لال حویلی والے کی جیت

بدھ 10 دسمبر 2014

Prof.Riffat Mazhar

پروفیسر رفعت مظہر

ابھی تک کانوں میں مارو،مَرجاوٴ ،جلاوٴگھیراوٴ کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔یہ اشتعال انگیز باتیں ننکانہ صاحب کے جلسے میں مُنہ سے کَف چھوڑتے ہوئے شیخ رشیداحمد نے نسلِ نَو کومخاطب کرتے ہوئے کہیں اور پھر ہر جلسے میں متواتر مرنے مارنے کا درس ہی دیتے چلے گئے۔شور اُٹھتا رہا کہ انارکی کا درس دینے والے پر آرٹیکل 6 کا اطلاق کرکے پابندِسلاسل کیاجائے لیکن حکومت ہمت ہی نہیں کرپائی ۔

تحریکِ انصاف کے سابق صدر اور محرم درونِ خانہ جاویدہاشمی نے کہاتھا کہ تحریکِ انصاف اور عوامی تحریک کو پندرہ بیس لاشوں کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی تحریکوں میں انسانی خون شامل کرسکیں۔کوشش تو بہت ہوئی لیکن نوازلیگ نے صبروتحمل سے کام لیا۔اِس خواہشِ ناتمام کی بناپر دونوں جماعتوں کے دھرنوں کے غباروں سے ہوانکل گئی ۔

(جاری ہے)

قادری صاحب تو اپنا دھرنا سمیٹ کر اپنے ”وطن“لوٹ گئے لیکن خاں صاحب شیخ رشید کے ہتھے چڑھ گئے جس نے اپنی ابلیسیت کو بروئے کار لا کر نسلِ نَو کو جلاوٴ گھراوٴ ،مارو مرجاوٴ کا درس دینا شروع کردیا اور اسی درسِ ابلیس نے فیصل آبادمیں وہ کچھ کردکھایا جس کی خواہش خاں صاحب پونے چار ماہ سے پالتے چلے آرہے تھے ۔

مطمٴن شیخ صاحب اب کہتے ہیں کہ تحریک میں انسانی خون شامل ہوگیا ہے اِس لیے نوازلیگ کا جانا ٹھہر گیا۔قصور اِس میں نوازلیگ کابھی بھرپور کہ جس نے اپنے کارکنوں کو کھلی چھٹی دے کر اپنے پاوٴں پر کلہاڑی مارلی ۔
تحریکِ انصاف نے 8 دسمبر کو فیصل آبادمیں پُرامن احتجاج کا اعلان کیاتھا لیکن تحریک کے کارکنوں نے 8 دسمبر کی صبح سے ہی جگہ جگہ ٹائر جلاکر سڑکیں بند کرنا شروع کردیں ،سکولوں میں گھس کربند کروانے کی کوشش کی اوردوکانوں کو خطرناک نتائج کی دھمکیاں دے کر بند کروا دیاگیا لیکن پولیس خاموش تماشائی بنی رہی ۔

معاملہ کچھ آگے بڑھا توتحریکِ انصاف اور نوازلیگ کے کارکن آمنے سامنے آگئے ،تصادم ہوا ، ایک لاش گری اور کئی زخمی ہوکر ہسپتالوں میں جا پہنچے ۔ معیشت کا جو نقصان ہوا سو ہوا لیکن انسانی جان کی توکوئی قیمت ہی نہیں اور نہ ہی انسانی جان کا کوئی ازالہ ۔عمران خاں کہتے ہیں کہ اُن کے کارکنوں کو ”برگرفیملی“کہا جاتا تھا اوررانا ثناء اللہ سمجھتے تھے کہ پی ٹی آئی والے بھاگ جائیں گے لیکن اُنہوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔

اُنہوں نے فرمایا کہ وہ کراچی بھی جائیں گے مگر لاہور جانے کا زیادہ انتظارہے ۔جو کچھ فیصل آباد میں ہوا ،وہی اگر لاہور میں دہرایا گیا تو وہ مقابلہ کرکے دکھائیں گے ۔
تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ اپوزیشن تو احتجاج کرتی ہی ہے ،حکومت کو تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا ۔کیا حکومت کی ذمہ داری صرف تحمل ہی ہے ،عوام کی جان ومال کی حفاظت نہیں؟۔ پھر تحمل بھی کتنا؟۔

گزشتہ پونے چار ماہ سے حکومت تحمل کا مظاہرہ ہی تو کررہی ہے ۔وجہ یہ نہیں کہ تحمل اور بُردباری حکمرانوں میں کُوٹ کُوٹ کر بھری ہے بلکہ یہ کہ حکومت جان چکی تھی کہ تحریکِ انصاف اب آخری حربے کے طور پر لاشوں پہ سیاست کرنا چاہتی ہے اِس لیے وہ محتاط تھی لیکن وہاں احتیاط کاکیا کام جہاں شیخ رشید جیسے صلاح کاروں سے ”متھا“لگاہو ۔وثوق سے کہا جا سکتاہے کہ انارکی پھیلانے کا یہ گُر خاں صاحب نے شیخ رشید ہی سے سیکھاہے کیونکہ خاں صاحب نے جب شہر اور ملک بند کرنے کا اعلان کیا تو اُس سے اگلے ہی دن شاہ محمودقریشی صاحب نے پریس کانفرنس میں اعلان کیاکہ ”شہر بند کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دوکانیں یا ٹریفک بند کی جائے گی ،ہم صرف بڑی شاہراہوں پر پُرامن احتجاج کریں گے ۔

اُنہوں نے ایک ٹاک شو میں اسحاق ڈارصاحب سے کہا کہ اگر حکومت 6 دسمبر تک مذاکرات کا اعلان کردے تو وہ خاں صاحب کو احتجاجی تاریخ موٴخر کرنے پر منا لیں گے ۔ڈارصاحب نے وعدہ کیا اور 6 دسمبر کو اعلان بھی کردیا کہ حکومت مذاکرات کے لیے تیار ہے اور وہ گارنٹی دیتے ہیں کہ حکومت اتوار سے مذاکرات شروع کردے گی اِس لیے خاں صاحب اپنے احتجاج کو موٴخر کردیں لیکن خاں صاحب پر تو شیخ رشید کا جادو سر چڑھ کر بول رہاتھا ۔

اُنہوں نے تحریک موٴخر کرنے سے صاف انکار کرتے ہوئے فرمایا کہ احتجاج تب تک ختم نہیں ہوگا جب تک تحقیقاتی کمیشن نہیں بنتا اور چار سے چھ ہفتے تک فیصلہ نہیںآ جاتا ۔تب حکمرانوں نے بھی کہہ دیا کہ مذاکرات اور احتجاج ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے ۔نتیجہ سب کے سامنے ہے ،اب پتہ نہیں قصور کِس کا ہے ،نوازلیگ کا یا تحریکِ انصاف کا؟۔ یا پھرشایداُن جذباتی نوجوانوں کا ہوگا جنکی لاشوں پر سیاست کا گندا کھیل کھیلا جا رہاہے ۔

ایک ماں کی کوکھ اُجڑگئی اور ہمارے رہنماوٴں نے اُس کی لاش پر سیاست شروع کردی ۔خاں صاحب بنی گالہ کے محل سے پرائیویٹ طیارے میں فیصل آباد تشریف لائے تو اُنہیں پورا پروٹوکول دیاگیا ۔پولیس کی پانچ گاڑیوں کا حصار اور درمیان میں خاں صاحب کی بم پروف گاڑی ۔کیا پولیس کو تنخواہ میاں برادران کی فیکٹریوں سے دی جاتی ہے ؟۔کیا یہ سچ نہیں کہ یہ عوام کی رگوں سے نچوڑا ہوا خون ہے جس پر ادارے پلتے ہیں ؟۔

توپھر قوم کے مُنہ سے نوالہ چھین کر اپنی عطشِ اقتدار کو سیراب کرنے کی سعی کرنے والوں کی حفاظت چہ معنی دارد؟۔جو 400 کنال کے گھر میں رہتاہے اور جس کے کتے کی روزانہ کی خوراک اتنی تھی کہ جس سے ایک عام کنبہ مہینوں گزارا کر سکتا ،کیا وہ اپنی حفاظت کا انتظام خود نہیں کرسکتا؟۔خلفائے راشدین کا دَور لوٹانے کا وعدہ کرنے والے،اپنی ہر تقریر کا آغاز قُرآنی آیت سے کرنے والے اور بھرے مجمعے کے سامنے نماز پڑھنے والے خاں صاحب کیا یہ بتا سکتے ہیں کہ خلفائے راشدین کا حفاظتی دستہ کتنے افرادپر مشتمل تھا ؟۔

کیا وہ نہیں جانتے کہ چار میں سے تین خلفائے راشدنے جامِ شہادت نوش کیا لیکن کسی کو حفاظتی دستے کا خیال تک نہ آیا۔لیکن وہ تو اللہ والے تھے اور یہ دُنیادار ۔۔۔۔خالص دُنیادارجن کی ہوسِ اقتدار اُنہیں ایک پَل بھی چین نہیں لینے دیتی ،جنہیں ملک کی پرواہ ہے نہ قوم کی ۔لیکن ہوسِ اقتدار صرف تحریکِ انصاف ہی کا المیہ نہیں ،اِس حمام میں توسبھی ننگے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :