ملک کی رگوں میں لسانیت کا زہر

ہفتہ 6 دسمبر 2014

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

نظریہ پاکستان کے پرچارک، مسلم لیگی رہنما سعیدالحسن بخاری کہتے ہیں کہ کانگریس کے رہنما مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی کتاب ”انڈیاون فریڈم“ میں لکھا ہے کہ ”وہ(کانگریس) یہ چاہتی ہے کہ ان علاقوں یا صوبوں کی حد بندی جہاں تک ہوسکے لسانیت اورتہذیبی نقطہ نظر سے کی جائے“یہ اس کتاب کا چھوٹا سا پیرا ہے جبکہ مولانا نے آگے چل کر کانگریس کی ترجیحات کا ذکر کرتے ہوئے بار باروہی حوالہ دیا ، یہ وہ حوالہ ہے جس کی بنیاد پر کانگریس نے 1946 ء میں حصہ لیا اور وہ خواہش مند تھی کہ اول تو برصغیر پاک وہندکی تقسیم کاعمل وقوع پذیرنہ ہو کیونکہ مسلمان اورہندو ایک عرصہ سے اکٹھے چلے آرہے ہیں اس لئے ان میں زبان، کلچر کاکوئی مسئلہ نہیں ہے اس لئے ہند کی تقسیم کاکوئی جوازنہیں بنتا تاہم اگر تقسیم کا عمل ہوبھی جائے تو سندھ کے بسنے والے چاہے وہ ہندو ہوں یا مسلمان وہ سندھی کہلائیں گے، پنجاب کے باسی ہندو، مسلمان، سکھ سبھی پنجابی کہلائیں گے اوروہ پنجاب کاحصہ بنیں گے ایسے ہی بہار کے رہنے والے سبھی باشندے بہاری اورپھر صوبہ بہار کاحصہ بنیں گے۔

(جاری ہے)

لیکن دوسری جانب مسلم لیگ کا نقطہ نظر یکسر مختلف تھا، مسلم لیگ کی طرف سے دیاگیا واضح منشور ”دو قومی نظریہ “ ہی کہلاتاہے،جس کے تحت ہندواکثریت آبادی والے علاقے ہندوستان میں مسلم آبادی والے علاقے پاکستان میں شامل ہونگے دونوں جماعتوں نے اپنے منشور کے مطابق الیکشن لڑا ،مسلم لیگ نے جن علاقوں میں اکثریت حاصل کی وہ آج کا پاکستان کہلاتا ہے، پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ کیاجائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ سندھ، بلوچستان ،پنجاب سمیت دیگر علاقوں میں آباد ہندو یہاں اپنی جائیداد زمینیں وغیرہ چھوڑکر چلے گئے جس پر مقامی لوگوں نے قبضہ جمالیاتھا یاوہ بحق سرکارضبط کرلی گئی تھیں، اسی نقطہ نظر کو سمجھتے ہوئے ذرا آگے کو چلتے ہیں کہ موجودہ پنجاب میں یوں تو مسلم لیگ کو اکثریت حاصل رہی تاہم دو یا تین ایسی شخصیات تھیں جن کا تعلق مسلم لیگ سے نہ تھا لیکن وہ کانگریس کے نظرئیے کی بھی حامی نہ تھی انہیں اس صوبہ میں کامیابی ملی تھی۔

تاہم اگر کانگریس کے منشور پر عمل کیاجاتا تو پنجاب ،سندھ کو چھوڑ کر جانیوالے سرائیکی اور پنجابی یہیں پاکستان کاحصہ ہوتے لیکن چونکہ منشور کے مطابق ہی ان علاقوں میں مسلم لیگ کوکامیابی ملی اور یہ علاقے پاکستان میں شامل کئے گئے تو ان سرائیکی پنجابی سندھی بولنے والوں کویہاں سے حجرت کرناپڑی۔یہ ہے مسلم لیگ کے دو قومی نظریہ اور کانگریسی نظریہ تقسیم کا نتیجہ ہے کہ آج پاکستان مسلمانوں کی اکثریت والا ملک کہلایاجاتاہے دوسری جانب کانگریس نے جس لسانیت کی بنیاد پر انتخابات جیتے اورتقسیمی عمل کاحصہ بنی ا س کے نتیجے میں ہی اسے سیکولر ریاست قرار دیا جاتاہ ے1947سے لیکر آج تک نصابی یاتاریخی کتب میں دوقومی نظرئیے کا ذکر اتنی محبت سے کیاجاتا رہا کہ ہردور میں پروان چڑھنے والی نسل یہی سمجھتی رہی کہ پاکستان کی بنیاد دو قومی نظریہ یا ”لاالہ الاللہ“ ہی ہے لیکن آج جبکہ پاکستان دنیا کے چیلنجوں کے سامنے اپنی بقا کی جنگ لڑرہاہے تو کئی برسوں سے ایک نیا نقطہ نظر پاکستانی عوام کے کانوں میں انڈیلنے کی کوشش کی جارہی ہے ،
اسے بدقسمتی سے ہی منتج کیاجاسکتاہے کہ پاکستان کی رگوں میں فرقہ واریت کا زہر پچھلے کئی عشروں سے اتنی سرعت سے انڈیلا گیا ہے کہ آج مذہبی طبقات مختلف ٹکڑوں میں بٹے ہوئے تھے تاہم اسلام کے بنیادی عقائد یا محترم ومعتبر ہستیوں پر جب کبھی بھی زک پڑی تو تمام ترطبقات فرقہ وارانہ اختلافات کے باوجود ایک ہی صف میں کھڑے نظرآئے ، پاکستانی قوم کو تقسیم درتقسیم کے عمل سے گزارنے کے خواہشمندوں نے جب یہ دیکھاتو پھر انہوں نے نئی چال چلتے ہوئے لسانیت کا زہر اس قوم کی رگوں میں انڈیلنا شروع کردیا جس کانتیجہ ہے کہ آج پاکستان میں لسانیت کا اس حد تک پرچارک کیاجارہا ہے کہ دوقومی نظریہ تک کی توہین کردی گئی بلکہ بعض چینلوں پر ”پاکستان کا مطلب کیا “ کے نعرے کو الٹے پلٹے اورکئی طرح کے رنگا رنگ آوازوں میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور یہ سلسلہ اتنے تواتر سے جاری ہے کہ کئی عشروں تک ’#’پاکستان کامطلب کیا، لاالہ الا للہ“ کے نعرے لگانے والے آج دم بخود ہیں کہ یکا یک پاکستان کے منشور کو کیوں کر تبدیل کردیاگیا
پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ (آج کی ن لیگ یہی دعویٰ کرتی نظرآتی ہے )کی مشاورت اورمعاونت سے پہلا واریہ کیاگیا کہ سرحد کا نام ”خیبر پختو نخواہ “ رکھ دیاگیا نتیجہ یہ نکلا کہ لسانیت کا نہ ختم ہونیوالا لاوا بہتا دکھائی دیتاہے۔

قرآئن بتاتے ہیں کہ ”خیبرپختونخواہ“نام میں لفظ ’#’خیبر“ مسلم لیگ کی منشا سے شامل کیاگیا باقی پختونخواہ صوبائی حکمران جماعت اے این پی کی مرضی سے رکھا گیا جو بذات خود لسانیت کا واضح عکس دکھائی دیتاہے اس نام پر ہزارہ اوردوسرے علاقوں میں احتجاج ہوا تاہم بعض دیگر کئی وجوہات کے علاوہ سیاسی عوامل اورکچھ وعدے وعید کی بناپر وہ احتجاج موخرکردیا گیا۔

آج یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا بلکہ پنجاب کی رگوں میں یہ زہر اتنی تیزی سے انڈیلا گیا ہے کہ آج پنجاب کے باسی ایکدوسرے سے پوچھتے نظرآتے ہیں کہ آخر پنجاب کو لسانیت کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی ضرورت کیوں پیش آگئی“ ساٹھ پینسٹھ سالوں میں محرومیاں جنوبی پنجاب کے باسیوں کا مقدر تو رہیں لیکن کیا سندھ اوربلوچستان کے محروم علاقوں سے بھی یہ لوگ گئے گزرے تھے ۔

رہی بات یہ کہ کیا پنجاب کی انتظامی بنیادوں پر تقسیم ممکن نہیں؟کیونکہ عرصہ دراز سے لسانیت کازہر بھرنے والوں نے محض اس بنیاد پر بھی پنجاب کی مخالفت کی تھی کہ ”بڑابھائی ہونے کے ناطے یہ صوبہ چھوٹے بھائیوں کے حقوق غصب کررہاہے “ لیکن جب یہ پروپیگنڈہ بھی اثر نہ کرسکاتو پھر سرائیکی وسیب کی محرومیوں کو اس حد تک ہوا دی گئی کہ اب لوگ آپے سے باہر دکھائی دیتے ہیں وفاقی حکومت کے نظریات نے اس پر جلتی کاکام کیا،قرآئن بتاتے ہیں کہ ایک عرصہ سے پنجاب پر حاکمیت کا خواب کسی طورپر پور ا نہ ہوتے دیکھ کر وفاق کے حاکمین نے لسانیت کا زہر پھر سے گھولنا شروع کردیاہے اور آج ملک بھر میں نئی بحث چھڑی دکھائی دیتی ہے کہ ”بہاولپور جنوبی پنجاب “ صوبہ بنایاجائے، اس پر ”سرائیکستان “ کے حامی بھی منظرعام پرآچکے اور پہلے مطالبات کی شکل میں پھر مظاہروں اوراب دھمکی آمیز لہجوں میں کہاجارہاہے کہ اگر سرائیکستان نہ بناتو پھرپاکستان بھی نہیں رہے گا(خاکم بدہن) یہ رجحان بذات خود انتہائی خطرناک شکل اختیار کرتاجارہاہے اور اس پر بلاسوچے سمجھے وفاقی اورپنجاب کی صوبائی حکومت سیاست کررہی ہے
انہیں یہ تک خبر نہیں ہے کہ اس رجحان کے مستقبل کے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔


سوچنے کامقام یہ ہے کہ آج دوقومی نظریہ کی ردکرنے کے بعد لسانیت کا زہر اور لسانیت کی بنیاد پر صوبوں کی تقسیم کاواویلا کیوں کیاجارہا ہے ، یہ بھی سوچئے کہ کیا اس کے پس منظر میں کانگریسی عقائد رکھنے والے لوگ تو موجود نہیں؟یاپھر یہ بھی ہوسکتاہے کہ بین الاقوامی سطح پر کھیلے جانیوالے اس گھناؤنے کھیل میں مقامی لوگ استعمال کئے جارہے ہوں؟ کیونکہ لسانیت کی بنیاد پر صوبوں کی تقسیم اورخاص طورپر پنجاب کی تقسیم کے حوالے سے این جی او زکا تحرک بھی بذات خود حیران کن ہے۔ یقینا اس سازش کا توڑکرنے کیلئے محب وطن قوتوں کو کردار اداکرنا ہوگا اورخاص طورپر دوقومی نظرئیے کی بقا کیلئے بھی کوششیں کرناہونگی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :