مک کا اور چک چکا

اتوار 30 نومبر 2014

Nadeem Tabani

ندیم تابانی

ڈاکٹروں نے ڈاکٹر صاحب کو ایک ہفتہ مکمل آرام کا مشورہ دیا ہے ، اس کا مطلب یہ ہوا کہ طاہرالقادری تحریک انصاف کی آن لائن خواہش کے مطابق 30نومبر کے جلسے میں خطاب کا جادو نہیں جگا سکیں گے ، بعض با خبر لوگوں کا کہنا ہے بیماری ایک بہانہ ہے ڈاکٹر صاحب جانا ہی نہیں چاہ رہے، کیوں کہ حکومت اور ان کے بیچ مک مکا بھی ہو چکا اور چک چکا بھی ۔البتہ دونوں کے بیچ طے شدہ جنگ جاری رہے گی ۔

چودھری برادران کا کہنا ہے کہ ا نہیں با ضابطہ دعوت نہیں ملی البتہ ٹی وی پر اپیل کی صورت میں دعوت ملی ہے ،لیکن ظاہر ہے چودھری برادران ”دھار“ دیکھے بغیر آگے نہیں بڑھیں گے، تحریک انصاف نے تومتحدہ قومی مومنٹ کو دعوت نہیں دی البتہ شیخ رشید احمد نے بطور قائم مقام عمران خان دعوت ضرور دی ہے لیکن حالات و واقعات کہہ رہے ہیں کہ متحدہ جلسے میں شرکت کا موڈ تو نہیں رکھتی، البتہ حکومت میں شرکت کا زبردست اور آئیڈیل موڈ رکھتی ہے، بس میاں صاحب مان جائیں ۔

(جاری ہے)

خان صاحب اور شیخ رشید احمد سمیت تحریک انصاف اور پاکستان عوامی لیگ کی دیرینہ خواہش ہے کہ جماعت اسلامی کی قیادت اور کارکن 30نومبر کے جلسے کی رونق بڑھائیں ،لیکن جماعت اسلامی کسی نئے پھڈے میں پڑنانہیں چاہتی ،وہ پشاور یعنی صوبے کی حکومت کے علاوہ کسی اور جگہ تحریک انصاف کی دعوت سے انصاف نہیں کر سکے گی۔
####
میاں صاحب نے سارک کانفرنس کے موقع پر انڈین ہم منصب کو ٹھینگا دکھا دیا ، کہنے کو تو مسٹر موڈی نے بھی ٹھینگا دکھا یا ہے لیکن دنیا جانتی ہے کہ ان کا ٹھینگا ایک تو جوابی تھا ،دوسرا تھا بھی چھوٹا سا، اتنے چھوٹے ٹھینگے نے بھلا میاں صاحب کا کیا بگاڑنا، وہ تو اس سے بڑے بڑے ٹھینگے جھیل چکے ہیں،بلکہ مسلسل جھیل ہی رہے ہیں،کہا جا رہا ہے انڈین حکومت کھسیانی بلی بنی ہوئی ہے اور چاہتی ہے ہر کھمبا نوچ ڈال ڈالے، یقینا میاں صاحب کو کھمبا نوچنے پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔


####
پرویز مشرف کے خیال میں ان کے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے، وہ بدلہ لیا جا رہا ہے۔ ہوں ں ں جناب ! آپ کہتے ہیں تو ٹھیک ہی کہتے ہوں گے، اس کا مطلب ہے آپ نے کچھ کیا تھا تو ہی بدلہ لیا جا رہا ہے نا ! ورنہ آپ ظلم کہتے ،زیادتی کہتے ، بدلہ کہنا بتا رہا ہے کہ آپ کے ساتھ جو گڑ بڑ ہو رہی ہے وہ آپ کی اپنی کرنی ہے ، اورآپ نے کسی ایک کے ساتھ نہیں بہتوں کے ساتھ بہت کچھ کر رکھاہے ، سب باری باری بدلہ لیں تو آپ کا کچومر نکل جائے گا ، بلکہ سرمہ کہیں اور یہ سرمہ ظالموں کی آنکھوں میں ڈالا جائے تو ان کی آنکھیں مرنے سے پہلے ہی کھل جائیں اور ظلم سے تو بہ کر لیں۔

دل تو آپ کا گواہی دے رہا ہے آپ کے ساتھ زیادتی نہیں ہو رہی کرنی کو بھر رہے ہیں، لیکن گردن آپ کی آج بھی اکڑی اور تنی ہوئی ہے، خیر یہ بھی پہلی بار نہیں ہو رہا ،ہوتا آیا ہے، ظالم توبہ نہیں کیا کرتے ، غلطی نہیں مانا کرتے۔
####
وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کا کہنا ہے ”عمران خان خود کو فرشتہ سمجھتے ہیں“ ۔جناب ! سمجھنے کو تو کوئی بھی کم نہیں ،سب ایک دوسرے سے بڑھ کر ہیں، آپ کے میاں صاحبان ہوں یا پرویز مشرف، الطاف بھائی ہوں یا جناب زرداری۔

بس ذرا انداز بیاں اپنا اپنا ہے، ویسے جس طرف آپ کا اشارہ ہے عمران خان اس معنی میں شاید خود کو فرشتہ سمجھتے ہوں یا نہ لیکن وہ خود کو حساب کتاب لینا والا فرشتہ ضرور سمجھتے ہیں، بلکہ شاید موت کا فرشتہ بھی ، لیکن یہ بڑا خاص فرشتہ ہے صرف میاں صاحب کے لیے خصوصی طور پر مقرر ہے ۔زرداری صاحب کو یوں ہی ذرا منہ چڑانے ، دل لبھانے کے لیے خان صاحب گھسیٹ لیتے ہیں، اصل نشانہ تو میاں صاحب ہی ہیں ،یہ میاں صاحب کے لیے بھی اعزاز ہے اور فرشتے یعنی عمران خان کے لیے بھی اعزاز ہی ہے البتہ آپ کے لیے زیادہ خوشی کی بات یہ ہے کہ آپ کے میاں صاحب دیکھنے میں کافی پولے پولے لگتے ہیں لیکن ہیں بڑے سخت جان ، کتنے جرنیلوں اور ججوں کو بھگت چکے ، ابھی بھی تازہ دم ہیں۔


####
الطاف بھائی نے ایک بار پھر آرمی چیف سے مدد مانگی ہے، اس بار فرمائش بہ انداز دگر ہے ، یعنی اب صوبے بنانے میں آرمی چیف الطاف بھائی کا ہاتھ بٹائیں بھئی سیدھا سیدھا کہہ دیجیے ”آرمی چیف صاحب ! صوبے بنا کے دیں“ ا لطاف بھائی کا خیال ہے ان کی پارٹی کے صوبے کا وزیر اعلی اندھا ،گونگا اور بہرا ہے (خدا نہ کرے)اوروزیر اعظم تک آواز نہیں پہنچتی، آرمی چیف کے کان یقینا زیادہ حساس ہیں اس لیے ان کو پکارا گیا ہے ،آواز تو انہوں نے سن ہی لی ہو گی۔دیکھیے صوبے کب اور کیسے بنتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :