’بند ہو جا سم سم‘

اتوار 14 دسمبر 2014

Jahid Ahmad

جاہد احمد

’اتنا فساد برپا کر دیا جائے کہ جس کے شور میں کنٹینر کی اذیت سے چھٹکارے کی گونج دب کر رہ جائے‘۔ بھرپور فساد برپا کیا گیا۔ تصادم کی فضاء پیدا کی گئی۔مخالفین میں ٹکراؤ ہوا۔پھر جیتا جاگتا جوشیلا حق نواز لاش بن کرڈھے گیا۔ حق نواز کی زندگی کے عوض مقاصد کی تکمیل ہوئی۔پھر وہی پرجوش خطاب ، انقلاب بر آنے کی نوید ، مزید خونریزی اور مستقبل قریب میں ایسے بہت سے مقابلوں کی پیشین گوئیاں اور دھمکیاں ۔

خدا بھلا کرے کھلاڑی صاحب کا کہ یہاں ملک خانہ جنگی کے ماحول میں دھکیلے جانے کو ہے ادھر انہیں اب بھی ہار جیت، کھیل اور مقابلے بازی سوج رہی ہے!
حق نواز کے قاتل کی گرفتاری اور لواحقین کو انصاف فراہم کرنا ریاست کی اولین ذمہ داری ہے پر پاکستان تحریکِ انصاف کے انقلابی قائیدین اس نوجوان کی موت کا ملبہ دیگر تمام معاملات کی طرح حکومتِ وقت اور اس کے گلو بٹوں کے نام پر ڈال کر بری الذمہ نہیں ہو سکتے ! اس جوان موت کی ذمہ داری حکومت سے زیادہ پاکستان تحریکِ انصاف کے جوشیلے قائدین پر عائد ہوتی ہے جو تبدیلی کے نام پر اپنے پیروکاروں کو جلاؤ گھیراؤ اور مرنے مارنے کی ترغیب کھلے بندوں دیتے نہیں تھکتے۔

(جاری ہے)


زمینی حقائق یہ ہیں کہ فیصل آباد پاکستان مسلم لیگ (ن) کا سیاسی گڑھ ہے۔ فی الوقت قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نوے فیصد سے زائد نشستیں ن لیگ نے جیت رکھی ہیں۔ ایسی صورتحال میں پاکستان تحریکِ انصاف کی جانب سے اس شہر کو مکمل طور پر بند کر دینے سے متعلق ہیجان پھیلانا، اپنے کارکنان کو فیصل آباد شہر زبردستی بند کروانے کی شہ دینا اور یہ باور کروانا کہ انہیں کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑے گا کیونکہ عوام خان صاحب کی محبت میں مری جا رہی ہے درحقیقت پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنماؤں کا محض غیر ذمہ دارانہ نہیں بلکہ مجرمانہ طرزِ عمل ہے!تمام تر کوشش کے باوجود اس طرزِ عمل کی حامل سیاسی جماعت کے رہنماؤں کے سیاسی مقاصد سے متعلق کس حد تک مثبت رائے قائم کی جا سکتی ہے! صاف ظاہر ہے کہ تصادم کروانا اور انارکی پیدا کرنا اولین مقصد تھا جس کا ایندھن حق نواز کی لاش بنی۔


حق نواز کی لاش ایسی کسی بھی پیدا کردہ صورتحال کا منطقی انجام ہے۔ انقلابی روش نہ بدلی گئی تو حق نواز اس معرکے کی آخری لاش ثابت نہیں ہو گی۔ لاش انقلابی جماعت کے کارکن کی تھی یہی لاش مخالف جماعت کے کسی فرد کی بھی ہو سکتی تھی۔ بار بار غلط تجربہ دہرا کر مثبت نتائج کی امید رکھنا بیوقوفی کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ کیسا سیاسی فہم ہے جو اپنے معاشرے کے محرکات اور حساسیت کو سمجھتے بوجھتے ہوئے بھی آگ اور خون کا کھیل کھیلنے سے گھبرا نہیں رہا! ایک تتر بتر، ذات پات میں منقسم، مذہبی منافرت کے شکار، جذباتیات میں اٹے اور فرقہ و بنیاد پرستی میں بٹے ہوئے نوجوانوں کی اکثریت پر مشتمل معاشرے میں مختلف گروہوں کو انقلاب کے نام پر آمنے سامنے کھڑا کر کے یہ امید بہم رکھنا کہ معاملات پر امن رہیں گے انتہائی کم نظر سوچ ہے۔

اس انقلابی جماعت کا لائحہ عمل صرف اتنا سا ہے کہ بغل میں چھری منہ پہ رام رام۔ تمام تر اشتعال و شر انگیز حربے اختیار کرنے کے بعد کنٹینر سے ہر منفی واقعہ کی ذمہ داری حکومت پر ڈال کر فریادی بن جاؤ! محمد مصطفی خان صاحب ایسے ہی فریاد یوں بارے فرما گئے کہ:
بلبلیں کیا ساتھ دے سکتی ہیں نالوں کا میرے زاغ میرا ہمنوا ہو کر پریشاں ہو گیا
کس کو بدھو بنا رہے ہیں اور کب تک! یاد رکھیں کہ تاریخ سفاک ترین منصف ہے!
حکمران برے، حکومت بد ترین، سیاست دان نا اہل، پارلیمان بے ایمان !لیکن ذرا ٹھہرئیے کہ اپنے گریباں میں جھانک کر ارشاد فرمائیے گا جن بنیادوں پر آپ سیاست دانوں اور پارلیمان کی عزت افزائی روز کرتے نہیں تھکتے ہیں کیا وہی خوبیاں بدرجہ اتم آپ اور حواریوں میں وافر مقدار میں نہیں پائی جاتیں!!!ماشاء الله موجودہ سیاست دان اور جمہوریت کے لئے وہی لب و لہجہ اختیار کیا گیا ہے جو ہردورِ مطلق العنانیت سے پہلے اور دوران میں ڈکٹیٹروں کی جانب سے اس قبیلے اور نسل کے لئے مستعمل رہا۔


مسئلہ اسقدر پیچیدہ اور سنگین تو کبھی نہ تھا کہ جتنا بنا دیا گیا۔ ایک قابلِ حل سیاسی مسئلے کو غیر جمہوری خواہشات کی تکمیل کے مقصد سے جس طور پارلیمان سے نکال کر سڑکوں کی زینت بنایا گیا اور نظام کو تہہ و بالا کرنے کی جو ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے کسی صورت فخریہ فعل نہیں ۔انتخابی دھاندلی پر مذاکرات انقلاب مارچ سے پہلے بھی کیے جا سکتے تھے، یہی مذاکرات پارلیمان پر چڑھ دوڑنے سے قبل بھی نتیجہ خیز ثابت ہو سکتے تھے، یہی مذاکرات سول نافرمانی کی کال سے پہلے بھی کسی کنارے لگ سکتے تھے پر تب زعمِ خودی کا ایسا نشہ اور انگلی کے کھڑے ہونے کا ایسا یقیں تھا کہ وزیر اعظم کے مستعفی ہونے تک مذاکرات کی کامیابی کا سوچنا بھی گناہ تھا۔

اب فساد پھیلا کر حق نواز کی لاش کی آڑ پیچھے وزیر اعظم کے استعفی سے دستبردار ہو کر مذاکرات پر آمادگی کا کیا مطلب لیا جائے!
کپتان کو بھی اب سمجھ لینا چاہیے کہ یہ کوئی کھیل نہیں چل رہا نہ کوئی جنگ جاری ہے بلکہ سیاست اور نظام سے جڑے معاملات ہیں جن میں کسی بھی فریق کی حتمی جیت کبھی نہیں ہوتی ۔ معاملات کو مل بیٹھ کر پاکستان کے بہترین مفاد میں افہام و تفہیم سے طے کیا جانا ہے۔

باقی سب شعلہ بیانیاں ہیں کیونکہ انقلابی جماعت اتنی سیاسی اور عوامی قوت نہیں رکھتی کہ اس کی ایک کال پر پورا فیصل آباد، کراچی، لاہور اور پھر پاکستان ہی پرامن طریقہ سے خود بخود مکمل طور پر بند ہو جائے۔کپتان کنٹینر پر چڑھ کر کہیں ’بند ہو جا سم سم‘ اور پاکستان بند ہو جائے اور جب کپتان کہیں ’کھل جا سم سم‘ توپاکستان کھل جائے!!عوام کے روز و شب اورکاروبار کو متاثر جبکہ ان شہروں میں موجود مخالف سیاسی کارکنان کونفسیاتی ٹھیس پہنچائے بغیر ایسا ممکن نہیں۔


یہ خانہ جنگی کی صورتحال پیدا کرنے کے مترادف ہے جس کا متحمل پاکستان نہیں ہو سکتا!ایسی صورت میں معاملات کا کسی بھی غیر جمہوری عمل پر منتج ہونے کی صورت میں نظام کے ساتھ تو جو ہو گا سو ہو گا پر کپتان کی حیثیت بھی دودھ میں پڑی مکھی سے زیادہ نہیں ہونے کی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :