سائنسی دور

ہفتہ 22 نومبر 2014

Manzoor Qadir Kalru

منظور قادر کالرو

آجکل یہ جملہ بازاروں میں دندناتا پھر رہاہے کہ ایمان اپنی جگہ ہے اور کاروبار اپنی جگہ۔گویا جب معاملہ کاروبار کا ہو تو ایمان کو کسی اونچی جگہ پرمحفوظ کر دیجئے۔یہ کہ ایمان کو مسجد میں داخل ہونے سے پہلے اوڑھ لیجئے اور مسجد سے نکلتے وقت کسی اونچی جگہ پر احترام سے رکھ دیجئے۔یہ کہ ایمان کو رکوع سجود تک ہی محدود رہنے دیجئے اور کاروباری معاملات سے دور ہی رکھئے اور یہ کہ اس کی گلیوں بازاروں میں بے حرمتی نہ کیجئے ۔

ہم دن بد ن بہت سائنسی لوگ بنتے جا رہے ہیں۔دن بدن نئی نئی ایجادیں کرتے رہتے ہیں۔ہم ایمانی معاملات میں بھی سائنٹیفک بنتے جا رہے ہیں۔ہم دفتروں کے لئے فرنیچر کی خریداری کے وقت دوکاندار سے کمیشن طے کر رہے ہوتے ہیں تو ظہر کی نماز کا وقت ہو جائے تو نماز کے بعد گناہوں پر توبہ بھی کر لیتے ہیں اور واپس آکرکمیشن کے بارے میں بھی جھگڑ لیتے ہیں۔

(جاری ہے)

گیس کی بندش ہونے پر کرائے ڈبل کر لیتے ہیں ۔پٹرول سو روپے بڑھتا ہے تو کرایہ ہم سو روپیہ فی سواری وصول کر نے لگتے ہیں لیکن خوفِ خدا کی وجہ سے ہم سفر کی دعا بھی پڑھ لیتے ہیں اور سواریوں سے بھی پڑھوا لیتے ہیں۔صبح ہی صبح نماز بھی پڑھتے ہیں اور نماز پڑھنے کے بعد نہر سے پانی بھی دودھ میں ملا لیتے ہیں اس لئے کہ یہ سائنسی دور ہے۔ باسمتی چاول میں موٹا چاول بھی ملا لیتے ہیں اور منافع میں سے خیرات بھی کر دیتے ہیں اس لئے کہ دین بھی رہ جائے اور دنیا بھی بن جائے۔

ہم ظہرکی نماز بھی ادا کرتے ہیں اور ارد گرد دیکھ کر اگر حالت سازگار ہوں تو دفتر سے بھی کھسک جاتے ہیں۔بھولا بھالا بندہ دیکھ کر ہم پچاس روپے گز والے کپڑے کا سو روپے گز کما بھی لیتے ہیں اوراپنے ایمان کی سلامتی کے لئے نماز کے بعد دعا بھی کرتے ہیں اس لئے کہ سائنسی دور جو ہوا۔ دوسری طرف نماز کیا ہوتی ہے۔جس طرح کسی غریب کمی کو گاؤں کے چوہدری سے کوئی کام ہو تو وہ سب سے پہلے اُس کی تعریفوں کے پل باندھتا ہے۔

چوہدری صاحب کے سوٹ کی کیا بات ہے۔ چوہدری صاحب کے بیٹوں کی کیا بات ہے ، چوہدری صاحب کی گاڑی کی کیا بات ہے ، چوہدری صاحب کی گھوڑی کی کیا بات ہے اور پھر وہ کہتا ہے چوہدری صاحب کے دل کی کیا بات ہے۔ چوہدری صاحب تو دل کے دریا ہیں۔ اور پھر وہ اپنا مدعا بیان کرتا ہے کہ میں نے اپنی بھینس کے لئے چارہ لینا ہے۔ذرا اپنے نوکر کو حکم دیں کہ وہ مجھے چارہ دے دے۔

چوہدری صاحب حکم دے دیتے ہیں کیونکہ اُن کے پاس دینے کے لئے بہت کچھ ہوتا ہے۔ ایسے ہی ہم نماز میں اللہ کی تعریف کرتے ہیں وہ اللہ پاک ہے،، اُس کا نام برکت والا ہے، اُس کی نسل اونچی ہے،اور اُس کے علاوہ کوئی الہ نہیں۔ سب تعریفیں اُس کے لئے ہیں ، جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے ،جو مالک ہے کل جہانوں کا۔ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔

اس کے بعد کہتے ہیں کہ تو ہمیں سیدھے راستے پر چلا۔ اُن لوگوں کے راستے پر جن پر تیرا انعام ہوا اور نہ چلا اُن لوگوں کے راستے پر جن پر تیری ناراضگی ہوئی۔ہم مسجد سے نکلنے کے بعد سیدھے راستے کی تمنا کرتے ہیں اور غلط راستے سے بچنے کے لئے مدد طلب کرتے ہیں۔ہم چوری نہیں کرنا چاہتے ، ہم ماپ تول نہیں کرنا چاہتے، ہم جھوٹ نہیں بولنا چاہتے ، ہم فریب اور دھوکہ نہیں کرنا چاہتے،اس کام کے لئے ہماری مدد فرما۔

جن لوگوں نے ڈاکہ ڈالا اور وہ جیل چلے گئے ایسے لوگوں جیسی حرکتوں اور اس سزا سے ہمیں بچا، جنہوں نے قتل کیا اور انہیں سزا ئے موت ملی ہوئی ہے اور وہ کالی کوٹھڑی کی سزا کاٹ رہے ہیں ہمیں ایسے عمل اور اس کے بدلے میں ملنے والی سزا سے بچا۔ جنہوں نے کرپشن کی اور جیل چلے گئے ، مجھے اس عمل اور اس کے بدلے میں ملنے والی سزا سے بچا، جس نے رشوت لی اور اُس کی اولاد نافرمان بدتمیز بن گئی اور اُس کی آخری زندگی جنہم بن گئی مجھے ایسے عمل اور اس عمل کے نتیجے میں ملنے والی سزا سے بچا۔

ہمیں دوسروں سے مجبوری کے عالم میں حاصل ہونے والے فائدے سے بچا،جب خلقِ خدا کسی مجبوری کے عالم میں دھوپ میں کھڑی ہو اور اُسے شدیدپیاس لگی ہو تو دس روپے کی چیز سو روپے میں بیچنے سے بچا۔مجھے ایسی حالت میں ہوس اور لالچ سے بچا۔قناعت کی تو فیق عطا فرما بے شک تو بہترین رزق دینے والے اور رزق کو کشادہ کرنے والا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :