نظریاتی سرحدوں پر وار

اتوار 14 دسمبر 2014

Badshah Khan

بادشاہ خان

ملک کی صورت حال سب کے سامنے ہے ،اندرونی خلفشار عروج پر ہے،فاٹا میں ضرب عضب جاری ہے تو کراچی میںآ پریشن ،اسلام آباد میں دھرنا ،تو بلوچستان میں دھماکے،مسائل انتہا کو پہنچ چکے ہیں،اور اس سنگین صورت حال میں جہاں یکجہتی کی ضرورت ہے ایک طبقے کے چند افراد ملک کی نظریاتی سرحدوں پر وار کرنے سے باز نہیں آرہے اور ایسے سرویز میں مصروف ہیں کہ ان کی سالوں سے جاری محنت کتنی کامیاب ہوئی،کمزور خیالات وافکار پر ڈھگمگاتی تحریک جس کا نہ تو اسلامی اقدار سے تعلق ہے نہ ہی مشرقی ثقافت وجغرافیائی صورت سے مناسب؟ مگر ان چند افراد کی خواہش ہے کہ پاکستان جس کی بنیاد قراردادپاکستان و قرار داد مقاصد سے بندھی ہوئی ہے ،ختم ہو اور اسلامی جمہوریہ کا لفظ بھی کاٹ دیا جائے اور سیکولرازم کے نام پر ان کے آقاوں کے مقاصد پورے ہوں ،یہ افراد وقتا فوقتا نئے نئے شوشے اور پروپیگنڈے کرنے میں مصروف رہتے ہیں،یہ ٹولہ جو ماضی قریب میں فوج کا سخت مخالف تھا اور کھولے عام کہتے اتنی بڑی فوج کی کیا ضرورت ہے؟اتنے بجٹ میں اسکول بن سکتے ہیں اسپتال تعمیر کئے جاسکتے ہیں،قائداعظم ملک کو فلاحی ریاست بنانا چاہتے تھے مگر سیکورٹی ریاست بن گئی ہے،وغیرہ وغیرہ،آج وہی عناصر اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کیلئے اور پاکستان کے نظریاتی سرحدوں پر وار کرنے کے لئے فوج سے اپیل کر رہے ہیں کہ ایک نئی نظریاتی جنگ شروع کرنا وقت کا تقاضہ ہے۔

(جاری ہے)


ایک موقر اخبار کے کالم نگار جس کا تعلق اسی ٹولے سے ہے اپنے تازہ کالم میں لکھا ہے کہ جن نظریات کے لوگوں کے خلاف کے خلاف ضرب عضب جاری ہے ویسے ہی لوگوں کے خلاف نظریاتی جنگ بھی شروع کی جائے ہمارے تعلیمی ادارے ہمارا میڈیا اور لٹریچر سب کو اسی انداز میں کام کرنا ہوگا،کیونکہ ابھی تک ضیاء الحق کے بنائے ہوئے نظریاتی زہر سے ہم آزاد نہ ہوسکے ہیں۔

خیر اور بھی بہت کچھ لکھا ہے اس سے ہی اندازہ لگا لیں کہ یہکیا چاہتے ہیں ان کے خیالات ملک کی اکثریتی آبادی جو کہ ملک میں اسلامی نظام کا نافذ چاہتی تھی اور ہے اس سے متصادم ہے مگر یہ کوئی بھی موقع اس نظریاتی سرحد پر وار کرنے سے نہیں چکتے،نصاب تعلیم کا معاملہ ہو یا اسلامی شقوں کے خلاف مہم،حدود آرڈیننس قانون میں ترمیم ہو یا توہین رسالت قانون کا معاملہ یہ سازشوں میں مصروف نظر آتے ہیں،تاکہ اتنا گرد وغبار اٹھایا جائے کہ سچ اس میں نظر نہ آئے ان کے موضوعات، ان کے خیالات ،ان کی تحریریں، ان کی تقاریر سب ایک منصوبے و ایجنڈے کے مطابق ہوتی ہیں ،البتہ ان کے چہرے اورادارے وکام مختلف ہوتے ہیں،جہاں اٹھتے بیھٹتے ہیں ان کا نظریہ بولتا ہے،اگر ہم جیسا تاریخ کا طالب علم تاریخ میں سے چند اوراق نکال کر سامنے رکھتا ہے تو پھر ان افراد کا ٹالرنس(برداشت) ختم ہوجاتا ہے،برداشت کا درس الاپنے والے فورا ہم جیسوں کا تعلق طالبان سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ قیام پاکستان کے وقت طالبان تو کیا جہادی تنظیمیں بھی موجود نہ تھی اس وقت بھی عام مسلمان ایسا ملک چاہتے تھے کہ جس میں وہ اسلامی نظام کے نافذ کو دیکھ سکیں،کیا قائد اعظم وعلامہ اقبال طالبان تھے؟یہ سن کر بھڑک اٹھتے ہیں کہ تم جیسا طبقہ دقیانوسی خیالات کا مالک ہے دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور تم پرانی اقدار کا ورد کرتے ہو۔


بنیاد پرست ہاں ہم بنیاد پرست ہیں ہماری بنیاد نظریہ پاکستان اور قرارداد مقاصد پر استوار ہے پاکستان دنیا کا وہ ملک ہے کہ جو اسلامی نظریئے کی بنیاد پر قیام ہوا جس کا نعرہ سلو گن ؛لاالہ الااللہ؛ تھا اور ہمیں اس پر فخر ہے ،دنیا کے ممالک کو اپنے نظریات پر فخر ہوتا ہے،مگر افسوس غلام ابن غلام اس ملک میں اسلامی قوانین کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتے رہے اور اب بھی سرگرم ہیں،ان کی نئی خواہش ان کے مذموم عزائم کا اظہار کرتی ہے کہ اس ملک میں مذہبی طبقے کو اتنا مارا جائے کہ ملک کا شیرازہ بکیھر جائے،نئی نظریاتی جنگ شروع کرنے کا مطالبہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ،یہ ٹولہ کئی برسوں سے نظریہ پاکستان کے خلاف زہر اگل رہا ہے ،میڈیا میں موجود لبرل تجزیہ نگار ہوں یا کالجز ویونی ورسٹیز میں موجود پروفیسر سب کی خواہش ہے کہ پاکستانی قوم کو بدل کر ان کے آقاوں کے خواہشات کے مطابق ڈھل جائے۔


نظریہ پاکستان ان پہلا ہدف بن چکا ہے ، نظریہ پاکستان کے خلاف اتنا گردوغبار اٹھایا جارہا ہے کہ نئی نسل کو آزادی کی عظیم جدوجہد کا مقصد سمجھنا مشکل ہوگیا ہے، نوجوان نسل کو کنفیوزڈ کرنے کیلئے بتایا جاتا ہے کہ تین وازراتوں پر اتفاق نہ ہونے سے پاکستان معرض وجود میں آیا، اب تو چند برسوں سے شاعر مشرق علامہ اقبال کا تذکرہ صرف نام تک کئی جگہ محدود ہوچکا ہے شاعری تو دور کی بات ہے ،چونکہ علامہ اقبال کی شاعری جہاد، اسلام ،خوداری غیرت وحمیت کے اشعارسے بھری ہوئی ہے اس لئے مخصوص طبقے کو اس سے بہت تکلیف ہے،پاکستان بننے کے بعد ۲۱مارچ ۱۹۴۸ کو ڈھاکہ اسٹیڈیم میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم نے فرمایا؛ اسلام نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ خواہ آپ کچھ بھی ہو اور کہیں بھی ہو آپ بحیثت مسلمان ایک قوم ہیں،آپ نے جو مملکت قائم کی ہے وہ کسی پنجابی،بنگالی،سندھی ،پٹھان کی نہی ہے ،بلکہ آپ سب کی ہے،میں آپ سے کہونگا کہ صوبائیت سے چھٹکارا حاصل کرلیجیے کیونکہ جب تک یہ زہر پاکستان کے سیاسی ڈھانچے میں موجود رہے گا آپ کبھی عظیم قوم نہیں بن سکیں گے اور آپ وہ سب کچھ حاصل نہ کرسکیں گے جو میری خواہش ہے کہ آپ حاصل کرلیں؛۔

تحریر کئے گئے الفاظ کو ایک بار پھر غور سے پڑھیں ،کیا ہم نے نظریہ پاکستان کی حفاظت کی؟ کیا نظریہ پاکستان جس کی اساس اسلام پر ہے واحد راستہ نہیں ان مشکلات سے نکلنے کا؟اب بھی وقت ہے کہ ہم تعصب ولسانیت کے بدبودار نعروں سے باہر آنے کے لئے اقدامات کریں اور قائداعظم کے اس فرمان ایک خدا ،ایک کتاب ،ایک رسول اور ایک امت کے نعرے کو فروغ دیں تاکہ یہ ملک اور اس میں رہنے والے متحد ہوسکیں ورنہ بنگال کے بعد دشمنوں کی نظریں اور پنجے کئی جگہ پر موجود ہیں،نہ سمجھو گے تو مٹ جاوگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اے پاکستان والو۔
(نوٹ) آخر میں دعا کی اپیل ہمارے دوست روزنامہ وحدت کے ایڈیٹر سید ہارون شاہ کی والدہ محترمہ کا انتقال ہوگیا ہے اللہ انہیں جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائیں،آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :