مولانا ڈاکٹر خالد محمود سومرو کی شہادت… ایک قومی سانحہ

اتوار 30 نومبر 2014

Molana Shafi Chitrali

مولانا شفیع چترالی

سندھ کے معروف عالم دین، نامور خطیب، سیاستدان اور جمعیت علماء اسلام سندھ کے ناظم عمومی سابق سینیٹرمولانا ڈاکٹر خالد محمود سومرو ہفتے کی صبح سکھر میں نماز فجر کے بعد ایک قاتلانہ حملے میں شہید ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اس طرح اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جرم بے گناہی کی سزا میں مارے جانے والے علماء کرام کی فہرست میں ایک اور بڑے نام کا اضافہ ہوگیا اور امن وآشتی کی دھرتی سندھ ایک اور بڑے عالم دین کے خون سے رنگین کردی گئی۔

مولانا ڈاکٹر خالد محمود سومرو کے قتل کے اصل محرکات کیا تھے؟ اس بارے میں حتمی رائے تو ٹھوس شواہد کی بنیاد پر جامع تحقیقات کے بعد بھی قائم کی جاسکتی ہے تاہم سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ یہ سانحہ وطن عزیز پاکستان میں حق گو علماء کی آواز کو خاموش کرنے کی دیرینہ سازشوں کی ایک نئی کڑی ہے اور یہ امر بھی بعید نہیں کہ اس سازش کا مقصد ملک میں انتشار وخلفشار کو ہوا دینا ہو۔

(جاری ہے)

اس سے چند روز قبل کوئٹہ میں جمعیت علماء اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمن پر پُراسرارقاتلانہ حملہ ہوا جس کے بارے میں ریاستی ادارے قوم کے سامنے حقائق پیش کرنے سے تاحال قاصر ہیں۔ کیا ڈاکٹر خالد محمود سومرو پر حملہ مولانا فضل الرحمن پر کیے گئے حملوں کا تسلسل ہے اور کیا ان حملوں کا محرک اور منصوبہ ساز دماغ ایک ہی ہے؟ یہ سوال بہت اہم ہے۔


مولانا ڈاکٹر خالد محمود سومرو کا شمار ان علماء میں ہوتا تھا جو عوامی حلقوں میں زبردست اثر ورسوخ، مقبولیت اور محبوبیت رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر خالد محمود سومرو متعدد بار سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے مقابلے میں انتخابات میں کھڑے ہوئے اور تمام تر ترغیبی وترہیبی اقدامات کے باوجود میدان خالی چھوڑنے سے انکار کیا۔ ڈاکٹر خالد محمود سومرو نے سندھ میں وڈیرہ شاہی نظام کے خلاف حقیقی معنوں میں جدوجہد کی اور سندھ کے مخصوص حالات اور ماحول کے اندر فرسودہ رسوم ونظریات کے مقابلے میں اسلام کی حقیقی تعلیمات کو اجاگر کرنے میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔

مولانا ڈاکٹر خالد سومرو محض ایک سیاست دان ہی نہیں بلکہ بہترین خطیب، مدرس اور مذہبی رہنما بھی تھے۔ ان کی خطابت کا چرچا ملک بھر میں ہی نہیں بیرون ملک بھی تھا اور بین الاقوامی سطح کے اجتماعات اور کانفرنسوں میں انہیں مہمان مقرر کے طورپر مدعو کیا جاتا تھا۔ مولانا ڈاکٹر خالد محمود سومرو کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ بیک وقت ایک عالم دین اور ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر بھی تھے۔

انہوں نے طالب علمی کے دور میں جمعیت طلبہ اسلام کے پلیٹ فارم سے طلبہ سیاست میں حصہ لیا اور بعد ازاں جمعیت علماء اسلام سے وابستہ ہوگئے اور تادم آخر اس وابستگی پر قائم رہے۔ وہ سندھ میں جمعیت علماء اسلام کی پہچان سمجھے جاتے تھے۔ ان کی شہادت سے سندھ میں حق وصداقت کی ایک دبنگ آواز خاموش ہوگئی اور شاید یہی ان کے قتل کے منصوبہ سازوں کا مقصد تھا۔


مولانا ڈاکٹر خالد محمود سومرو کا قتل یقینا ایک بڑا قومی وملی سانحہ ہے اور اس سانحے پر جتنا بھی افسوس اور احتجاج کیا جائے کم ہے، تاہم ہمارے حکمرانوں ریاستی اداروں، عوام اور دینی طبقوں کو اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرناہوگا اور ملک میں انتشار وخلفشار پھیلانے اور اس کی آڑ میں دینی قوتوں کو کچلنے کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

اس حوالے سے سب سے زیادہ ذمہ داری حکومت اور ریاستی اداروں پر عاید ہوتی ہے کہ وہ وطن عزیز پاکستان میں علماء حق کے قتل کے مذموم سلسلے کو روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں۔ پاکستان میں علماء کرام کو طویل عرصے سے ہر جگہ نشانہ بنایا جارہا ہے اور مقام حیرت ہے کہ حکومت اور ریاستی اداروں نے کسی ایک بڑے عالم کے قاتلوں کو بھی قرار واقعی سزا نہیں دی۔

اس بناء پر دینی حلقے محسوس کرتے ہیں کہ اس ملک میں سب سے سستا علماء اور دینی شخصیات کا خون ہے۔ یہ احساس اب بڑھ کر غم وغصے کے ایک لاوے کی شکل اختیار کررہا ہے جو کسی بھی وقت بہہ نکل سکتا ہے۔ اس لیے یہ ارباب اختیار کا فرض ہے کہ وہ ملک میں علماء اور دینی شخصیات کو تحفظ فراہم کرنے کے حوالے سے اپنی پالیسی واضح کردیں اور قوم کو بتایا جائے کہ اب تک شہید کیے گئے علماء کرام میں سے کتنوں کے قاتل گرفتار کیے گئے؟ اگر کوئی بیرونی ہاتھ یہاں مذہبی یا فرقہ وارانہ بنیاد پر انتشار وخلفشار پھیلانا چاہتا ہے تو اسے بے نقاب کرنا بھی ریاست اور ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے۔


یہاں خود دینی قوتوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک وقوم کے خلاف اندرونی وبیرونی سازشوں کا صحیح پیمانے پر ادراک کریں ، ان کے مقابلے کے لیے متحد ہوکر جدوجہد کریں اور پاکستان کے اسلامی تشخص کے تحفظ، علماء اور دینی شخصیات کے قتل کے مذموم تسلسل کو روکنے کے لیے کسی ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوجائیں۔ اس سلسلے میں حالیہ دنوں سرکردہ دینی جماعتوں کی ایک سپریم کونسل تشکیل پاچکی ہے جس سے ملک کے محب وطن دینی حلقوں کو بڑی توقعات ہیں۔

ڈاکٹر خالد محمود سومرو کی شہادت کے بعد کی صورت حال اس دینی اتحاد کی پہلی آزمائش ہوگی۔ جمعیت علماء اسلام نے آج ملک بھر میں پر امن احتجاج کی کال دی ہے اور متعدد اہم دینی جماعتوں نے اس احتجاج کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ دینی جماعتوں کو آج ملک بھر میں منظم، پر امن مگر بھر پور احتجاج کرکے اسلام دشمن قوتوں کو ایک واضح پیغام دے دینا چاہیے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :