مرتی کہانیاں

منگل 2 دسمبر 2014

Hussain Jan

حُسین جان

دادی اماں بولی کسی گاؤں میں ایک لکڑہارا رہا کرتا تھا جو کہ بہت غریب تھا دو وقت کی روٹی پوری کرنا مشکل تھا سارا سارا دن جنگل میں کام کرتا لکڑیاں کاٹتا مگر پھر بھی اتنے پیسے اکٹھے نہیں کرپاتا تھا کہ کے اپنا اور بیوی بچوں کا پیٹ پال سکے۔ وہ ہر وقت پریشان رہا کرتا تھا ، اُس کی بیوی بہت نیک دل عورت تھی وہ ہروقت عبادت میں مصروف رہتی اور اپنے خاوند کے کی ترقی کی دعا کیا کرتی ،اُس کے بچے بھی بہت شاکر تھے جتنا ملتا چپ کر کے کھالیتے تھے کبھی اپنے ماں باپ کو تنگ نہیں کیا کرتے تھے۔

مگر لکڑہارا ہمیشہ پریشان رہتا وہ دل ہی دل میں روتا رہتا کہ وہ اتنے پیسے بھی نہیں کما پاتا کہ اپنے بچوں کو پیٹ بھر کر کھانا کھلا سکے۔
وہ ہر وقت امیر بننے کے خواب دیکھتا لیکن اُن خوابوں کو عملی جامع پہنانے کے لیے اُس کے پاس وسائل نہیں تھے۔

(جاری ہے)

آخر ایک دن اُس نے سوچا کہ کیوں نہ شہر کی طرف رخ کیا جائے اور زیادہ محنت مزدوری کرکے بچوں کے اچھے مستقبل کے لیے کچھ جمع کیا جائے۔

لہذا ایک دن اُس نے اپنی بیوی سے کہا کہ وہ اُس کے لیے کچھ روٹیاں پکا دے وہ شہر جا رہا ہے جہاں وہ دن رات کام کرئے گا اور اُن کے لیے بہت سارے پیسے جمع کر کے لائے گا۔ پہلے تو اُس کی بیوی نے اُسے روکا کے ہمیں چھوڑ کر مت جاؤ لیکن پھر بچوں کے مستقبل کے بارئے میں سوچتے ہوئے بولی ٹھیک ہے ہمیں اپنی قسمت ضرور آمانی چاہیے کیونکہ سفر میں بھی برکت ہوتی ہے۔

اُس نے آٹھ روٹیاں پکا کر ایک کپڑئے میں لپیٹ دیں اور اپنے شوہر کے ہاتھ میں کچھ کپڑوں کے ساتھ تھما دیں۔ لکڑہارئے کا سفر شروع ہواراستہ دشوار تھا شہر تک پہنچے کے لیے اُسے کئی پہاڑ دریا اور جنگل عبور کرنے تھے۔ لیکن وہ پکا ارادہ کر چکا تھا کہ جب تک کامیاب نہیں ہو جاتا واپس گھر نہیں پلٹے گا۔ آدھے دن کے سفر کے بعد اُسے بھوک لگ گئی اس وقت وہ ایک گھنے جنگل سے گزر رہا تھا ۔

اُس نے سوچا کہیں پانی کا کنواں دیکھتا ہوں وہاں بیٹھ کر روٹی کھاں لوں گا اور پانی بھی مل جائے گا۔ تھوڑا آگے جانے کے بعد اُسے ایک کنواں نظر آیا اُس نے جھانک کر دیکھا اُس میں پانی بھی موجود تھا لہذا اُس نے فیصلہ کیا کہ وہ یہیں بیٹھ کر روٹی کھا لیتا ہے۔ لمبے سفر اور مسلسل خاموشی سے وہ کچھ تھک گیا تھا تو اُس نے ساتھ ساتھ بولنا شروع بھی کردیا روٹیاں نکال کر بولا پہلے کس کو کھاؤں سب سے اوپر والی کو یا سب سے نیچے والی کویا پھر آٹھ کی آٹھ ہی اکٹھی کھا لوں ۔

ابھی وہ یہ بول ہی رہا تھا کہ کنوئیں سے آواز آئی ہمیں مت کھانا لکڑہارا بہت پریشان ہوا کہ یہ آواز کہاں سے آئی وہ ڈر بھی گیا تھا لیکن کچھ دیر بعد اپنا وہم سمجھ کر پھر روٹیوں کی طرف متوجہ ہوا اور وہی الفاظ دہرائے کہ پہلے کس کو کھاؤں ابھی اُس نے اپنی بات مکمل بھی نہیں کی تھی کے ایک پری کنوئیں میں سے باہر آئی اور اُسے کہا کے اے نیک دل انسان ہم کنوئیں میں آٹھ بہنیں رہتی ہیں تم ہمیں کیوں کھانا چاہتے ہوں ہم نے تمارا کیا بگاڑا ہے اگر تم ہمیں نہ کھاؤ تو ہم تمیں بہت سے جوہرات دیں گئیں۔

پہلے تو لکڑہارا بہت ڈرا پھر کچھ ہمت کر کے بولا ٹھیک ہے مجھے جوہرات دے دو میں تمھیں نہیں کھاؤں گا۔ پری فورا کنوئیں میں واپس گئی اور اپنے ساتھ ڈھیر سارے ہیرئے جوہرات لے آئی لکڑہارئے کی آنکھوں میں ایک دم چمک سی آگئی۔ اُس نے وہ تمام جوہرات اپنی کپڑئے میں ڈالے اور گھر کی جانب گامزن ہو گیا ۔ تمام جوہرات بیج کر وہ بہت امیر ہو گیا تھا اب اُس کے بچے اور بیوی بھی بہت خوش تھے کہ اُن کے پاس ایک اچھی زندگی موجود ہے۔

اُن کی ہر خوائش پوری ہو جاتی ہے۔ پورا خاندان خوشی سے سرشار تھا ور انہوں نے ہنسی خوشی زندگی گزارنا شروع کر دی۔
اور پھر ماما بولی چپ کر کے سو جاؤ مجھے کوئی کہانی وہانی نہیں آتی تو منے میاں نے ضد کی کہ نہیں ماما مجھے کہانی سنائے تو ماما بولی ٹھیک ہے ایک دفعہ کا زکر ہے ہمارے پڑوس میں ایک عورت رہتی تھی جواپنے بیٹے سے بہت تنگ تھی جو ہروقت موبائل فون کے ساتھ لگا رہتا اور ہر وقت کسی نہ کسی وائی فائی کے پاس ورڈ کو ھاصل کرنے کی کوشش کرتا۔

پڑھائی میں اُس کا دل بالکل نہیں لگتا تھا لہذا وہ بری طرح فیل ہو گیا اور اُس کے پاپا نے اُسے ایک دُکان پر ڈال دیا اور آج تک وہ ایک مکینک کی زندگی جی رہا ہے۔ کہانی ختم اور اب چپ کر کے سو جاؤ ورنہ جوتوں سے برا حال کر دوں گی۔ ابھی تماری آنٹی whatts appپر آن لائن ہونے والی ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ مائیں اور دادیاں اپنے اپنے بچوں کو سونے سے پہلے لوک کہانیا ں سنایا کرتی تھیں جو آج بھی بہت سے لوگوں کو یاد ہیں۔

ان کہانیوں کے زریعے بچوں کو کوئی نہ کوئی سبق دیا جاتا تھا جو اُن کی آنے والی زندگی میں کارآمد ہوتا۔آج بھی کسی بڑئے آدمی کی آب بیتی پڑھیں تو اُس میں ان کہانیوں کا زکر ضرور ہوتا ہے ۔ مگر موجودہ دور میں زندگی اتنی تیز ہو چکی ہے کہ کسی کے پاس کہانیاں سننے اور سنانے کا وقت نہیں بچا اب تو بچوں کے سکول بیگ ہی اتنے وزنی ہوتے ہیں کہ بیچارئے خود ہی جلدی سونے کے چکر میں کہانی کی ضد ہی نہیں کرتے دوسرا آج کل کی خواتین کو کہانیا ں آتی بھی نہیں۔

اُوپر دی گئی دو کہانیاں واضع طور پر فرق بتا رہی ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ بہت کچھ بدل گیا ہے۔ ویسے بھی کہانیاں پرانی روایت ہوچکی ہے اور بہت سی پرانی رویات کی طرح کہانیوں کی روایات بھی دم توڑ چکی ہے۔ موبائل ،انٹرنیٹ اور کیبل جیسی چیزوں نے رہنے کے ڈھنگ بدل دیے ہیں۔
چند سال پہلے تک ماؤں اور بچوں کے پاس ساتھ گزارنے کے لیے بہت سا وقت ہوتا تھا جس سے بچوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی مل جاتی تھی۔

مگر اب تو یہ ہوتا ہے کہ بچا ابھی سکول سے آیا ،تو قاری صاحب آگئے قاری صاحب گئے تو ٹیوشن کا وقت ہو گیا۔ وہاں سے واپس آئے تو ٹی وی کے سامنے بیٹھ گئے اور اسی طرح دن ختم ہوجاتا ۔ ماں اور بچے میں وہ ہم آہنگی دیکھنے میں نہیں آتی جو کبھی ہماری میراج ہوا کرتی تھی۔ بچوں کو تعلیم تو بہت اچھی دی جارہی ہے مگر تربیت کی طرف کچھ خاص توجہ نہیں دی جاتی۔

جس کی سب سے بڑی وجہ خود کو بچوں سے دور کرنا ہے۔ سب کی اپنی اپنی مصروفیات ہے ویسے بھی آج کی خاتون خانہ زیادہ سر درد لینے کے حق میں نہیں لہذا بچوں کو دوسرے لوگوں کے حوالے کر کے سمجھا جاتا ہے کہ اپنی زمہ داری پوری ہو چکی ہے۔ جو کہ بچے کے ساتھ سرا سر ناانصافی ہے۔ ہمیں اپنے رویوں میں تبدیلی لانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ایک صحت مند معاشرہ پروان چڑھ سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :