گو نواز گو

جمعہ 28 نومبر 2014

Rauf Uppal

رؤ ف اُپل

میاں محمد نواز شریف صاحب تیسری مرتبہ منتخب ہو نے وا لے پہلے پاکستانی وزیرِآعظم ۔ ۔کیا میاں صاحب نے 18 ماہ میں اپنا مقا م اور مینڈیٹ کھویا۔۔؟ کیا وہ ایک بار پھر ڈیلیور نہیں کرپائے ۔۔؟ کیا میاں صاحبان کی ترجیحات صرف پیسہ ہے۔۔؟ یا یہ سب دھرنے والوں کی سازش ہے کہ 18ماہ بعد ہی ہر طرف ہورہا ہے ۔ ۔ ۔ گو نواز گو۔
ہماری عوام بھی بہت انوکھی ہے ووٹ دیتی ہے اور کندھوں پر بھی اٹھاتی ہے ۔

۔ ۔ ۔مگرعام شہری کو اگر کبھی کسی کام کے لیے کسی تھانہ کچہری یا کسی سرکاری دفتر میں جانا پڑجائے تو پھر اسے اپنی اوقات کا اندازہ بخوبی ہوجاتا ہے ، پھر وہ تمام لیڈران کو اور خاص کر اس پارٹی اور اس پارٹی کے لیڈر کو جس کو اس نے ووٹ کاسٹ کیا ہوتا ہے وہ کلام بخشتاہے۔ ۔توبہ توبہ۔

(جاری ہے)

۔ چاہے اس کا کام ہو یا ناں ہو مگر اس کے دل کی بھڑاس ضرور کم ہوجاتی ہے۔


میاں صاحب اینڈ کمپنی اشیائے خوردونوش کی طرف خاص توجہ نہیں دینا چاہتی ۔ ۔ ابھی تک اشیائے خوردونوش کی کوئی سکیم یا پالیسی اٹھارہ ماہ گزرنے کے باوجود عمل میں نہیں لائی جا سکی۔ نون لیگ والے روٹی کپڑا اورمکان کی پالیسی کے خلاف عمل پیرا ہیں ۔ ۔ ۔ ۔کچھ عرصہ پہلے نندی پور پاور پراجیکٹ کے فیز ون کو مکمل کیا گیا ہے ۔ ۔ 45 روپے فی یونٹ 95.MW بجلی پہ فخر کرنے والے یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ پاکستان میں بجلی تو اہم ہے مگر اتنی مہنگی بجلی عوام وملک کے لئے قابل قبول نہیں ہو سکتی۔

۔ اس کا ڈائریکٹ یا ان ڈائریکٹ بوجھ عوام پر ہی پڑنے والا ہے۔ ۔ ۔ ۔گیس کی لوڈشیڈنگ کبھی سردی کے موسم میں ہوا کرتی تھی ، آج حکومتی کرم سے گرمیوں میں گیس کی بندش جاری رہتی ہے ۔ عوامی چولہے بج چکے ہیں، حکومت ایوانوں سے نکل کر پبلک میں نکلیں تو ان کو عوامی مشکلات کا اندازہ ہو۔ ۔حالیہ انرجی کے کچھ میگا منصوبہ جات میاں برادران نے چا ئنہ کے ساتھ کئے ان میں پاکستان اور پاکستانی عوام کو کیا ملتاہے ۔

۔؟۔ ۔ اللہ خیر کرے ۔
ہر خاص و عام یہ بات جانتاہے کہ کئی قسم کا نظام تعلیم پاکستان میں امیر اور غریب کے درمیان فاصلے اور نفرتیں پیداکررہا ہے۔ ۔ مڈل کلاس طبقہ اس نظام میں کبھی اوپر نہیں آسکتا۔ ۔اس ملک میں سب سے زیادہ ضرورت یکسان نظام تعلیم کی ہے ۔ ۔ سرکاری سکولوں اور پرائیویٹ اداروں میں کورس (نصاب) ایک ہی ہونا چاہیے۔ ۔ دوسری زبان میں ٹاٹ پر بیٹھ کر پڑھنے والا اور اے سی کمروں میں بیٹھ کر پڑھنے والے کا نصابِ تعلیم ایک ہو۔

۔ ایک سٹینڈرڈ متفقہ اسلامی نظامِ تعلیم اس ملک کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے تھی مگر بد قسمتی سے اس طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی جارہی۔ ۔۔ ۔ سرکاری ہسپتالوں کی حالت اور انتظامات شرمنات حد تک خراب ہیں، ہمارے لیڈران کبھی ان سرکاری ہسپتالوں میں وزٹ کرکے تو دیکھیں۔ ۔ شہباز شریف صاحب کبھی کبھی لاہور میں ان ہسپتالوں کا وزٹ کیا کرتے تھے جس کی بدولت لاہور کے ان ہسپتالوں کا نچلا طبقہ دھیان سے ڈیوٹی دینے لگ گیا۔

۔ مگر شہباز شریف صاحب کو خود کبھی ان ہسپتالوں میں علاج کروانے کی جرات نہیں ہوئی ہو گی اس لئے کہ ان کو ان ہسپتالوں کا سٹینڈرڈ اچھی طرح سمجھ ہے۔ ۔میا ں صاحب ان ہسپتالوں کا معیار ان ہسپتالوں کے نزدیک ہونا چاہیے جہاں سے آپ علاج کرواتے ہیں کیونکہ پیسہ اب ہماری حکومت کے پا س بہت ہے۔ ۔ آپ کی تمام تر توجہ سڑکوں اور پل بنانے پر مرکوز ہے ، کہیں ایسا ناں ہوکہ آپ کی میٹرو بس یا کشادہ روڈز کی سہولت سے مریض تو ٹائم پر ہسپتال پہنچ جائے مگر ہسپتال میں انجکشن ناں ملنے یا ڈاکٹر کا ڈیوٹی پر ناں ہونے کی وجہ سے کچھ فائدہ نا ں ہو۔

۔ ۔ ۔مرکزی حکومت کی قرضہ سکیم ماضی کی طرح کامیاب نہیں ہوسکی۔ ۔ ویسے نوجوانوں کو مقروض کرنے کی اس سکیم سے بہتر ہے کہ آپ یہاں انڈسٹری زون بنانے کو ترجیح دیں تاکہ نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع پیداہوں۔ ۔ بہتر ہے کہ آپ کے بچے جو باہر کے ممالک میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں یہاں بھی سرمایہ کاری کریں تاکہ ملکی تعمیرو ترقی میں آپ کا بھی حصہ ہو۔


طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے ہیں یا فوجی آپریشن حکومت خود ابہام کا شکار رہی ہے۔ ۔آپریشن ضرب عضب کی کامیابی اسی فوج کی بدولت ہے جس کو ہمیشہ حکومت آڑے ہاتھوں لیتی رہی ہے ۔۔ ۔۔ باقی دہشت گردی کا خطرہ بھی توزیادہ تر صرف عوام کے لیے یا ان خاص اداروں کے لئے ہے جو دہشت گردوں کو کھٹکتے ہیں۔ ۔ آپ کی حفاظت کے لئے تو سرکاری خزانہ اور ہزاروں کی نفری موجود ہے۔

۔ آپ کے قافلے کے پاس سے تو چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی۔ ۔ ۔ ۔ اندرونی طور پر حالات اتنے گھمبیر ہوچکے ہیں کہ آج کوئی شاہراہ کوئی گلی کوئی محلہ چوروں، ڈاکوؤں اور راہزنوں سے محفوظ نہیں۔ ۔ چوری ڈکیتی کی زیادہ تر وارداتیں پولیس کی زیرنگرانی ہوتی ہیں، اور زیادہ تر سے مراد بہت زیادہ ہیں۔ ۔ تھانہ کلچر آپ کے دعووں کے باوجود تبدیل نہیں ہوسکا، کیونکہ تھانہ کلچر ریفارمز لانے سے تبدیل ہوگا ناں صرف باتیں کرنے سے۔

۔ہمارے عدالتی نظام میں بھی کوئی تبدیلی نہیں لائی جاسکی، وہ لاٹھی بھینس والا محاورہ بدلا نہیں جا سکا، اگر کوئی تبدیلی آئی ہوگی تو وہ پرویز رشید کو پتا ہوگی۔
صحت مند زندگی کے لئے کھیل اور عوام کی سہولت کے لئے پارکس کسی صحت مند معاشرے کے لئے بہت ضروری ہیں۔ ۔ پارکس اور پلے گراؤنڈ زکی سہولت اب صرف ہاؤسنگ سکیموں میں ہی ملے گی ، باقی پبلک گلیوں ، محلوں اور کوڑے کے ڈھیروں پر کھیل کر اپنے شوق بھی پورے کر رہی ہے ۔

۔ ذرائع آمدورفت وہ شعبہ ہے جس میں نون کی حکومت نے خا ص توجہ دی ہے ۔ ۔ یہاں ایک نقطہ اہم ہے کہ اتنا پیسہ پلوں اور میٹرو بس پر کیوں لگایا جارہا ہے ۔ ۔ پاکستان ریلوے کو اتنی اہمیت کیوں نہیں دی جارہی ، وہاں خواجہ صاحب کو بٹھا دیا گیا ہے ۔ ۔ ریلوے میں کتنی بہتری آئی ہے پاکستان ریلوے چیخ چیخ کے بتا رہی ہے مگر خواجہ صاحب کے اپنے حالات کتنے بدلے ہیں وہ خاموش چیخ و پکار بھی آپ کے پاس پہنچنا شروع ہوگئی ہے ۔

۔ ذاتی خدمت کے علاوہ خواجہ کی پرفارمنس ہے کوئی نئیں جب دل چاہتا ہے مائیک اٹھاکر بولنا شروع کر دیتاہے ۔ ۔ میرے ایک دوست کا کہنا ہے کہ اگر اتفاق فونڈری والے( یہ گروپ اس نام سے تو ختم ہوچکا ہے ) ریلوے لائینیں یا ریل کے ڈبے بنارہے ہوتے تو نون لیگ کے دور میں ریلوے بہت ترقی کرتی ۔ ۔۔ ۔ پیٹرول عالمی مارکیٹ میں15 روپے سستا ہوتا ہے ، عوام کو فائدہ 9 روپے دیا جاتا ہے۔

۔6 روپے حکومت والے کھاگئے یا دھرنے والے۔ ۔ ؟ دھرے والے ناں ہوتے تو عوام کو 9 روپے سے بھی محروم کر دیا جاتا۔
پرویز رشید کی باتوں کا کبھی برا ناں منائیں جب سعد رفیق لائنیں اور انجن کھا رہے ہیں۔ ۔ اسحاق ڈار ہنڈی پہ ہنڈی لگا رہے ہیں۔ ۔ خواجہ آصف پا ور پراجیکٹس میں خوب مال بنا رہے ہیں۔ ۔عابد شیر علی خوب حسرتیں نکال رہے ہیں تو کیا ۔ ۔؟ پرویز رشید بیان بازی میں اپنی بھڑاس بھی ناں نکالے۔
یہ پرفارمنس ۔ ۔یہ کارکردگی تو ایک ایماندارطریقے سے بننے والی حکومت سے بھی ایک سنجیدہ معاشرہ قبول ناں کرے ، جعلی اور پنکچروں کے نتیجہ میں بننے والی حکومت سے ایک پاکستانی کیسے قبول کر سکتاہے۔ ۔ تو 18 ماہ بعد ہی ہر طرف کیوں ناں ہو ۔ ۔ گو نواز گو ۔ ۔ ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :