مسلح غنڈے اور اس کے ساتھ ساتھ ہندوؤں کی الگ یلغار سنگینیوں  رائفلوں  چھریوں  چاقوؤں اور لاٹھیوں وغیرہ سے مسلح ہو کر ان پر حملہ آور ہوئے۔

ایک بار پھر ہزاروں شہادتیں ہوئی۔قیام پاکستان کی تاریخ ایک بار پھر دوہرائی گئی۔
اس وقت بھی اسلام اور پاکستان کے حق میں آواز بلند کرنا گویا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا تھا۔ مگر اسلام اور پاکستان کے سپاہیوں اور وفار داروں نے سردھڑ کی بازی لگا دی۔ اپنے مال و متاع  اولاد  عزیز و اقارب حتی کہ اپنی جان بھی اسلام اور پاکستان کے لئے قربان کر دی۔

مذہبی جماعتوں سے وابستہ افراد نے اسلام اور نظریہ پاکستان کے تحفظ و بقاء کے لئے جانیں ہتھیلی پر رکھ کر دن رات کام کیا۔ اسلام کے یہ جانفروش مجاہد ان مقامات تک بھی جا پہنچے کہ جہاں تک پہنچنا بعض اوقات مسلح افواج کے بس کی بات بھی نہ تھا۔ انہوں نے عام شہریوں سے لے کر افواج پاکستان کی ہر ہر قدم پر رہنمائی کی۔ سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں سے لے کر شہر شہر اور گاؤں گاؤں تک مکتی باہنی اور عوامی لیگ کے پاکستان دشمن کارکنان اور ہندوؤں سے بھی قدم قدم پر جنگ لڑی۔

اسلام اور پاکستان کے یہ وہ عظیم مجاہد اور ہیرو ہیں کہ جن کے تذکرے کے بغیر پاکستان اور خاص طور پر مشرقی پاکستان کی تاریخ کا تذکرہ مکمل ہی نہیں ہوتا۔ 16 دسمبر 1971ء کوپاکستان کا ایک اہم حصہ یعنی مشرقی بازو ہندوستانی جارحیت اور سازش کے نتیجے میں کٹ گیا۔ سقوط ڈھاکہ کے ان تمام المناک اور روح فرسا واقعات و حالات میں اپنوں نے کیا کردار ادا کیا؟ اور غیروں کا حصہ کیا تھا؟ اور پھر بین الاقوامی سطح پر اس کے لئے کہاں کہاں اور کیا کچھ سازشوں کے تانے بانے بنے گئے؟ یہ ایک طویل داستان ہے ۔

نوے ہزار پاکستانی فوج نے دشمن ہندوستان کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔
وہ جنہوں نے ایک مقصد کیلئے قربانیاں دیں۔اسلام کے نام پر بننے والے ملک کے نام پرجن کے دل دھڑکتے تھے۔ جب ان سے ان کا وطن چھین لیا گیا  ان کے گھروں کو جلا دیا گیا جب ان کے ننھے ننھے معصوم جگر گوشوں کو ان کی آنکھوں کے سامنے تکہ بوٹی کیا گیا جب ان کی بہنوں اور بیٹیوں کی خونخوار ہندوؤں اور ظالم مکتی باہنی کے غنڈوں نے بے حرمتی کی۔

جب ان پاکستانیوں کو ان کے گھروں سے بے گھر کر دیا گیا۔ جب ان کے لئے جائے پناہ کیمپ ٹھہرے۔ تو پھر بتائیے کہ ان لٹے پٹے قافلوں کا رخ کس طرح ہونا چاہئیے تھا۔ ان کی منزل مقصود کیا اور کہاں ہو سکتی تھی؟ ہزروں خاندان پاکستان پہنچے ۔
آج بھی بنگلہ دیش میں ہمارے بہاری بھائی پریشانی سے دوچار ہیں۔ انسانی حقوق کا مسئلہ ہے۔ پاکستان کی عزت و آبرو اور وقار کا مسئلہ بھی ہے۔

جو افراد اور خاندان وہاں ابھی تک طویل عرصے سے کیمپوں میں لاوارثوں کی حالت میں کھلے آسمان تلے پڑے ہیں اور پاکستان کی راہ دیکھ رہے ہیں۔کہ پاکستانی حکومت کچھ کرے گی اور ادھر ہم ہیں کہ اپنے یاد نہی۔ وہ ہمارے کلمہ گو بھائی ہیں۔ ان کی قربانیوں کو فراموش نہی کرسکتے ۔ انہوں نے پاکستان کے لئے اپنا سب کچھ لٹا دیاہے۔مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے اور پھر بھارتی تسلط کے باوجود وہ وہاں پاکستان زندہ باد کے نعرے بلند کرتے رہے ہیں۔

اب ان کے لئے سب کچھ پاکستان ہی ہے۔ میاں نواز شریف کے گزشتہ دور حکومت میں کچھ خاندانوں کو پاکستان لا کر بسایا گیا تھا۔اور اب ایک بار پھر میاں نواز شریف صاحب وزیراعظم ہیں اس سلسلے کو مزید آگے بڑھانا ہوگا۔ بنگلہ دیشی کیمپوں میں انتہائی خراب حالت میں رہنے والے محب وطن پاکستانیوں کو لاکر بسایا جائے تاکہ ان کے مسائل کم ہوسکے اور دنیا کو پتہ چلے کہ ہم نے دیر تو کر ی ہے مگر ان کو بھولے نہی۔


بہت نازک دور ہے جس سے ہم گذر رہے ہیں۔ اس موقع پر حکومت اور تمام دینی  سیاسی سماجی رہنماؤں  کارکنوں اور بالخصوص اہل قلم کا فرض بنتا ہے۔ کہ وہ دو قومی نظریے کو عام کریں ۔ خدا کے لئے پاکستانی مسلمانوں کو علاقہ اور رنگ و نسل اور زبان کی بناء پر تقسیم نہ کرو۔ بنگلہ دیش میں پھنسے ہوئے پاکستانیوں کو ”لانا ہوگا۔ وہ صرف اور صرف مسلمان ہیں اور اس کے بعد پاکستانی ہیں۔

آو اس دن سے سبق حاصل کریں اور نئی نسل کو ایک نیا پاکستان ،مضبوط پاکستان دے کر جائیں۔قومیں حادثات اور سانحات سے اٹھ کردوبارہ کھڑی ہوتی ہیں ۔عبدالقادرملا شہید دیگرکی قربانیاں اس عظیم مقصد کے لئے تھی۔ یہ دن عبرت اور سبق کا دن ہے،دشمن آج بھی ہمیں تقسیم در تقسیم کرنے کے درپے ہے اب فیصلہ وفاق نے کرنا ہے کہ کیا ضروری ہے؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :