تعلیم،صحت کی ابتر صورت حال اور میڈیا کا کردار؟

اتوار 30 نومبر 2014

Dr Awais Farooqi

ڈاکٹر اویس فاروقی

ہماراکون سا ایسا سرکاری محکمہ ہے جس پر ہم فخر کر سکیں جدھر دیکھیں انحطاط،انتشار اور افراتفری نظرآتی ہے پاکستان کے بہترین دماغ یہاں سے کوچ کرتے جارہے ہیں جبکہ سرمایہ کاربنگلہ دیش میں اپنے سرمائے اور کاروبار کو محفوظ سمجھتے ہیں جبکہ ہماری سیاسی اشرافیہ کے نزدیک اس طرح کی صورت حال کو ٹھیک کرنا ان کی ترجیح ہی نہیں ہے ورنہ باہمی اختلافات مٹا کر سب سر جوڑ کر بیٹھتے اور ملک کو درپیش بحرانوں سے کیسے نکالا جائے نہ صرف اس پر سوچتے بلکہ عملا ً کوششیں کرتے دوسری جانب کسی بھی ملک کا میڈیا شعور اورآگاہی پھیلانے کے ساتھ ملکی عوا م کے مسائل کو ہائی لائٹ کرنے کا سب سے موثر زریعہ ہوتا ہے جبکہ ہمارے ہاں پرنٹ اور الیکٹرونکس میڈیا میں عوام کے ان مسائل کا تذکرہ کم ہی دیکھنے کو ملتا جنہوں نے ان کی زندگیوں کو ابتر بنائے رکھا ہے صحت اور تعلیم کے بارئے اور ،بچوں کے پروگرام چوبیس گھنٹوں کی نشریات میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے جبکہ چینلز کی بھر مار نے لوگوں کی پگڑیاں اچھالنا ایک آسان کام بنا لیا ہے جس کا دل چاہتا ہے کسی بھی شریف انسان کی شرافت کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی جاتی ہیں حقیقی معنوں میں عوام کی خدمت کرنے والے اداروں ،پیشہ وار افراد جن میں ڈاکٹر ،تعلیم سے وابستہ افراد اور اداروں کے خلاف من گھڑت خبریں بنا تحقیق اور ثبوت کے چلا دی جاتی ہیں جس سے ایک طرف ان کی ساکھ متاثر ہوتی ہے اور ان کا نقصان ہوتا ہے تو دوسری طرف بیرون ممالک سے پاکستان آکر کام کرنے والے ہائی کوالی فائیڈ اور پیشہ ور افراد ،ادارے اور سرمایہ کاری کرنے والوں میں نمایاں کمی ہوتی جارہی ہے اور جو یہاں ہے وہ یہاں سے بھاگنے کی تیاری میں ہیں ۔

(جاری ہے)

کیا حکومت اورمیڈیاہاوسز کے ذمہ دارن چند لمحے تنہائی میں بیٹھ کر سوچنیکے روادار ہیں کہ وہ اس ملک کے ساتھ کیا کر رہے ہیں اور کیا کرنا چاہتے ہیں ؟
جتنا وقت ٹاک شو میں لایعنی گفتگو میں صرف کیا جاتا ہے اس کا دس فیصد بھی تعلیم اور صحت کے مسائل کو اجاگر کرنے کے لئے صرف کیا جاتا تو یہاں سے جہالت کا خاتمہ ممکن ہو سکتا تھا صفائی کی اہمیت ، بچوں اور خواتین کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک پر آواز اٹھانا اور ان کی داد رسی کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟ْ،دنیا ہمارے مسائل بارئے پریشان ہے اور ہمارے مسائل کو کم کرنے کے لئے ہر طرح سے مدد بھی کر رہی ہے مگر ہمیں خود اس بات کا شائد احساس ہی نہیں، چند جنونی کوئی چھوٹا سا بھی جلسہ یا جلوس نکالتے ہیں انہیں میڈیا بہت ہائی لائٹ کرتا ہے جب کہ انسانی مسائل کے خاتمے ان کے حقوق کی آواز بلند کرنے والی تنظیمیں ادارئے یا افراد یہاں تک کے سرکاری اداروں کے بڑئے سے بڑئے سیمنار اور کانفرنسوں کی ایک چھوٹی سی خبر بھی شائع نہیں ہوتی اور اگر ہوتی ہے تو اندرونی صفحات پر ایک یا دو کالمی ،جس کی شکائت اب حکومتی اکابرین بھی میڈیا کے کرتا دھرتوں سے کرتے نظر آتے ہیں۔

گذشتہ دنوں ،بچوں کا عالمی دن، خواتین پر تشدد کا دن اور اسی نوعیت کے دیگر عالمی دن منائے گئے ان دنوں کی مناسبت سے ہونے والے پروگراموں میں ہونے والی بحث و تجاویز میڈیا کی کثیر تعداد میں شرکت کرنے کے باوجود خبروں میں جگہ نہ پاسکی اس کی وجوہات کیا ہیں اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے جبکہ انہیں پروگراموں اور سیمنار میں پاکستانی عوام کے دکھوں ،بچوں اور خواتین کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم کے ساتھ صحت اور تعلیم کی ابتر صورت حال کا ذکر سننے کو ملتا ہے، بتایا اور کہا تو جاتا ہے کہ کسی بھی ملک کی ترقی کا راز اس کے بہترین تعلیمی نظام کا مرہون منت ہوتا ہے اور صحت کی جملہ سہولتوں کے بغیر افراد معاشرہ سے کسی اچھی کارکردگی کا تصور نہیں کیا جاسکتا اور جب اعداد و شمار کے زریعے یہ بتایا جاتا ہے کہ نومولود بچوں کی اموات میں پاکستان پوری دنیا میں سرِ فہرست ہے اور پاکستان میں ایک ہزار بچوں میں سے 59 بچے یا تو مردہ پیدا ہوتے ہیں یا وہ پیدا ہونے کے کچھ دیربعد مر جاتے ہیں۔

اور زچہ و بچہ کے حوالے سے بھی پاکستان دنیا کا خطرناک ترین ملک ہے۔ پاکستان میں ہر سال 2 لاکھ سے زائد بچے مر جاتے جاتے ہیں۔افریقہ کا پسماندہ ملک نائیجیریا بھی پاکستان سے بہتر ہے تو اسے پاکستان کے خلاف سازش کہہ کر مسترد کر دیا جاتا ہے۔ کیا سالانہ دو لاکھ بچوں کی یہ اموات قتل ہیں یا نہیں اور ہیں تو قاتل کون ہے؟ ہماری ناکامی اور نااہلی کی انتہا تو یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو پولیو سے بچانے میں بھی ناکام ہو چکے ہیں۔

پاکستان بچوں کے حوالے سے دنیا کا بدترین ملک بن چکا ہے اور حالت یہ ہے کہ یونیسیف کے مطابق پاکستان میں نو کروڑ بچوں کے لیے صرف پانچ ہزار ماہر اطفال ڈاکٹر موجود ہیں۔
اسپتالوں میں بچوں کے لیے صحت کی سہولتوں کا یہ حال ہے گزشتہ ایک دو ہفتوں میں سرگودھا بہالپور اور دیگر کئی شہروں کے سرکاری ہسپتالوں میں درجنوں بچے مناسب طبی سہولیات نہ ملنے کی بنا پر ہلاک ہو گئے تعلیم کے حوالے سے یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں ڈھائی کروڑ بچے تعلیم کے حق سے محروم ہیں جن میں 50 فیصد سے زیادہ بچوں کا تعلق پنجاب سے ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پانچ سے سولہ سال کی عمر کے بچوں میں سے صرف دو کروڑ ستر لاکھ بچے اسکول جا رہے ہیں پاکستان میں حکومت کی طرف سے تعلیم کے شعبے میں ” ہنگامی حالت” کے نفاذ کے باوجود صورتحال بدستور خراب ہوتی نظر آ رہی ہے۔اس بارے میں حال ہی میں جاری کی گئی ایک اور سروے رپورٹ کے مطابق ملک میں ایسے طلباء کی تعداد 75 فیصد تک پہنچ گئی ہے، جو دسویں جماعت میں پہنچنے سے پہلے ہی سکول چھوڑ جاتے ہیں۔

سروے رپورٹ کے مطابق تیسری جماعت میں زیر تعلیم اکیاسی فیصد بچے دوسری جماعت کی انگریزی کتاب کے جملے پڑھ نہیں سکتے۔ اسی طرح ریاضی کے سوالات حل نہ کر سکنے والے طلباء کی تعداد بھی خاصی زیادہ ہے۔ جبکہ ہمارے حاکم یہ کہتے نہیں تھکتے کہ ہم کشکول توڑ دیں گے مگر یہ نہیں بتاتے کہ کیسے ؟ دنیا می آبروا مندانہ زندگی وہی قومیں گزارتی ہیں جن کی خود داری بڑھکوں کی مرہون منت نہیں ہوتی بلکہ وہ عمل کے زریعے ثابت کرتی ہیں کہ ہم ایک باوقار اور خود دار قوم ہیں اس کے لئے اپنی غلطیوں کی اصلاح کرنے کے ساتھ عوام کے معیار زندگی کو بہتر بنانے پر کام کیا جاتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :