شادی کے لڈو(ایک پاکستانی کی شادی کا احوال)

منگل 18 نومبر 2014

Hussain Jan

حُسین جان

قصہ کچھ یوں ہے کہ ہمارے ایک دوست کی شادی طے پا گئی بس پھر کیا تھا ہر طرف ڈھول ڈھمکے شروع ہو گئے۔ماں نے بلائیں لیں اور باپ نے قرضہ لیا بہنوں نے جی بھر کر شاپینگ کی بھائیوں نے ناچ گانے والوں کا بندوبست کر لیا۔ ماموں ،چچا،تایا تائی پھوپھو دادی نانی عرض پورئے خاندان میں تیاریاں عروج پر تھیں ۔ ہر کوئی اپنی اوقات سے بڑھ کر کرنے کی کوشش کر رہا تھا ایک دوسرئے سے سبقت لیجانے کی خوشی میں پیسے کا بے دریغ استعمال کیا جا رہا تھا۔

خیر تیاریاں شروع ہوئیں تو سوچا گیا کہ دور پار کے رشتہ داروں کو بھی کارڈ دیا جائے اور یہیں سے کہانی نے نیا موڑ لیا۔دلہا میاں جس کے بھی گھر شادی کا دعوت نامہ دینے جاتے آگے سے یہی جواب ملتا بھئی ہم تو ناراض ہیں ہم نہیں شادی میں آنے کے۔

(جاری ہے)

ہمارا دوست اپنا سا منہ لے کر گھر پلٹ آیا اور ماں ماپ کو اپنی کہانی سننانے لگا۔ ماں نے کہا تو فکر نہ کر میرا بیٹا میں سب کو منا لاؤں گی آخر میرے منے کی شادی ہے کوئی مذاق ہے۔

ماں نے ابا کو ساتھ لیا ،ویسے ابا ہر وقت اماں کی ہاں میں ہاں ملانے کے لیے تیار نظر آتے ہیں سو وہ بھی جھٹ سے تیار ہو گئے کہ چلو اسی بہانے کچھ دور پار کے رشتے داروں سے بھی مل لیں گے اور ساتھ ساتھ کچھ کھانے میں بھی اچھا مل جائے گا کہ بیچارے اماں کے ہاتھ کا کھانہ کھا کھا کر تنگ آچکے تھے۔ لو جی اماں اور ابا رات گئے واپس آئے اور خوشخبری سنائی کہ تمام رشتہ داروں کو راضی کر لیا گیا ہے سب کے سب آوئیں گے ہمارے منا کی شادی میں ۔

ویسے تو منا دیکھنے میں بالکل ٹھیک ٹھاک ہی تھا مگر وزن شائد کچھ اوقات سے بڑھا ہوا تھا۔ رنگ کالا اور بال سارے کہ سارے سفید ہوچکے تھے،منا جی ایک ٹانگ سے تھوڑا سا لنگ مارتے تھے ساتھ ساتھ آنکھیں بھی آپس میں نہیں ملتی تھی مگر تھے بہت حسین ۔
خیر خدا خدا کرکے مہندی کا دن آیا تو پتا چلا کہ بڑئے بہنوئی صاحب نے آنے سے انکار کر دیا ہے منا بیچارا مہندی لگائے لال پیلا ہو رہا تھا کہ یہ بری خبر سنائی گئی اب منا کو بھی پتا تھا اگر بہنوئی صاحب نہیں آئے تو آپا بھی نہیں آئیں گی آپا نہ آئیں تو اماں یہ شادی ہونے نہیں دیں گیں۔

لہذا منا جی نے فیصلہ کیا کہ وہ خود ہی بھائی صاحب کو منانے جائیں گے۔ جب بھائی صاحب کے گھر پہنچے تو وہ منہ پھولائے بیٹھے تھے پوچھنے پر بتانے لگے کہ اُن کی گلی کے ایک بچے نے بھائی صاحب کی ٹینڈ کے بارئے میں کچھ ناشائستہ الفاظ کا استعمال کیا تھا جس کی وجہ سے وہ شادی میں آنے سے قاصر ہیں۔ منے نے بڑی منت سماجت کی کہ وہ اپنے محلے کے لڑکے کو پھینٹی شینٹی لگا دیں گے مگر ابھی تو چلیں میری مہندی رکی ہوئی ہے۔

تو گنجا جی ہمارا مطلب ہے بھائی جی شادی میں آنے کو راضی ہو گئے۔ منے میاں بہت خوش تھے کے چلو اچھا ہے بھائی صاحب شادی میں آنے کو راضی ہو گئے ہیں اب اُن کی شادی میں کوئی رکاوٹ نہیں ۔ لیکن قسمت نے ا بھی منے میاں کہ بہت سے امتحان لینے تھے۔ گھر واپس آئے تو ایک اور بری خبر انتظار کر رہی تھی۔ اماں بیٹھی رو رہی تھی اور اُن کے ساتھ خاندان کی گھاگ قسم کی خواتین بھیکچھ پریشان دکھ رہی تھی۔

منے کو بتایا گیا کہ اُن کے ایک دور پار کے ماموں جن کا گھر اسی محلے میں ہے شادی میں آنے سے انکاری ہے بقول اُن کے شادی کے کارڈوں میں اُن کا اور اُن کے لنگڑئے بیٹے کا نام کیوں نہیں لکھوایا گیا ایک دفعہ تو منا سیخ پا ہو گیا مگر جلد ہی اماں سے بولا تو فکر نہ کر میں تیرے اس بھائی کو بھی راضی کر لوں گا۔ پیلے رنگ کی چادر میں لپٹا منا پہلے ہی ایک عدد نمونا لگ رہا تھا اوپر سے کالے رنگ کا سایہ اس کو مزید ہبت ناک بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہا تھا۔

تو جناب منے نے اپنے ایک ماموں کو ساتھ لیا اور چل پڑئے دوسرے ماموں کو منانے۔ منے میاں نے گھر کی گھنٹی بجائی کچھ ساعتوں بعد ایکبچہباہر نکلا اور منے کو دیکھتے ہی بھوت بھوت پکارتا ہوا اند ر بھاگ گیا۔ منا اپنا سا منہ لے کر چپ چاپ کھڑا رہااور دل ہی دل میں گالیاں نکالتارہا۔ اسی دوران ماموں جان بھی باہر آگئے اور ان دونوں کو اند ر لے گئے اور سنانے لگے اپنے دکھ درد منے کو پہلے ہی بہت غصہ آیا ہوا تھا اُس کا دل کر رہا تھا کہ ماموں کی گردن دبا دے۔

پھر سوچا کے مجھے اس پاداش میں پھانسی ہو جائے گی اور میرے بچے یتیم پیدا ہوں گئے لہذا اُس نے اپنے آپ کو اس عمل سے دور ہی رکھا اور بڑئے پیار سے ماموں جان کو سمجھانے لگا کہ ہم نے آپ کا اور بھائی کا نام بھی کارڈ والے کو دیا تھا مگر لکھائی میں کچھ غلطی ہو گئی تھی اسی لیے آپ کے نام نہیں آہے ۔ بھولے پن میں منا نے ماموں سے وعدہ بھی کر لیا کہ وہ اگلی شادی میں ایسی غلطی نہیں دہرائے گا اور ماموں بھی مان گئے۔

تو یوں منے میاں کی پوری مہندی کی رات لوگوں کو منانے میں خرچ ہو گئی۔ جب منا گھر واپس آیا تو سب لو گ سو چکے تھے بیچارا ایک ٹوٹی ہوئی چارپائی پر خود بھی لیٹ گیا ۔
آخر جس دن کا انتظار تھا وہ بھی آہی گیا یعنی منے میاں کی بارات کا دن ویسے عام دنوں میں تو منا 12بجے سے پہلے اُٹھنا اپنی توہیں سمجھتا تھا مگر آج کے دن وہ فجر کے وقت ہی اُٹھ بیٹھا تھا جبکہ وہ بہت زیادہ تھکا ہوا بھی تھا لیکن شائد شادی کی خوشی میں وہ اپنی تمام ٹھکاوٹیں بھی بھول چکا تھا۔

وہ بار بار گھر کے تمام افراد کے کمروں اور چارپائیوں کے پاس جاتا اور اُن کوجگانے کی کوشش کرتا کہ بھائی اُٹھ جاؤ "شُب محرت"نکلا جا رہا ہے۔ بہت سوں نے تو اُسے جھرک دیا کہ ابھی بہت وقت پڑا ہے بارات جانے میں اور ویسے بھی بارات کون سا دوسرے ملک جانی ہے شنو کا گھر بغل والی گلی میں ہی تو ہے۔ منے نے سوچا چلوں جب تک سب سو رہے ہیں میں نہا دھو کر اپنے نائی دوست سے میک اپ کروا آتا ہوں۔

جب وہ دوست کی دُکان پر پہنچا تو دیکھا کہ دکان بند ہے منا برا سا منہ بنا کر بڑبڑایا کہ مجھے آج پتا چلا کہ ہمارا ملک ترقی کیوں نہیں کر رہا جب لوگ اتنی دیر تک سوتے رہیں گے تو ملک خاک ترقی کرئے گا۔ جبکہ ہمیں چاہیے صبح سویرئے اُٹھ کر اپنے اپنے کام شروع کر دیں یہ وہی منا ہے جو خود کبھی وقت پر اُٹھنے کا عادی نہیں جس کے نزدیک دیر سے اُٹھو تو آدمی فریش رہتا ہے۔

تو منے نے گلی میں چکر لگانے شروع کر دیے خدا خدا کر کے اُس کے دوست صاحب آئے دُکان کھولی اور منے کی "ڈینٹنگ پینٹنگ"شروع کردی ویسے تو میک اپ کے بغیر بھی منا جی کافی خوفناک دکھتے ہیں مگر میک اپ کے بعد ان کی خوفناکی میں مزید نکھار پیدا ہو گیا تھا۔ باگم بھاگ جب وہ گھر پہنچا تو اُسے دیکھ کر بہت سے بچوں نے احتجاجا رونا شروع کر دیا کہ یہ کون سی بلا نازل ہو گئی ہے۔

منے کے ابا نے اُس کی اچھی خاصی کلاس لے ڈالی لیکن آج کے دن اگر کوئی منے پر ایٹم بم بھی گرا دیتا تو منے کو وہ بھی پھول ہی لگتا۔
اب سہرا بندی کا وقت ہو چکا تھا جو کہ منے کے لیے سب سے بہتر وقت تھا کہ منہ پر سہرا لگ جانے سے کچھ ساعتوں کے لیے لوگوں میں تجسس پیدا ضرور ہوتا کے سہرے کے پیچھے ضرور کوئی حسین و جمیل دُلہا ہو گا۔ ویسے آج خوش قسمتی سے زندگی میں پہلی دفعہ منا بھی صاف ستھرے کپڑوں میں نظر آرہا تھا ورنہ تو اُسے پتا ہی نہیں تھا کہ صاف ستھرے کپڑئے کیسے ہوتے ہیں اسی لیے وہ خود کو ان کپڑوں میں اجنبی محسوس کر رہا تھا۔

پھر منا کے لیے گھوڑی لائی گئی جس کے مالک نے یہ شرط رکھی کہ منا گھوڑی پر بیٹھ تو جائے لیکن دوسری طرف سے تاکہ گھوڑی منے کا منہ نا دیکھ سکے کیونکہ اگر اُس نے منے کا منہ دیکھ لیا تو ہوسکتا ہے احتجاجا چلنے سے انکار کر دے۔ منا جی کو گھوڑی پر بیٹھایا گیا اور پیچھے پیچھے سب باراتی چل پڑئے اور آگے آگے محلے کے ننگ فلنگ بچے جو اس آس پر ساتھ ہو لیے تھے کہ شائد آج منے کی شادی کی خوشی میں اس کے خاندان والے کچھ روپے نچاور کر دیں جبکہ پتا سب کو تھا کہ ان کی طرف سے آج تک کسی کو چونی کا فائدہ نہیں ہوا تھا روپوں کی بات تو بہت دور کی ہے۔

جب منے کی بارات اُس کے سسرال پہنچی تو خوب استقبال کیا گیا سب کو چارپائیوں پر بٹھایا گیا۔ ہان البتہ منے کے لیے ایک عدد مانگے کی کرسی منگوائی گئی تھی تاکہ دلہا میاں اُس پر براجمان ہوسکے۔ نکاح ہوا جب رخصتی کا وقت آیا تو اچانک دلہن کی نظر سہرئے کے پیچھے چھپے منے پر پڑ گئی اور وہ فورا ہی بے ہوش ہو گئی لوگوں نے سوچا شائد خوشی کے مارے ایسا ہوا ہو گا۔

لہذا کسی نے اس بے ہوشی کو اتنا سنجیدہ نہیں لیا اور منا ایک عدد دلہن بیاہ کر گھر لے آیا۔ پھر اُس کے بعد منے کو اندازہ ہوا کے شادی کے کیا کیا فوائد ہیں پہلے وہ مرضی سے اُتھتا تھا اب شنو اُسے گالیوں سے اُٹھاتی تھی۔ پہلے منا گھر آتا تھا تو کھانا کھا کر سکون سے دوستوں کی محفل میں چلا جاتا تھا اب جب منا جی گھر واپس آتے ہیں تو کوئی نہ کوئی جھگڑا اُن کا انتظار کر رہا ہوتا ہے۔

پہلے کام دھندے کی کوئی فکر نہیں تھی اب بیچارے کو ڈبل شفٹ میں کام کرنا پڑتا ہے گھر کا گزارا پھر بھی نہیں ہوتا۔ مہنگائی کیا ہوتی ہے اب اُس سے منا جی آشنا ہو چکے تھے۔ بجلی پانی گیس کی قیمت کا بھی ادراک ہو چکا تھا ۔ دودھ چینی پتی گھی تیل آٹا ہر وقت منے کے ڈرائے رکھتے تھے۔ آج چارپائی پر لیٹا منا سوچ رہا تھا کہ وہ بھی کیا حسین دن تھے جب اُس کی شادی نہیں ہوئی تھی اور ہر طرف خوشحالی ہی خوشحالی ہوتی ۔

وہ ہمیشہ گھر سے بھاگنے کے منصوبے بنایا کرتا مگر کبھی کامیاب نہیں ہو پایا۔
یہ تھی ایک پاکستانی منے کی شادی اور ہر پاکستانی منے کے ساتھ یہی ہوتا ہے۔ حالات کا مقابلہ تو کر سکتے ہیں مگر حالات سے جیت نہیں سکتے ۔ کیونکہ یہ پاکستان ہے اور یہاں حکومتیں اپنی مرضی سے ہی فیصلے کرتی ہیں ۔ پھر منے جیسے کیوں نہ روئیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :