خالد

بدھ 10 دسمبر 2014

Hussain Jan

حُسین جان

میں نے خالد کو غور سے دیکھا وہ بڑئے بڑئے دیگ نما پتیلے مانج رہا تھا ۔ وہ ایک چھوٹے سے ڈھابہ نما ہوٹل میں کام کرتا ہے۔ یہ ہوٹل خالد کے بہنوئی کا ہے میں نے پوچھا وہ کتنے بجے صبح کام پر آتا ہے تو اُس نے جواب دیا وہ ٹھیک 10بجے کام پر آجاتا ہے۔ اُس نے کہا آپ روکیں میں آپ کے لیے چائے بنواتا ہوں تو میں نے کہا کوئی بات نہیں میں خود ہی لے لوں گا ویسے بھی اُس کا بہنوئی میرا رشتہ دار بھی تو ہے۔

لہذا میں اُس کے مالک جس کا نام عارف ہے کے پاس چلا گیا اُس نے اپنے ایک ملازم کو چائے لانے کو کہا میں نے پوچھا یار خالد کتنے بجے آتاہے تو اُس نے منہ بناتے ہوئے جواب دیا یہ 10بجے سے پہلے کبھی نہیں پہنچ پاتا۔ میں نے سوچا ہو سکتا ہے یہ رات کو جلدی چلا جاتا ہو اسی لیے شکوہ کر رہا ہے کہ وہ صبح کام پر وقت پر نہیں آتا پھر میں نے پوچھا کہ آپ اس کو رات کو کتنے بجے چھٹی دیتے ہیں تو اُس نے کہا رات کو یہ 12بجے تک گھر پہنچ جاتا ہے یعنی 15گھنٹے اُس سے کام لیا جاتا ہے اور بدلے میں ایک دن کی "دیہاڑی"دی جاتی ہے صرف 400۔

(جاری ہے)

بدقسمتی سے خالد کو کچھ عرصہ پہلے فالج کا بھی اٹیک ہو چکا ہے لہذا اُس کے کام کرنے کی رفتار بھی کچھ سست ہے لیکن اس کے باوجود اُس سے اُتنا ہی کام لیا جاتا ہے جتنا ایک تندرست آدمی سے لیا جاتا ہے۔ اب یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں کہ خالد کے بچے بھی ہیں گھر میں غربت کی وجہ سے روایتی طور پر آیک عاد بیمار کا بھی ہونا ضروری ہے لہذا یہ زمہ داری پہلے اُس کی ماں ادا کرتی تھی جو بے چاری دل کی بیماری میں مبتلا تھی مگر علاج نہ ہونے کی وجہ سے گزر گئی۔

اور اب بیمار ہونے کی زمہ داری اُس کے والد صاحب ادا کر رہے ہیں۔ اس تفصیل میں بھی جانے کی ضرورت نہیں کہ سکول کی فیسیں نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے بچوں کو پڑھا بھی نہیں سکا۔ لہذا اُس کے بچے بھی کسی کی غلامی کے لیے تیار ہو رہے ہیں۔ اب بھلا یہ بھی کوئی بتانے کی بات ہے کہ اُس کے گھر کا گیس کٹا ہو اہے کے بیچارا بل ادا نہیں کرپایا اور ہمیشہ کی طرح سرکاردی اداروں نے ساری تیز طراری غریب کے خاتے میں ڈال دی۔

اب میں آپ کو یہ تو بالکل بھی نہیں بتاؤں گا کہ اُس کے اوپر قرضہ کتنا ہے ظاہر پاکستان میں بندہ غریب ہو اور اُس پر قرض کی رقم نہ ہو تو کچھ عجیب سا لگتا ہے۔ ویسے کہنے کو تو ہوٹل کا مالک بہنوئی ہے لیکن رویا اُس کا بھی حاکموں والا ہے کہ یہ کوئی کام نہیں کرتا بس ویلے کو پیسے دے رہے ہیں۔ اب تو سنا ہے خالد کی ایک بیٹی ماشااللہ جوان ہو گئی ہے اور ماں باپ کو اُس کی شادی کی فکر لگ گئی ہے۔

اور یہاں سے کہانی میں توسٹ بھی آسکتا ہے کہ غریب کے بچے کی شادی کہانی میں ہمیشہ اک نیا موڑ لے کرآتی ہے۔ غریبوں کے تو رشتہ دار بھی عجیب ہوتے ہیں اگر غریب ہوں تو بس میل ملاپ رہتا ہے اور اگر تھوڑئے بہت پیسے والے ہوں تو پھر منہ لگانا بھی اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ وہ کیا کسی نے خوب کہا ہے غریب پیدا ہونا قصور نہیں غریب مرنا قصور ہے ،اس حساب سے تو سارے پاکستانی غریب قصور وار ہی ٹھہرئے کہ سب کہ سب غربت میں پیدا ہوتے ہیں اور غربت میں ہی دم توڑ جاتے ہیں۔


ویسے تو یہ ایک خالد کی کہانی اور گھر کا خاکہ ہے جبکہ پاکستان کے ہر شہر ہر گاؤں کے ہر گلی میں آپ کو خالد ہی خالد نظر آئیں گے۔ دوسری طرف ہمارے حکمران ہیں جن کی شاہانہ زندگی دیکھنے کے قابل ہے اُن کے بچے بیرون ممالک تعلیم حاصل کرتے ہیں کسی دوست نے مشورہ دیا کہ یار سیاست پر نہ لکھا کرو کہ لوگ پڑھتے نہیں سوچا یہی تھا کہ نہ لکھوں گا مگر کیا کروں اس کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا پاکستان کے عوام 67سالوں سے سیاست سے دور بھاگتے چلے آئیں ہیں اسی لیے تو ان کی یہ حالت ہے اگر پاکستانی عوام پہلے دن سے ہی سیاست میں اپنا حصہ ڈالنا شروع کر دیتے تو آج ان کے یہ حالات نہ ہوتے۔

حکمران ہیں کہ ملک میں ٹھہرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں ایک ملک سے واپس آتے ہیں تو دوسرئے ملک کے لیے بوریا بستر باندھ لیتے ہیں۔ بڑئے بڑئے اشتہارات اخباروں کی زینت بنتے ہیں مگر غریب کے آنگن میں روشنی نام کی کوئی چیز نہیں ۔ اگر عوام پر 100روپے بھی خرچ کریں گے تو اُس کے لیے سو کروڑ کے اشتہارات لگوا دیں گے۔
جس کو دیکھو جمہوریت کا راگ الاپتا ہے جب کے ملک کے 90فیصد عوام کو پتا ہی نہیں یہ جمہوریت کس بلا کا نام ہے اوراس کا کام کیا ہے۔

ہم تو ہمیشہ ملک میں عجیب طرح کی جمہوریت دیکھتے چلے آئیں ہیں جس میں کبھی بھائی وزیر ہوتا ہے تو کبھی بیٹا یا پھر ابا جی اقتدار کی مسندپر براجمان رہتے ہیں۔ عام آدمی کی زندگی اس قدر مشکل ہو چکی ہے کہ بہت سوں کو تو خودکشی میں پناہ ڈھونڈنی پڑتی ہے کہ یہی سب سے آسان حل نظر آتا ہے۔ کہنے کو تو حکومتیں غریب نوازی کی باتیں کرتی ہیں مگر عملی طور پر غریب کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔

مزدورکے اوقات اور تنخواہ کا علان کر دینا ہی کافی نہیں بلکہ اس پر عمل کروانے کی بھی ضرورت ہے یوں تو ہمارے دیس میں تمام قانون موجود ہیں جو غریب کو بہت سے حقوق دیتے ہیں مگر ان قوانین کو عملی جامہ کون پہنائے گا۔ کتابوں میں شہری حقوق پڑھتے تھے تو بہت خوش ہوا کرتے تھے کہ بڑئے ہو کر ہمیں بھی یہ تمام حقوق ملیں گے مگر اب آکر پتا چلا یہ سب کتابی باتیں ہیں جن کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔

حقوق حاصل کرنے کے لیے آپ کا کسی امیر ،وزیر کا رشتہ دار ہونا ضروری نہیں اگر آپ میں یہ خوبی موجود نہیں تو خود کو گلی کا خارش زدہ کتا ہی سمجھے جو خارش کرتے کرتے ایک دن لاورثوں کی طرح دُنیا سے کوچ کرجاتا ہے۔
ملک میں جاری انتشار اس بات کی علامت ہے کہ 67 سالوں میں ملک ترقی کرنے کی بجارئے پستی کی طرف گیا ہے۔ بہترین ملک تو وہی ہوتا ہے جس کے عوام خوشحال ہوں۔

گھروں میں فاقوں سے بچے نہ مریں۔ 99فیصد لوگ ملک چھوڑنے پر تیار نہ ہوں کہ یہاں یہ عالم ہے جس کو دیکھوں ملک سے باہر جانے کے چکر میں ہے کہ چلو کچھ بہتر مستقبل بن جائے۔ اگر لوگوں کو اپنے ملک میں مواقع مہیا کیے جائے تو وہ کبھی بھی اپنا ملک چھوڑ کر دوسرئے ممالک کے لوگوں کی غلامی کے طوق پہننا پسند نہ کریں مگر شو مئی قسمت کے یہاں مواقع ہی موجود نہیں لوگوں کے پاس اچھا روزگار نہیں ، تو ایسے میں لوگ ضرور دوسرئے ممالک میں جائیں گے اور ملک اہل لوگوں سے خالی ہو جائے گا اور پھر ہر طرف خالد ہی خالد نظرا ٓئیں گے۔ جو بیچارے نہ خود کے لیے کچھ کر پائیں گے نہ ملک قوم کے لیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :