عدل و انصاف کا گھپ اندھیرا ۔ قسط نمبر1

منگل 18 نومبر 2014

Abdul Raheem Anjaan

عبدالرحیم انجان

وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کے پاس دو ہی راستے ہیں(1) الیکشن میں شرمناک دھاندلی میں انصاف دینے کا راستہ۔(2)اور اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہ کر شہیدِ اقتدار ہونے کا راستہ ۔
انصاف دیتے ہیں تو الیکشن میں دھاندلی کا طوق اُن کے گلے کا ہار بنتا ہے اور موصوف سرِ بازار ننگے ہوتے ہیں۔اِس لئے انصاف دینے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

شہید ہوتے ہیں تو اس صورت میں” جمہو ریت کو ڈیریل نہیں ہونے دیں گے۔“ کے دعویداروں کو نوید ہو کہ ہٹ دھرمی کی صورت میں جمہوریت صرف ڈیریل نہیں ہوگی،آٹھ دس سال کے لئے پا بندِسّلاسِل بھی ہو جائے گی۔خیرآپ تو کسی فوجی کی گود میں بھی بیٹھ جائیں گے۔ لیکن ملک کا بہت نقصان ہو گا۔
سچ پوچھیں تو میاں برادران کے لئے بھی یہی راستہ سود مند ہے۔

(جاری ہے)

جمہوریت کا ڈیریل ہونا یا پا بند سَلاسِل ہونا ان کے لئے کوئی معنے نہیں رکھتا کہ وہ خود ایک فوجی ڈکٹیٹر کی نر سری میں پیدا ہوئے تھے۔ بھلاجمہوریت سے ان کا کیا واسطہ ؟ موجودہ حالات کے جمود سے تنگ آ کر اگر فوج آتی ہے ،تو آئے کہ میاں بردران کے لئے فوج ہی کا آنا سازگار ہے ۔ انہوں نے اپنی بادشاہت کے خلاف نفرت کی چنگاری بھڑکانے کے لئے ، اپنی شرمناک گورننس اور جھوٹوں کے انبار سے جس طرح عمران خان کی مدد کی ہے۔

نفرت کی اس چنگاری کو ، محض میاں صاحب کے اقتدار کی شہادت کی ہمدردی بجھانے میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔اُس کے لئے انہیں کچھ وقت بھی درکا ر ہوگا۔زیادہ دور کی بات نہیں ہے۔میاں برادران اپنے پچھلے دور حکومت کے بارے میں بھی یہی کہتے پائے گئے تھے کہ ہم تو ملک کو ایشیا کا ٹائیگر بنا رہے تھے کہ مشرف نے ترقی کی طرف گامزن پہیہ جام کر دیا تھا۔وہ بھلکڑ عوام سے یہ کہتے ہوئے اس حقیقت کو بھی بھول جاتے ہیں کہ ان کی بیڈ گورننس نے ملک کی معیشت کو بنک کرپسی کے دھانے پر پہنچا دیا تھا۔

جسے سہارا دینے کے لئے انہیں قوم سے ”قرض اتارو ، ملک سنوارو “ کے نام پر مدد لینا پڑی تھی۔بہر کیف آ ٹھ دس سال کی فوجی آمریت کے بعد ، ایک بار پھر یہی عوام ہوں گے اور یہی شریف برادران ہوں گے۔جو کہیں گے،”ہم تو ملک کو ترقی کے راستے پر لے جا رہے تھے۔کچھ ملک دشمن طاقتو ں نے رکاوٹیں کھڑی کر کے ترتی کا پہیہ جام کر دیا تھا۔“ اورہم مو منین پاکستان، چوتھی بار ایک اچھی طرح دیکھے بھالے سوراخ سے ڈسوانے کے لئے تیار ہو جائیں گے اور آج کی اندھیر نگری کے حالات یکسر بھول جائیں گے۔

بھول جائیں گے کہ عدل و انصاف کا کیا حال تھا۔
عالم ہے مکدر کوئی دل صاف نہیں ہے
اِس عہد میں سب کچھ ہے پرانصاف نہیں ہے (میر انیس )
حالانکہ انصاف کے علاوہ سب کچھ بھی میر انیس ہی کے زمانے میں رہا ہو گا۔اِس دور میں تو غریب فاقوں سے مر رہے ہیں اور فاقوں کے ساتھ ساتھ غریب کو تو انصاف بھی میسر نہیں ہے۔ عدل و انصاف کے حوالے سے اس سے زیادہ شرمناک بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ گاڑیوں کے شیشے توڑ نے والے گلو بٹ کو تو سزا مل گئی ہے اور ملنی بھی چاہیے تھی،لیکن ستر اسی انسانوں کو زخمی کرنے اور ۱۴ معصوم شہریوں کے قاتلوں کے خلاف ”ایف۔

آئی۔آر “ تا حال عدل و انصاف کی منتظر ہے۔؟
میاں محمد نواز شریف نے سیاست میں بس ایک ہی بات سیکھی ہے۔ اپنے خلاف ہر الزام کے جواب میں سکہ بند مدبروں کی طرح خاموش رہنا ۔ لیکن یہ نہیں کہ وہ اپنے مخالفوں کو معاف کر دیتے ہیں۔معاف ہر گز نہیں کرتے،اپنے مخالفوں کو جوا ب دینے کے لئے انہو ں نے پوری ایک فوج رکھی ہوئی ہے اور میاں نواز شریف کے وہ جانباز عمران خا ن کی تلخ نوائی پر طرح طرح کے اعتراضات اٹھاتے ہیں۔

لیکن خود پیپلز پارٹی کی حکومت کے اختتامی دور میں، الیکشن مہمات کے دوران اپنے دامن سے فرینڈلی اپوزیشن کے داغ دھونے کے لئے کیسی بھیا نک اپوزیشن کرتے رہے ہیں۔کیا عمران خان کی تلخ گوئی کی کہانیاں بیان کرنے والے وہ سارے تماشے بھول گئے ہیں۔چھوٹے میاں صاحب مائیک توڑتے ہوئے کہا کرتے تھے۔”میں ز رد ا ر ی کو گلے سے پکڑ کر لاہور اور لاڑکانہ کی گلیوں میں گھسیٹوں گا۔

“ذرا غور فرمائیں، گلے سے پکڑ کر پاکستا ن کے صدر کو گھسیٹا جا رہا تھا۔زرداری تو اِس وقت بھی لندن میں دو تین دن پہلے تک عمران خان کے خلا ف ان کے مشوروں میں شریک تھے۔جب کہ عمرا ن خان نے ایک بار بھی میاں برداران کو گلے سے پکڑ کر گلیوں میں گھسیٹنے کی بات نہیں کی، وہ صرف ان کی غضناک کرپشن کی بات کرتے ہیں اور ان سے اپنے اثاثے ڈکلیئر کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔


جس بات میں وزن نہ ہو ، وہ بچکانہ اور بے تکلف دوستوں کی محفل میں احمقانہ بات کہلاتی ہے، چونکہ یہ دوستوں کی محفل نہیں ، ایک اخبار کی محفل ہے اس لئے میں بچکانہ ہی کہوں گا۔ مسلم لیگ (ن) کی دم توڑتی ہوئی سیاسی بساط کے پیادوں کا یہ کہنا کہ عمران خان کا دھرنا دم توڑ چکا ہے۔ دھر نے میں صرف چار پانچسو لوگ رہ گئے ہیں ۔ بجا ، تسلیم کہ دھرنے میں وہ پہلے سا ہجوم نہیں رہا۔

لیکن اس حقیقت کو کون جھٹلا سکتا ہے کہ دھرنا اپنا کام کر چکا ہے۔قوم کے لئے بیداری کا جو پیغام دینا مقصود تھا،وہ قوم کے بچے بچے تک پہنچ چکا ہے۔ اب تو بس وہی کھیل رہ گیا ہے، جسے راقم اپنے کالم ’ اپنی اپنی ہمت ہے ‘ میں لکھ چکا ہوا ہے۔ اور یہ مت بھولئے کہ اب دھرنوں کی جگہ جلسوں نے لے لی ہوئی ہے، جن میں لا کھو ں لوگ شر یک ہو رہے ہیں۔جس کے جواب میں (ن) لیگ کے پیادے کہتے ہیں”جلسوں کا کیا ہے ؟ سید عطا اللہ شاہ بخاری کے جلسوں میں بھی بے شمار لوگ جایا کرتے تھے۔

جبکہ عطا اللہ بخاری کہا کرتے تھے۔ سننے مجھے آتے ہیں اور ووٹ مسلم لیگ کو دے دیتے ہیں۔“ اب اِس موازنے کو بچکانہ موازنے کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے ؟ ،سید عطا اللہ شاہ بخاری اپنے وقت کے ایک عظیم خطیب تھے۔ لیکن اُن کا مقابلہ بانی ِ پاکستان حضرت قائد اعظم  سے تھا۔جن کے بارے میں اپنے پچھلے کالم با عنوان ’ علامہ اقبال  کا ۱یک سو ۳۷ وآ ں یوم ولادت ‘ میں لکھ چکا ہوں۔

جب کہ عمران خان کو تقر یر کرنے کا فن تک نہیں آتا۔جو پاکستانیوں کے ہجوم کو’ میرے پاکستانی بہن بھائیو ‘ کے بجائے ’میرے پاکستانیو‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں اور نہ ہی انہیں سیاست آتی ہے۔ان کے پاس بس قائد اعظم ہی کی طرح فقط غریبان وطن سے اخلاص کا خزانہ ہے اور اُن کا مقابلہ شریف برادران سے ہے۔جن کے بارے میں قوم جان چکی ہے کہ انہوں نے قوم و ملت کے لئے کچھ نہیں کیا۔

سوائے بے رحم لوٹ کھسوٹ سے اپنی بیسوں نسلوں کے لئے بہت کچھ بنا نے کے۔ عمران خان کا مقابلہ پرویز رشید جیسے چرب زبانوں سے ہے ۔ جو بات کرتے ہوئے احوال واقعی کی با لکل پروا نہیں کرتے۔مثلاً ان کا ایک نیا فرمان جاری ہوا ہے کہ پولیس کو” عمران خان کے لئے وار نٹ گرفتاری پر عمل کرنا چاہیے۔“ کوئی اس چرب زبان سے پوچھے۔ سانحہ ماڈل ٹاوٴن کے ملزموں کے خلا ف ایف۔

آئی۔آر کا کیا بنا ہے ؟ پولیس اس پر عمل کیوں نہ کرے ؟ بس تو عدل و انصاف کی اِسی تذلیل نے قوم کو بیدار کر دیا ہے۔
رہی یہ بات کہ عمران خان کی تحریک دم توڑ چکی ہے تو پھر اس بات کا جواب کس سے لیں کہ میاں صاحب اپنے بے شمار نو رتنوں کے ساتھ با شمول اپوزیشن اور ان کی اتحادی جماعتوں کے لیڈران کے لندن میں بیٹھ کر کیا مریخ پر کمند ڈالنے کا کوئی منصوبہ بنا رہے ہیں؟ وہ بھی غریب قوم کے خرچ پر۔

وزیر اعظم صاحب سندھ بھی پاکستان ہی کا حصہ ہے۔جہاں لوگ فاقوں سے مر رہے ہیں اور آپ لندن جیسے مہنگے شہر کے فائیو سٹار ہوٹلوں میں حکومت چلانے کے جادوئی نسخے تلاش کر رہے ہیں۔اب زرداری صاحب نے بھی اپنے پارٹی ممبران کی میٹنگ لندن میں کال کر لی ہے۔ شرم مگر ہم کو نہیں آتی۔
عمران خان کے خلاف بھانت بھانت کی بولیاں سننے کو ملتی ہیں ، سوال ہے کیوں ؟عمران خان کا قصور کیا ہے ؟فقط اتنا کہ وہ خونخوار شیر کے مُنہ سے بکری کے بچے ( غریب عوام ) کو بچانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور اندھیر نگری چوپٹ راج میں اندھیروں کی دیواروں سے انصاف کے لئے ٹکریں مار رہے ہیں ۔

ظلم خدا کا ،اپنی دانشوری کے چھینٹے اڑانے والے کئی دانشور عمران خان کی برائیوں میں مسلسل ایک ہی لکیر پیٹتے نظر آ رہے ہیں۔کہ ایک نیا پاکستان بنانے کے داعی عمران خان نیا پاکستان کیسے بنائیں گے ؟ جب کہ ان کے ساتھ وہی اسٹیٹس کو کے لوگ کھڑے ہیں۔جس کا جواب میں اس سے پہلے بھی بڑی تفصیل کے ساتھ دے چکا ہوں کہ قائد اعظم کو بھی شکایت تھی کہ میری جیب میں کچھ کھوٹے سکے ہیں ۔

لیکن ان کھوٹے سکوں کی موجودگی میں جب پاکستان بن گیا تھا تو عمران خان کا اک نیا پاکستان بھی بن جائے گا۔ انشا اللہ! ساری بات لیڈر شپ کے اخلاص پر ختم ہوتی ہے۔ اگر آپ کی سوچ پر جانب داری کی چھاپ نہیں ہے اور آپ فقط پاکستان اور پاکستان کے غریب لوگوں کے نمائندہ ہیں تو کیا بار بار آزمائے ہوئے مُنہ کالے لوگوں کے مقابلے میں ایک بار عمران خان کو موقعہ دینے کی سوچ زیادہ مناسب نہیں ہے ؟کیا عمران خان کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے لئے حکمران ہی کم ہیں ؟جو انصاف نہ دینے کی ہٹ دھرمی پر قائم ہیں اورعمران خان کے ہر مطالبے میں اپنے گھریلو آئین، گھریلو آئین اس لئے کہ اُس موم کی ناک جیسے آئین کا اطلاق خود ان پر نہیں ہوتا، کے نام پر رکاوٹ کھڑی کر دیتے ہیں۔

مثلاً الیکشن ۲۰۱۳ ء ء کی جانچ پڑتال کے لئے عمران خان نے جوڈیشنل کمیشن کی معاونت کے لئے گلو بٹو ں پر مشتمل پولیس کے بجائے آئی۔ایس۔آئی اور ایم۔آئی کا نام لے کر گویا مسلم لیگ (ن) کی دم پر پاوٴں رکھ دیا ہے۔ سب شور مچا رہے ہیں کہ عمران خان جو ڈیشنل کمیشن میں فوجی اداروں کو بٹھانا چاہتے ہیں۔حقائق کو مسخ کر کے پیش کرنا اور ڈھٹائی کی آ خری حد تک بے شرمی کا مظاہرہ کرنا موجودہ حکو مت کا وطیرہ بن چکا ہے۔

سب جانتے ہیں۔کسی بھی مقدمے میں تفتیشی کار وائی پولیس کے فرائض میں آتی ۔ کسی قتل کے مقدمے میں تفتیش کا کام پولیس کرتی ہے اور پولیس کی تفتیش کی روشنی میں منصف انصاف کر تے ہیں۔ عمران خان نے پولیس کا کام آئی۔ایس۔آئی اور ایم۔ َآئی سے لینے کے لئے کہا ہے۔ انہیں جوڈیژنل کمیشن میں بٹھانے کی بات نہیں کی۔ پو لیس کے ادارے کو خراب کر کے بے طوقیر بنانے والے تو خود میاں برادران ہیں۔

عمران خان کے بارے میں یہ شور مچا کر کہ وہ جو ڈیشنل کمیشن میں فوجی اداروں کو شامل کر کے آئین توڑ رہے ہیں۔حکومتی کارند ے سر بازار ننگا کیوں ہو رہے ہیں ؟
میں اکثر تواریخی واقعات کو دھراتا رہتا ہوں کہ پانی کا قطرہ بھی اگر پتھر پر مسلسل گرتا رہے تو پتھر میں بھی سوراخ ہو جاتا ہے۔عدل و انصاف کے حوالے سے خالد بن ولید  کا زیر نظر واقعہ اس سے پہلے بھی اپنے کسی کالم میں لکھ چکا ہوا ہوں۔

جب انہوں نے ایران جیسی اپنے وقت کی بہت بڑی طاقت کو فتح کیا تو ایران کے ایک کمانڈر سے کہا۔” تم کیا سمجھتے تھے کہ تم ہمیں شکست دے لو گے ؟ تم نے دیکھا نہیں کہ ہمارے ہاں عدل و انصاف کا نظام کتنا بے نظیر ہے۔“ ذرا غور فرمائیں، حضرت خالد بن ولید  نے اپنی فتح کو اپنی فوجی طاقت سے منسوب نہیں کیاتھا۔اپنے نظام عدل و انصاف سے منسوب کیا تھا۔

ہمارے ہاں عدل و انصاف کے محافظ ادارے کہاں سو رہے ہیں۔غیر مسلم اقوام ہم مسلمانوں کے اوصاف کو اپنا کر انتہائی عزت مندانہ زندگی بسر کر رہی ہیں اور ہم مسلمان اپنے اوصاف سے محروم ہو کر ذلت و رسوائی کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور ہمیں ذلت و رسوائی کے گڑھے میں پھینکنے والے ہمارے لیڈر ہیں۔عدل و انصا ف ہی کے حوالے سے دوسری جنگ عظیم میں چرچل کا ایک قول بھی بے محل نہیں ہو گا۔

چرچل نے بھی اپنے عدل و انصاف ہی کو اپنی طاقت بناتے ہوئے کہا تھا۔” اگر ہمارے ہاں عدل و انصاف زندہ ہے تو پھر ہمیں دنیا کی کوئی بھی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔“ برطانوی وزیر اعظم کے اس قول کی تفصیل بھی راقم اپنے کسی کالم میں لکھ چکا ہوا ہے۔ لیکن چونکہ ہمارے سبھی ذمہ دار اداروں ، بشمول عدل و انصاف کے ادارے پرایک آسیب کا سایہ بتایا جاتا ہے۔

جس کی موجودگی میں کوئی بھی ادارہ اپنا کام انصاف کے ساتھ نہیں کر سکتا۔طارق ملک کی مثال ہمارے سامنے ہے۔خیر وہ تو ایک پرانا واقعہ ہے۔آج کے نام نہاد جمہوری دور میں آے۔آر۔وائی ٹی۔وی کے” کھرا سچ “ والے مبشر لقمان پر جو بیتی ہے۔۱۴ معصوم شہریوں کے قاتلوں کو چھوڑ کر جو کچھ گلو بٹ پر بیتی ہے۔یہ سب ایک ایسا آئینہ ہیں۔جن میں پاکستان کی کے مستقبل کی شکل بڑی بھیانک نظر آتی ہے۔
بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے
تم اچھے مسیحا ہو شفا کیوں نہیں دیتے
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :