سوچ میں تبدیلی لانے کی ضرورت

منگل 18 نومبر 2014

Shabbir Rakhshani

شبیر رخشانی

میں نے جتنا بھی سیکھا اس دنیا میں مشاہدات کی روشنی میں سیکھا۔ ورنہ ہماری کتابیں ہمیں وہ حقیقت نہیں دکھاتیں جو ہمارے روز مرہ سے مماثلت رکھتے ہوں۔ ہمارامعاشرہ اور یہاں کے بسنے والے آدم زادوں کے رویوں سے انسان بہت کچھ سیکھتا ہے۔ بس اسکے لئے آپکو خالی پیٹ اور دنیا کی ٹھوکریں کھانی پڑیں تو تب اس حقیقت کا مزہ ہی دوبالا ہو جاتا ہے۔

آپ رشتوں کو پرکھنا سیکھیں گے۔ آپ لوگوں کے رویوں میں تبدیلی آتا ہوا دیکھ سکیں گے۔ وہی مخلوق جو آپکے حیثیت اور معیار کو پرکھ کر آپکی شخصیت اور آپکے اخلاقی اقداروں کی تعریف کرتے ہوئے نہیں رہ سکتے تھے آج وہی دور آیا کہ لوگ آپ کو دیکھنا تک گوارہ نہیں کرتے کیوں۔ آخر کیوں؟ تو اسکا جواب آپکو آسانی سے مل ہی جاتا ہے کہ ہماری سوسائٹی مادہ پرست بن چکی ہے جو آپکو آپکے اندر کے انسان سے زیادہ باہر کے انسان سے جان سکتا ہے۔

(جاری ہے)

چاہے آپ کتنا ہی اندر سے خوددار اور حساس انسان ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن دنیا والے آپکو آپکی ظاہری صورت میں دیکھ کر آپ کی حیثیت کا اندازہ لگا لیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہم اکثر ایسے قیمتی اور نایاب انسانوں کو کھو دیتے ہیں جو حقیقت میں درد دل رکھتے ہیں اور ان میں انسانیت کھوٹ کھوٹ کر بھری ہوئی ہوتی ہے۔ لیکن چونکہ انکے پاس وسائل نہیں ہوتے تو اسے اہمیت نہیں دیتے ۔

تو ان تمام خرابیوں کا بنیادی کریڈٹ ہماری سوسائٹی کو جاتا ہے۔ جس نے ہماری نسل کو ایک ایسا رخ بخشا ہے کہ ہم صرف مادہ پرستی کے پجاری بن چکے ہیں۔ ہماری زہنی لیول صرف پیسہ کمانے اور اپنی حیثیت دکھانے کے حد تک محدود سی ہو کر رہ گئی ہے۔ ہم نے ڈگریاں حاصل کیں ہم نے اسلئے نہیں کہ ہم اس دنیا میں ایک اچھا کام کر سکیں بلکہ اسلئے کہ مال و دولت اور شہرت کما سکیں۔

آج اگر ہم دیکھیں تو لوگوں کے پاس ڈگریاں بہت ہیں۔ اعلیٰ درجے کو پہنچے ہوئے انسان ہیں لیکن انکا رویہ دیکھ کر آپکو قطعاً نہیں لگتا کہ موصوف نے علم کے وہ اصول سیکھے ہیں جن سے اسکے اخلاقی اقدار بلند ہو۔ اس میں انسانیت کے لئے کچھ کرنے کا جذبہ پیدا ہو۔ میں کسی محفل میں بیٹھا تھا تو باتوں باتوں میں یہی موضوع چڑھ گیا تو کسی نے درست فرمایا کہ جو تعلیم ہم حاصل کرتے ہیں اس سے ہمیں انفرادی حوالے سے بہت کچھ حاصل ہوتا ہے لیکن آپکے اندر اجتماعیت کا رجحان کم پایا جاتا ہے۔

اگر اجتماعیت کا رجحان آپکے اندر پیدا ہوگیا تو سمجھ لینا کہ یہ چیز آپکی فکر و سوچ ہے جو آپکو اجتماعیت پر مجبور کر دیتی ہے۔ میں نے خود اس سوسائٹی میں رہتے ہوئے مشاہدہ کیا ہے کہ ہمارے تعلیم یافتہ طبقہ جو ہمارے معاشرے میں باشعور طبقہ کہلاتا ہے۔ وہ انسانی اقدار اور انسانیت کے شعبے سے بیگانگیت کا مطاہرہ کرجاتے ہیں۔ انکے پاس دولت کا بے تحاشہ سرمایہ ہوتا ہے۔

لیکن وہ اپنے اس سرمایہ کا ایک چھوٹا سا حصہ بھی انسانیت کے خدمت کے لئے وقف کرنا نہیں چاہتے۔ اگر آپ ہسپتالوں کا جائزہ لیں تو ماشاء اللہ بڑے بڑے ڈاکٹروں کی کمی نہیں ہے اس میں لیکن جو فیس وہ غریب مریض سے حاصل کر لیتے ہیں۔ وہ کہیں بھی انسانیت کے زمرے میں نہیں آتا وہ غریب جو ڈاکٹر کو فیس دینے کے بعد ڈاکٹر سے لیا گیا دوائیوں کا پرچہ حسرت بھری آنکھوں سے دیکھتا ہے لیکن دوائیوں کے پیسے اسکے پاس نہیں ہوتے اور وہ وہاں سے مایوس اور نامراد واپس لوٹ جاتی ہے لیکن ڈاکٹر کو اتنا بھی توفیق نہیں ہوتا کہ اس غریب مریض سے اپنا فیس کا مد معاف کرے۔

اگر ایک ڈاکٹر روزانہ کی بنیاد پر اپنے فیس میں سے پانچ غریب مریضوں کا مفت علاج کرے تو یقینا وہ اپنے زندگی میں بہت ہی زیادہ فرق محسوس کرے گا۔ لیکن جو سوچ ہمیں ہمارے تعلیمی اداروں سے ملتی ہے تو یقینا وہی سوچ ہم لے کر اپنے سوسائٹی پر لاگوکرتے ہیں جسکا نتیجہ ہمیں انفردی طور پر مل ہی جاتا ہے۔ اگر آپ ایک سیاست دان کی سوچ دیکھ لیں تو الیکشن کے وقت وہ گھر گھر کو جاتا ہے اور لوگوں سے ووٹوں کے بھیک مانگتا ہے اور انہیں یقین دلاتا ہے کہ الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد وہ علاقے کے مسائل حل کرے گا۔

اور علاقے کو ایک مثالی علاقہ بنانے میں اپنا کردار ادا کریگا لیکن جونہی وہ کامیاب ہو جاتا ہے اسکا رابطہ عوام سے کٹ جاتا ہے۔ اور اپنا پانچ سالہ دور حکومت گزارنے کے بعد وہ پھر عوام کے درمیان آکر اپنے گزشتہ کارناموں پر معافی مانگتا ہے اور انہیں سبز باغ دکھاتا ہے۔ تو آپ اس سیاستدان کا سوچ دیکھ لیں تو یقینا اس میں اجتماعیت کی سوچ پائی نہیں جاتی جسکا اطلاق وہ پانچ سالوں کے اندر کرجاتا ہے جسکی سزا پورے علاقے والوں کو مل جاتی ہے۔

کیونکہ اس سوچ کے پروان چڑھنے کی وجہ سے عوامی مسائل جوں کے توں پڑے رہتے ہیں لیکن ان سے عوامی مسائل کا کوئی مداوا نہیں ہوتا۔اسی طرح آپ مختلف شعبہ جات پر نظر ڈالیں تو سب کا یہی حال ہے۔ جسکا بنیادی وجہ ہماری انفرادی سوچ ہے جو ہمیں اجتماعی سوچ کی جانب گامزن ہونے نہیں دیتی۔
ہم نہ جانے اپنی آسائشوں کو پورا کرنے کے لئے کیا کچھ نہیں کرتے۔

ہم سوچتے ہیں کہ کس طرح ہماری آسائشیں پوری ہوں ہم ان آسائشوں کو پورا کرنے کے لئے جرم کا راستہ تک اختیار کر لیتے ہیں۔ ہم اپنے آپکو عالیشان سوچ رکھنے والا سمجھتے ہیں۔ ہم بڑے بڑے بنگلوز میں رہتے ہوئے اور ہائی لیول کی گاڑیاں اپنے استعمال میں لاتے ہیں۔ اور صرف اسلئے کہ لوگوں کو احساس دلانے کے لئے کہ ہمارے پاس کیا کچھ نہیں لیکن ہم دلی تسلی حاصل نہیں کرتے۔

ہم انہی خواہشات کی تکمیل میں اپنے زمہ داریوں سے بھی غافل ہو جاتے ہیں۔ انسانیت والا سیکشن ہمارے اندر سے گمنامی کی فضاوٴں میں اڑتا ہوا نظر آتا ہے۔ انہی جدید رجحانات نے ہماری سوسائٹی کو بیگانگیت کا وہ روپ بخشا ہے جہاں بڑی مشکل سے انسان کا انسان کے ساتھ ہمدردی کا عنصر ظاہر ہو جاتا ہے۔ گو کہ ہم انسان ہیں لیکن بہت کم لوگ اس دنیا میں انسانیت کا امظاہرہ کر جاتے ہیں جن میں انسانیت کھوٹ کھوٹ کر بھری ہوئی ہوتی ہے اگر وہ کسی کو تکلیف میں دیکھیں تو اسے اپنی ہی تکلیف سمجھتے ہیں بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ وہ کسی اندھے کو روڑ پار کرنے میں اسکی مدد کریں۔

ہسپتالوں میں پڑے مدد کے مستحق کسی فرد کی مدد کریں۔ کسی محنتی طالبعلم کو اسکے اسکول فیس یا کتاب، کاپی ، قلم کی مد میں مدد کریں۔ ہم میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جنکے پاس وسائل ہوتے ہوئے بھی کسی غریب کی مدد کا خیال آیا ہو۔ سوچتا ہوں کیوں نہ ہم سب کے اندر انسانیت کا یہ خیال نہیں آتا۔ ہمارے پاس بڑے بڑے اداروں کی بڑی بڑی ڈگریاں ہیں لیکن ہماری سوچ انفرادی خیالات کے گرد گھومتی رہتی ہے۔ آخر ہماری سوچ میں تبدیلی کب آئے گی ہم سب کو سوچنا ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :