عروج و زوال !

منگل 2 دسمبر 2014

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

شپنگلر بیسویں صدی کا عظیم موٴرخ تھا،وہ 1880میں پیدا ہو ااور 1936میں وفات پائی۔اس نے دنیا کی آٹھ تہذیبوں کا مطالعہ کیا اور اس مطالعے کے بعد”مغرب کا زوال “کے نام سے عظیم کتاب لکھی۔ یہ کتاب تہذیبوں کے مطالعے اور زوال کی داستان پر ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ شپنگلر نے بتایا دنیا کی ہر تہذیب اپنی زندگی کے مختلف ادوار سے گزرتی ہے۔

اپنی زندگی کے ابتدائی دور میں وہ مذہب اور آرٹ کو تخلیق کرتی ہے، جوانی اوربہار کے موسم میں وہ فیوڈل ازم اور جاگیر داری کو فروغ دیتی ہے،عمر کے تیسرے حصے میں اس پر عقلیت پرستی کا رنگ چڑھ جاتاہے اور بڑھاپے میں تہذیب پر مادیت غالب آ جاتی ہے جو بالآخر کسی تہذیب کی موت کا باعث بنتی ہے، اس کے بعد تہذیب اپنی تاریخ سے محروم ہو جاتی ہے جس میں لوگ تو ہوتے ہیں لیکن تہذیب دم توڑ دیتی ہے۔

(جاری ہے)


قوموں کے عروج وزوال کے حوالے سے موٴرخین نے ہر دور میں اپنے اپنے انداز میں تاریخ کا تجزیہ کیا ہے ، ماضی قریب میں آرنلڈ ٹوائن بی اور شپنگلر اس حوالے سے کافی شہرت رکھتے ہیں اور ماضی بعید میں ابن خلدون نے اس حوالے سے کا فی کام کیا ہے ۔ٹوائن بی نے اپنی کتاب ”مطالعہ ء تاریخ “ میں26چھوٹی بڑی تہذیبوں کا مطالعہ کیا اور شپنگلر اور ابن خلدون کے نظریات سے اختلاف کرتے ہوئے تاریخ نویسی اور تاریخ کے تجزیے کے لیئے نئے اصول وضع کیے۔

وہ قوموں کے عروج وزوال کو ”چیلنج اور اس کا جواب “ کے اصول کے تحت پرکھتا ہے ،اس کا کہنا ہے جب تک کسی قوم میں ایسے ذہین ،قابل اور تخلیقی افراد موجود رہتے ہیں جو جدید دور کے چیلنجز کو قبول کر کے ان کا جواب دے سکیں تب تک وہ تہذیب زندہ رہتی ہے اور جب ایسے افرامعدوم ہو جائیں تو تہذیب دم توڑ دیتی ہے۔ ابن خلدون نے بھی تاریخ نویسی ،تاریخ فہمی اور تا ریخ کے تجزیئے کے لیئے خاص اصول وضع کیئے تھے اورانہی اصولوں پر چل کر اس نے قوموں کے عروج وزوال کا تجزیہ کیا تھا۔

اس وقت ہم اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں اور یہ صدی دو تہذیبوں کے درمیان تصادم اور کشمکش کی صدی ہے، آج یہ کشمکش اپنے عروج پر ہے اور بہر حال اس صدی میں کچھ نیا ہو نے والا ہے۔ ہر عروج کو زوال اور ہرزوال کو عرو ج ہوتا ہے، وقت کبھی ایک جیسا نہیں رہتا ، آج اگر مغربی تہذیب اپنے عروج پر ہے تو یہ عروج ہمیشہ نہیں رہے گا۔ کبھی ہم پر بھی عروج تھا اور ہم نے بھی دنیا کو لیڈ کیا تھا، آج اگر ساٹھ اسلامی ممالک کے طلباء مغرب کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے جاتے اور اس پر فخر کرتے ہیں تو ماضی میں سارا مغرب اور یورپ پڑھنے کے لیئے دمشق،بغداد، بلخ اور بخاراکی جامعات میں امڈ آتا تھا، آج اگر پچاس کروڑ مسلمان انگریزی زبان سیکھنے پر مجبور ہیں یا فخر کرتے ہیں تو ماضی میں اہل مغرب اس دور سے گزر چکے ہیں جب انہیں مسلم سائنسدانوں اور ماہرین کی کتابوں کو سمجھنے اور مسلم جامعات میں تعلیم حاصل کر نے کے لیئے عربی لازمی سیکھنے پڑتی تھی۔

آج اگر روسو، کارل مارکس، اینگلز،آئن سٹائن،نیوٹن،ایڈیسن ،نوم چومسکی اور ڈیل کارنیگی ہماری جامعات کے نصاب میں شامل اور پڑھے پڑھائے جاتے ہیں تویہ کو ئی اچھنبے کی بات نہیں کیوں کہ ہمارے آباوٴاجداد بو علی سینا، الکندی، ابوالقاسم زہراوی،البیرونی اور ابن الہیثم بھی سترھویں اور اٹھارھویں صدی تک مغرب اور یورپ کی یونیورسٹیوں میں پرھے اور پڑھائے جاتے رہے ہیں۔

اور سچ تو یہ ہے کہ جتنے بھی جدید علوم و فنون آج مغرب میں پڑھائے جا رہے ہیں ان کے موجد اور اصل وارث ہمارے ہی آباوٴاجداد تھے۔ اسے نیچر کا قانون کہیں یا ہماری اجتماعی غفلت کہ ہم اپنے آبا ء کے اس ورثے کو سنبھال نہ سکے اور ترقی کی گاڑی ہم سے دور ہوتی چلی گئی۔اب وقت آگیا ہے کہ ہم موٴرخین کے بنائے ہوئے اصولوں کے تحت عصر حاضر کی تہذیبوں کا مطالعہ اور تاریخ کا تجزیہ کریں،۔

میرے خیال میں اب ایسے موضوعات پر بات ہو نی چاہیئے اور ہمیں موجودہ تہذیبوں اور اقوام کی اصل بنیادوں،ان کے اساسی نظریات اوران کے نشیب وفراز کا علم ہونا چاہیئے۔ آج ہم مغربی تہذیب کے دفن ہونے کی باتیں تو کرتے ہیں لیکن شاید اب ہمیں باتوں کی بجائے ٹھوس بنیادوں پر حقائق کا ادراک کرنا چاہیئے۔
انیسویں اور بیسویں صدی مغربی تہذیب کے عروج کا زمانہ ہے ،ان دو صدیوں میں مغربی تہذیب نے ادب اور آرٹ کو تخلیق کیا، یہی وجہ ہے کہ ان دو صدیوں میں جتنا بھی ادب تخلیق ہوا اور کتابیں چھپی وہ سب کی سب مغربی مصنفین کی تھیں لیکن شاید اکیسویں صدی میں مغربی تہذیب وہ کچھ تخلیق نہیں کر پارہی جو اس نے مسلسل پچھلی دو صدیوں میں کیا تھااور شاید یہ مغربی تہذیب کی موت کی طرف پیش قدمی کی پہلی نشانی ہے ۔

عقلیت پرستی مغربی تہذیب کی تباہی کی دوسری نشانی ہے ، جب کو ئی تہذیب عقلیت پرستی کی پٹڑی پر چل پڑتی ہے تو اس میں اور موت میں بہت کم فاصلہ رہ جاتا ہے اور اس اصول کو جب ہم مغربی تہذیب او ر مغربی معاشروں پر اپلائی کر تے ہیں تو ہمیں ان معاشروں کی تباہی کچھ دور دکھائی نہیں دیتی۔ کسی بھی تہذیب کی بقا ئا ور دوام میں مذہب کا کردار بنیادی اور اساسی ہوتا ہے لیکن عقلیت پرستی اور مذہب کا آپس میں خدا واسطے کا بیر ہے ، مذہب میں عقلیت پرستی کی گنجائش نہیں اور جہاں عقلیت پرستی نے قدم جمائے وہاں مذہب دبے پاوٴں چپکے سے رخصت ہو جاتا ہے ۔

مشرقی تہذیب پسماندہ رہ جانے کے باوجود اس حوالے سے خوش قسمت ہے کہ اس میں ابھی تک مذہب کو عقلیت پرستی پر فوقیت حاصل ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مشرقی تہذیب آج بھی اپنی ٹھوس بنیادوں پر قائم ہے بخلاف مغربی تہذیب کے کہ اس کا شاخ نازک پے بنا آشیانہ کسی بھی وقت دھڑام سے گر سکتا ہے ۔ عقلیت پرستی میں ہوتا یہ ہے کہ جو بات اہل مغرب کی عقل کے ترازو پر پورا اترتی ہے اسے وہ من و عن قبول کر لیتے ہیں بصورت دیگر اسے یکسر مسترد کر دیا جاتا ہے ۔

وہ یہ نہیں جانتے کہ مذہب ، وحی اور علوم وحی کے سامنے انسانی عقل کی بساط ہی کیا ہے ، شا ید یہی وجہ ہے کہ عقلیت پرستی کی بد ہضمی کی وجہ سے مغربی معاشروں میں آئے روز انوکھے اور نرالے قوانین اور انہونی باتیں دیکھنے اور سننے کو ملتی ہیں ۔ کبھی ہم جنس پرستی کے قوانین کی منظور اورکبھی اولاد والدین کے جھگڑے، کبھی دیگر مذاہب اور ان کے انبیاء کی توہین اور کبھی اپنے مذہب سے نفرت اور اظہار بیزاری ۔


سائیکالوجی کا ایک اصول ہے کہ جو قومیں ، جو تہذیب اور جو افراد مقابلے کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں وہ آئندہ زمانے میں پہلے سے بڑھ کر محنت اور جدو جہد کرتے ہیں ، انہیں خود کو زندہ رکھنے اور آگے نکلنے والوں کو پیچھے چھوڑنے کے لیئے ذیادہ محنت کر نی پڑتی ہے اور لوگ ایسا کرتے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ آج مسلم معا شروں میں احیا ء اور نشاط ثانیہ کی تحریکیں بڑے زور و شور سے چل رہی ہیں ، گو فی الوقت انہیں بہت کم کامیابیاں ملی ہیں لیکن حالات بدلنے میں وقت لگتا ہے ۔ موضوع اہم بھی ہے اور تفصیل طلب بھی ،اس لیئے باقی پھر کسی نشست میں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :