اقلیتی طبقے کے تماشے

پیر 24 نومبر 2014

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

انقلابی نظریات کے بغیر استوار سرگرمی خواہ کتنی بڑی کیوں نہ ہو،وہ نہ تو دیرپا اثرات مرتب کرسکتی ہے اور نہ ہی اپنے وجود کو اپنی پہلی طاقت سے برقرار رکھ سکتی ہے۔دھرنوں کی سیاست کے پیچھے عوامل متنازعہ بیان بازی کے باوجود مخفی امر نہیں رہے۔ دھرنوں کے ایک ماہ پورے ہونے سے پہلے ہی ان ”طاقتوں “ کے سامنے نوازشریف سجدہ ریز ہوکر” ہندوستان سے دوستی“ اور ”بغیر مداخلت کے افغانستان“کے عزم سے دستبردار ہوکر، خارجہ پالیسی کو مختلف قوتوں کے رحم وکرم پر چھوڑ کر،اپنے محفوظ ”بیرونی دوروں“ کی مصروفیت میں محو ہوچکے ہیں۔

قادری اپنی گزشتہ روش کے مطابق اپنی ”چابی “ پوری ہونے پر دھرنوں اور عمران خان کی معیت، دوستی کے دعووں ،وعدوں اور بیان بازیوں سے منحرف ہوکر مختلف قسم کی کہانیوں کے مندرجات کا شکار ہوچکے ہیں،اب ان کے جلسے خفت مٹانے کی ایک کوشش قراردئے جاسکتے ہیں۔

(جاری ہے)

قادری کے اسٹیج پر اپنی قد وقامت” بونا“ کرنے والے ماضی کے بیشتر ”عظیم“سیاسی زعماواپس گمنامی کی تاریکیوں کا حصہ بن چکے ہیں۔

شریف خاندان کے سابق حلیف اور ضیاالحق کے پروردہ چوھدری برادران نڈھال اور نیم جان سندھی قوم پرستی میں جان ڈالنے کے لئے اس ”کالا باغ ڈیم“ کی نعرے بازی کرنے میں مشغول ہیں ،جس کو انہوں نے اپنے محسن و مربی وردی والے پرویز مشرف کے ہمراہ‘بااختیار اقتدار میں رہتے ہوئے کبھی ”لفٹ“ نہیں کرائی تھی۔غیر نظریاتی سیاسی سرگرمیاں تضادات کو جنم دینے میں تامل نہیں کرتیں۔

پرویز مشرف کی باقیات،ہم خیال ،ریفرنڈم اور سات نقاطی پروگرام کی حمائت کرنے والے بھانت بھانت کی بولیاں بول رہے ہیں۔عمران خان لاڑکانہ میں کالاباغ ڈیم کی مخالفت کررہے ہیں اور پرویز الہی کالا باغ ڈیم بنانے کی ناگزیریت پر دلائل دے رہے ہیں،یہی غیر نظریاتی اتحادوں اور یک جہتی کا انجام ہوتا ہے۔عمران خان کے پاس سندھ کے کروڑوں لوگوں کے پاس دینے کے لئے کچھ نہیں تھا۔

لہذا جلسہ عام،عمران خان کے روائتی جلسوں کی طرح محض تفریح طبع اور ناچ گانے کا ملاؤں سے محفوظ مقام،رقص کرنے کی سماجی اجازت،گھروں کے قید خانوں سے نکل کر انسانوں کے ساتھ باہم سوشلائیزیشن کے مواقع فراہم کرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ متوسط طبقے کے نوجوانوں کی کچھ تعداد اور مڈل کلاس کے ہی آڑھتی،دوکاندار،نچلے اور بالائی سطح کے سرمایہ دار،جاگیردار اور زمین دار ان، جلسوں کی رونق بڑھانے کا باعث بنتے ہیں۔

ایک چھوٹی سی تعداد ایسے غریبوں کی بھی ہے جو میڈیا مہم ،سطحی بیان بازی اور جذباتی بڑھکوں سے مغلوب ہوکر ”واقعتا“ کسی قسم کی تبدیلی کی خواہش میں ان جلسوں میں آتے ہیں ،ان کے دکھ اور زندگی کے کرب ‘ان کو ہر درپر جانے پر مجبورکرتے ہیں۔وہ صدیوں سے اپنے ساتھ ہونے والے ظلم ،انائے اور جبر کا خاتمہ اورتلافی چاہتے ہیں ۔ان کی اس خواہش کی شدت نے ا ن کو اپنے دشمن طبقات کے پاس نجات کی تمنا لے کر جانے اور باربار دھوکہ کھانے کی سزا دی ہے۔

ضلع رحیم یارخاں،گھوٹکی ،خیر پوراور دیگر اضلاع سے غوثیہ تنظیم اور تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے اور لائے گئے شرکاء کی تعداد کو زیر بحث لائے بغیر ہم اس جلسے کے پیغام اور اثرات کا جائیزہ لیں تو یہ خاصے مایوس کن ہیں۔یہ جلسہ ان حالات میں کیا گیا جب اندورون سندھ بالخصوص اور بالعموم پورے سندھ کے لوگ پاکستان پیپلز پارٹی کے اقتدار کی نااہلی،بدعنوانی،بدنظمی اور پارٹی قیادت کی آمریت سے پریشان اور نالاں ہیں۔

دیہی سندھ کا ایک وسیع حصہ علاج معالجے کی سہولیات سے محروم ہے۔کروڑوں بے روزگاروں کی ایک فوج مایوسی میں شکست وریخت کا شکار ہوکر جرائم ،منشیات،خودکشیوں،انتہا پسندی،قومی شاونزم،فرقہ واریت اور دیگرمنفی سرگرمیوں کا شکار ہورہی ہے۔ناقص نظام تعلیم اور تعلیم کی مد میں رکھا جانے والا قلیل بجٹ اس عہد کی تعلیمی ضروریات کے تقاضوں سے کسی طور مماثلت نہیں رکھتا۔

سندھ کی گدیوں،جاگیرداروں،وڈیروں،قبائلی سرداری نظام اور پسماندگی نے سندھی محنت کشوں کی زندگی اجیرن کررکھی ہے۔وڈیروں کی نجی جیلوں میں سسکتے ہوئے ہاری،کسان اور مزارعے ،نجات دھندے کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں۔تھرکے کوئلے کے پہاڑوں میں مبحوس” کان کن“ آج بھی ”ایک ترقی پسند پارٹی “ اور ایک لیبر فیڈریشن کے مرکزی عہدے دار
کے تسلط میں صدیوں پہلے کی غلامی کی زنجیروں میں جھکڑے ہوئے ہیں۔

پھر تھر پارکر کے ریگستانوں میں ہزاروں خاندان اپنی مرتی ہوئی نئی نسل اور پتھرائی ہوئی آنکھوں سے امید کی کسی کرن کو تلاش کررہے ہیں ،مگر ان کی امید‘ دہائیوں سے نہیں بھر آئی۔ اس دوران آمریتوں اورسرمایہ دارانہ جمہوریتوں کی میوزیکل چئیر کے کئی دور آئے اور آکر گزرگئے۔سندھ کا المیہ زیادہ شدید ہے۔آبادیوں کا توازن بدل جانے کی وجہ سے قدیم سندھی آبادی کراچی میں اقلیت میں بدل چکی ہے۔

کراچی کی جمہوریت بھی اب الیکشن کمیشن اور خفیہ اداروں کی مرضی سے تجاوز کرچکی ہے۔متحدہ ہندوستان میں مسٹر جناح کی شکل میں اور بٹوارے کے بعد پورے پاکستان پر‘ سندھ سے جنم لینے والی بہت سی قیادتوں کا طوطی بولتا چلا آتا ہے، مگر سندھ کی پسماندگی بڑھتی چلی جارہی ہے۔وہ قیادتیں جو ”جمہوریت “ کے ”وظیفے “کو اقتدارکی تسبیح دانوں پرگننے سے فرصت نہیں پاتیں ،ان کی پارٹیوں اور حکمرانی کے علاقوں میں ماضی قدیم کی قبائلیت ،سرداری اور جاگیرداری کی خونی گدھ کی طرح پنجے گاڑے انسانیت کو بھنبھوڑ رہی ہے۔

یہاں الیکشن تو الیکشن کمیشن والے کراتے ہیں مگر الیکشن کے اصول وضوابط،ووٹر کی اہلیت ،جیتنے اور ہارنے کا تعین وہ زمینی قوتیں کرتی ہیں جو گدیوں اور جاگیروں میں صدیوں سے انسانی خون سے پنپتی آرہی ہیں۔اس تناظر میں عمران خان کا لاڑکانہ کا جلسہ شغل میلے ،دھمکیوں،بڑھکوں سے آگے بڑھ کر کوئی سنجیدہ پیغام نہ دے سکا۔کنٹینروں کے اسٹیج پر گدی نشین،جاگیر دار،سرمایہ دار،آمریتوں کی باقیات،محنت کشوں کے دشمن اور غریبوں سے نفرت کرنے والوں کے جھمگٹے میں عمران خاں اور انکے ماتحت راہنما پیپلز پارٹی پر حملہ کرتے ہوئے کوئی نیا نظریہ ،فلسفہ،منشور،پروگرام دینے کی اہلیت سے عاری رہے۔

اگر زرداری اور اسکا بیٹا بھٹو کے فلسفے سے نابلد اور منحرف ہیں تو پاکستان تحریک انصاف کی قیادت اس فلسفے کے الٹ اوردشمن نظریات کی حامل ہے۔اگر زرداری گالی کا مستحق قراردیا جاتا ہے تو زرداری جیسے کردار،ذہنی حالت اور نظریات کے وہ حاملین جو عمران خان کے دائیں بائیں کھڑے ہوتے ہیں ان کو ان گالیوں سے کس قانون اور ”انصاف“ کے تحت مستثنی اور مبرا قرا ردیا جاسکتا ہے۔

غریب کسانوں،بے بس ہاریوں،دکھوں اور مسائل سے چوُرمزارعوں کے سامنے جہانگیر ترین ،شاہ محمود قریشی،نادراکمل لغاری اور لاڑکانہ کے میزبان جاگیردار کو کھڑ اکرکے ان کے زخموں پر کس قسم کا مرحم رکھا جاسکتا ہے؟تحریک انصاف کی ہرشہر ،صوبائی اور ملکی قیادت بھانت بھانت اور قسم قسم کے سیاسی لوٹوں کا ”کباڑ خانہ“بن چکی ہے۔ یہ صاحبان پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں اور ہر قسم کے اقتداروں میں عیش وعشرت کرچکے ہیں۔

اگر غربت،بیماری،جہالت،پسماندگی،کرپشن اور بے انصافی کی ذمہ داری آصف علی زرداری،نوازشریف پر ہے تو ان کی کابینہ اور پارٹیوں کا حصہ رہنے والے تحریک انصاف کے عہدے داران اور اراکین کس اصول کے تحت پاکباز اور نجات دھندہ قراردئے جاسکتے ہیں۔جس طرح مشرقی پاکستان میں مظلوم بنگالیوں کے قتل عام اور معصوم عورتوں کی آبروریزی کے بڑے مجرم جنرل عمر کے دو صاحبزادے نواز لیگ کی وزارت اور پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی عہدے پر فائز ہوکر لوگوں کو دھوکہ دے رہے ہیں اسی طرح تحریک انصاف کے سرمایہ دارانہ نظریات،منڈی کی معیشت پر غیر متزلزل یقین اور ذاتی ملکیت کے فلسفے پر یقین و ایمان رکھتے ہوئے لوگوں کو انصاف،روزگار،تعلیم اور علاج کے وعدے کا دھوکہ دے رہی ہے۔

یہ دھرنے ،جلسے،مخالفانہ بیان بازیاں ،مغلظات کے تبادلے اور اقتدار تک پہنچنے کے راستے فراہم کرنے والی انتخابی اصلاحات کے مطالبا ت کاشور وغوغا اقلیتی طبقے کے تماشے ہیں تاکہ لوگوں کو اپنی قابل نفرت سیاست میں مشغول اور مصروف رکھ کرسرمایہ دارانہ ، طبقاتی نظام کے جرائم کو آڑ فراہم کی جاسکے۔”قصوریوں“ کے ہوتے ہوئے بیکن ہاوس اور سٹی سکول کا مہنگا اورطبقاتی نظام کس طرح ختم کیا جاسکتا ہے؟خود پی ٹی آئی کی ساری قیادت ”چیفس کالج “کے فیلوز پر مبنی ہے ،انکی سوچ کی بناوٹ ہی غریب کو غریب اور امیر کو امیر تر بنانے کے فلسفے پر مبنی ہے۔

وہ جو نجی تعلیم کی حقانیت پر یقین رکھتے ہوں، وہ 73فی صد غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی گزارنے والے،تعلیم خریدنے کی سکت سے عاری لوگو ں کو کس طرح خواندگی سے ہمکنار کرسکتے ہیں؟جب تک علاج کا بیوپار موجود ہے ،نجی اسپتال اور ذاتی ملکیت میں ادویات ساز ادارے چل رہے ہیں،بیماریاں ختم نہیں ہوسکتیں۔جن کی شوگر ملز میں انسان زندہ جل جائیں تو ذمہ داران کے خلاف سالہاسال گزر جانے کے باوجود کوئی سزا جزاء تو کیا انکوائیری کمیٹی تک نہ بنی ہو‘ وہاں سے کروڑوں لوگوں کو انصاف کی فراہمی کا نعرہ محض نعرہ نہیں تو کیا ہے؟اگر خواہش زرداری اور نواز کے نظام (منڈی کی معیشت )کے قائم رکھنے کی ہے تو اس نظام پر عمران اگر فائیز بھی ہوجائے تو بہت زیادہ تو نہیں پینے کا صاف پانی تک فراہم نہیں کیا جاسکتا ،کیونکہ ایسا کرنے کی کوشش پر نظام کے رکھوالے اور پانی بیچ کر سالانہ اربوں ڈالر کمانے والی ملٹی نیشنل کمپنیاں ایسا کرنے نہیں دیں گی۔

سندھ سمیت پاکستان بھر کے محنت کشوں کو اپنے اندر سے ایسی قیادت ابھارنے کی ضرورت ہے جس کا نظریہ اقلیتی سرمایہ داروں کے مفادات کی بجائے محنت کش طبقے کے مفادات کی تکمیل ہو۔اس بھیانک سامراجی نظام کے تمام رکھوالوں کے نام اور پارٹیاں مختلف ہیں مگر عزائم اور اہداف ایک ہی ہیں۔محنت کش طبقے کو اپنے نظریات پر اپنی انقلابی پارٹی تشکیل دینا ہوگی تاکہ اس ظلم کے نظام اور بہروپیوں کی مختلف قسموں کو حتمی شکست دے کر محنت کش اکثریتی طبقے کا راج قائم کیا جاسکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :