ارضِ کشمیراور۔۔۔ انسانی حقوق کا عالمی دن!

بدھ 10 دسمبر 2014

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

جدید دنیا میں انسانیت پہ ظلم کی نہ صرف نفی کی جاتی ہے بلکہ اس کو روکنے کے لیے عملی اقدامات پر بھی زور دیا جاتا ہے۔ مشرقی دنیا کو تو ابھی ترقی یافتہ تسلیم ہی نہیں کیا گیا(حالانکہ مغربی دنیا آج جتنی بھی ترقی یافتہ ہے وہ مستعار لی گئی ترقی ہے)۔اسلام میں بنیادی انسانی حقوق کا تصور 14سو سال پہلے کا ہے۔ جب کہ مغربی دنیا کا انسانی حقوق کا تصور "میگنا کارٹا" سے ماخوذ ہے۔

میگنا کارٹا یعنی عظیم معائدہ یا عظیم دستاویز ظہور اسلام سے صدیوں بعد کی دستاویز ہے۔ لیکن آج مغربی دنیا خود کو انسانی حقوق کا سب سے بڑا علمبردار تصور کرتی ہے۔ میگنا کارٹا کے حوالے سے سال کے حوالے سے تاریخ میں جون 1215ء نظر آتا ہے۔ اس سے اندازہ لگا لیں کہ انسانی حقوق کے حوالے سے بنیادی تصور اسلامی تعلیمات ہیں یا میگنا کارٹا۔

(جاری ہے)

اور بعض حوالوں میں تو یہ بھی ملتا ہے کہ 17ویں صدی تک تو میگنا کارٹا کی بنیاد تک کا کسی کو پتا نہیں تھا کہ اس میں کیا حقوق ہیں جوتفویض کیے گئے ہیں۔

یہ تو تھے انسانی حقوق کے تصور کے حوالے سے کچھ حقائق۔اب ذراء ملاحظہ کیجیے جدید دنیا میں انسانی حقوق کا تصور۔
10دسمبر 1948 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کا اعلان کیا جسے "یونیورسل ڈیکلیریشن آف ہیومن رائٹس " کا نام دیا گیا۔ اس اعلامیے کی پہلی شق ملاحظہ کیجیے ۔ (آرٹیکل1)تمام انسان آزادی، حقوق و عزت کے حوالے سے برابر پیدا ہوئے ہیں۔

اب اس آرٹیکل کے اطلاق کے حوالے سے صرف ایک ہی مثال کافی ہے"مقبوضہ جموں و کشمیر"۔ نصف صدی سے زائد کا قصہ ہے کہ بھارت انسانی حقوق پامال کر رہا ہے۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ بھارت خود ہی اس مسلے کو اقوام متحدہ میں لیکر گیایہ ذکر ہے48 ء کا۔ لیکن پھر خود ہی اقوام متحدہ کی قراردادوں سے مکر بھی گیا ۔ کیا اقوام متحدہ کا ادارہ اپنے انسانی حقوق کے آرٹیکل 1 کے تحت بھارت پہ آج تک دباؤ ڈال سکا؟ اگر نہیں تو پھر اس ڈیکلیریشن کا فائدہ؟اسی اعلامیے میں ایک اور شق ہے )آرٹیکل2) جس میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی شخص پر آزادی اور بنیادی حقوق کے دروازے رنگ ونسل، عقیدے و مذہب وغیرہ کی بنیاد پر بند نہیں کیے جا سکتے ۔

لیکن پورے بھارت میں اور بالخصوص مقبوضہ کشمیر میں مسلمان اچھوتوں سے بھی بدتر زندگی بسر کر رہے ہیں۔ کیا اقوام متحدہ کبھی بھارت کی کم از کم تنبیہ تک کر سکا اس سلوک پر؟ کیا مذہب کی بنیاد پر اس بدسلوکی پر بھارت کبھی اقوام عالم کے زیر عتاب آ سکا؟ کبھی بھی نہیں۔ اقوام متحدہ کے اس اعلامیے کا ایک اور آرٹیکل ملاحظہ کیجیے(آرٹیکل 3)ہر شخص کو اپنی جان، آزادی اور ذاتی تحفظ کا حق حاصل ہے۔

لیکن اس حق کی مثال ذرا کشمیر میں ملاحظہ کیجیے۔ 1989 سے2014 تک 94,119 افراد موت کے منہ میں دھکیل دیے گئے۔ انہیں شہید کر دیا گیا۔ کیا اس نسل کشی پر اس اعلامیے کا آرٹیکل3 متاثر نہیں ہوا؟ یا کیا بھارت اقوام متحدہ کا رکن نہیں کہ اس سے باز پرس نہیں کی جا سکتی ؟
کیا بیان کیا جائے اور کیا نہیں۔ اسی اعلامیے کے الفاظ شاید بے اثر ہو چکے ہیں۔ (آرٹیکل5)کسی شخص کو جسمانی اذیت ،ظالمانہ، انسانیت سوز سزا نہیں دی جائے گی۔

اسی طرح آرٹیکل9 میں واضح الفاظ میں لکھا گیا ہے کہ کسی بھی شخص کو محض حاکم کی مرضی پر گرفتار ، نظر بند یا جلا وطن نہیں کیا جائے گا۔ لیکن بھارت سرکارکی اس اعلامیے کی ہی پاسداری ملاحظہ کیجیے کے اوپر بیان کیے گئے عرصے کے دوران ہی 1,27,129افراد کو غیر قانونی طور پر حراست میں لیا گیا۔ اور بیشتر قیدی غیر انسانی اذیت کی وجہ سے شہید کر دیے گئے۔

لیکن عالمی ضمیر کے کان پر جوں تک نہیں رینگی ۔ شاید نام نہاد جمہوریت کے علمبردار بھارت کو یہ ظلم ڈھانے کا اختیار دیا گیا ہو۔ اقوام متحدہ کا کردار بس ایک خاموش تماشائی جیسا ہو گیا ہے جسے عالمی سامراج(مغربی دنیا بالخصوص) اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ یہ خاموش تماشائی انسانی حقوق کے اعلامیے کے آرٹیکل17 کی دوسری شق کی سر عام تذلیل پر چوں چراں تک کرنے کی ہمت نہیں رکھتا جس میں واضح الفاظ میں تحریر ہے کہ کسی شخص کو زبردستی اس کی جائیداد سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔

لیکن مقبوضہ وادی کے نصیب میں شاید اس اعلامیے پر عمل درآمد نہیں۔ کیوں کہ اگر ایسا ہوتا تو بھارت کی طرف سے 1,06,022گھر مسمار کر دینے کا نوٹس ضرور لیا جاتا۔ لیکن بھارت تو شاید ہر طرح کے جرائم کے بعد بھی ایک نام نہاد مہذب ملک ہے۔
ٓاس کے علاوہ پچھلے 25سالوں کے دوران 22,786مستورات سے ان کا سہاگ چھین کر ان کو بیوگی کی چادر اوڑھ لی گئی ۔ کیا اقوام متحدہ کے سوئے ہوئے ضمیر نے انگڑائی تک لی کہ یہ ظلم کیوں روا رکھا جا رہا ہے؟کیا ان خواتین کو بیوہ کرنے پر انسانی حقوق متاثر نہیں ہوتے؟نہ صرف خواتین سے ان کا سہاگ چھینا گیا بلکہ 1,07,491بچوں کو یتیم کر دیا گیا۔

کیا یہ بچے اقوام عالم سے پوچھنے کا حق نہیں رکھتے کہ ان کا قصور کیا تھا؟ کیا صرف آزادی کی خواہش رکھنا ہی ان کا جرم تھا؟ 10ہزار سے زائد خواتین کی عصمت دری کی گئی۔کیا یہ خواتین عالمی دنیا کا گریباں پکڑ کر یہ پوچھنے کا حق نہیں رکھتیں کہ جو انسانی حقوق باقی اقوام کے ہیں کیا ان پر مظلوم کشمیریوں کا کا کوئی حق نہیں؟ کیا ظلم سہتے ہوئے کشمیری انسانیت کی تذلیل کی زندہ مثال نہیں ہیں؟
یہ وہ تمام سوالات ہیں جو نہ صرف اقوام متحدہ کے منہ پر بطور ایک ادارہ طمانچے کی طرح ہیں۔

بلکہ تمام عالمی طاقتوں کے کردار پر بھی یہ سوالات ایک داغ کی مانند ہیں۔ یہ سوالات ظاہر کرتے ہیں کہ عالمی طاقتیں انسانی حقوق کا ڈھنڈورا صرف مخصوص مقاصد کی تکمیل کے لیے پیٹتی ہیں ورنہ مظلوم کشمیری کبھی ان کی نظروں سے اوجھل نہ ہوتے۔اقوام متحدہ کے زیر اہتمام جنیوا میں جاری کشمیر اور فلسطین کے موضوع پر اجلاس میں دو بھارتی خواتین محترمہ زمرد حبیب اور مسعودہ پروین کے خطابات بھی عالمی ضمیر کی بے حسی پر ایک تازیانہ ہیں۔

زمرد حبیب بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں 5سیل جیل کاٹ چکی ہیں۔ جب کہ مسعودہ پروین بھارتی مظالم کے خلاف عدالتی جنگ لڑ رہی ہیں ۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور اقوام متحدہ کے بنیادی انسانی حقوق کے علمبردار وں کی آنکھیں نہ جانے اس وقت کیوں بند ہو جاتی ہیں جب انیسہ نبی جیسی باہمت خاتون کو عالمی ضمیر کو جگانے کی پاداش میں خاندان کو ڈرانے دھمکانے جیسا قبیح عمل کیا جاتا ہے۔


اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا اعلامیہ اس وقت تک صرف کاغذ کے ٹکڑوں پہ ایک دستاویز ہی شمار ہو گا۔ جب تک بلا تفریق اس پر عمل نہیں کروایا جاتا۔ اقوام متحدہ کے رکن کے طور پر بھارت بھی اس اعلامیے پر عمل در آمد کرنے کا پابند ہے۔ اور اقوام متحدہ کو بھی اپنا کردار ایک خاموش تماشائی سے تبدیل کر کے ایک موثر عالمی فورم کے طور پہ نبھانا ہو گا۔ اور بھارت کو یہ احساس دلانا ہو گا کہ جس مسلے کو وہ خود اقوام متحدہ میں لے کر آیا اس سے انسانی حقوق کے اعلامیے کے مطابق بری الذمہ ہونا بھی اس کی ہی ذمہ داری ہے۔ اگر اقوام متحدہ ایسا کرنے میں ناکام رہا تو پھر اس اداے کی رہی سہی ساکھ بھی خاک میں مل جائے گی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :