زندگی گزارنے کا فن !

جمعہ 14 نومبر 2014

Molana Shafi Chitrali

مولانا شفیع چترالی

زندگی میں انسان بہت کچھ سیکھتا ہے یا یوں کہنا چاہیے کہ زندگی انسان کو بہت کچھ سکھادیتی ہے۔ حضرت انسان نے اپنی ضروریات کی تکمیل اور خواہشات کی تسکین کے لیے مختلف ایجادات واختراعات کیں اور علوم وفنون کا ایک جہاں آباد کیا۔ ہر انسان اپنی فطری استعداد یا طبعی میلان کے مطابق کسی نہ کسی فن، پیشے اور شعبے سے وابستہ ہے۔ آج کی دنیا اختصاص (اسپیشلائزیشن) کی دنیا ہے، یہاں ہر شعبے اور ہر فن میں ایک سے ایک ماہر موجود ہے۔
یہ علوم وفنون زندگی کا حصہ اور اسے آسودہ بنانے میں ممد ومددگار ثابت ہوتے ہیں، لیکن اس بات پر شاید ہم کم ہی غور کرتے ہوں کہ زندگی گزارنا بجائے خود ایک فن ہے، جس کو باقاعدہ طور پر سیکھنے اور سکھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ روئے زمین پر جتنے بھی انبیاء کرام تشریف لائے اوربزرگان دین و مصلحین گزرے ہیں سب نے بنیادی طور پر انسانیت کو زندگی گزارنے کا فن ہی سکھایا ہے۔

(جاری ہے)

جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ مجھے معلم بناکر بھیجا گیا ہے اور میں مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے آیا ہوں۔ یہ اس بات کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ انسان کو انسانیت اور اخلاق کی تعلیم کار نبوت کا اہم ترین حصہ ہے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی کے ہرہر شعبے اور ہر ہر لمحے سے متعلق صحابہ کرام کی تربیت فرمائی، یہاں تک کہ مشرکین مکہ نے ایک دفعہ بطور طعنہ واستہزاء صحابہ سے پوچھا کہ کیا تمہارے پیغمبر تمہیں ہر چیز سکھاتے ہیں یہاں تک کہ رفع حاجت کرنا بھی؟ تو حضرت سلمان فارسی نے فخریہ انداز میں جواب دیا کہ جی ہاں !ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ہر چیز سکھاتے ہیں، یہاں تک کہ استنجاء وطہارت کے طریقے بھی۔
شاید اسی بناء پر کہا جاتا ہے کہ ایک کامیاب راہنما درحقیقت ایک اچھا معلم ہوتا ہے ،جو اپنے پیروکاروں کو زندگی کے آداب اور کامیاب طرز حیات کے گر سکھاتا ہے۔ ہمارے مسلم معاشروں میں تصوف کے جتنے بھی سلاسل ہیں، یہ بھی درحقیقت انسانوں کی روحانی واخلاقی تعلیم وتربیت کی درس گاہیں ہیں۔ ان درس گاہوں میں انسان کو توکل، اخلاص، صبر، سخاوت، برداشت، تواضع، اخلاق، جذبہٴ خدمت، ایثار اور اعلیٰ ظرفی جیسی ارفع اقدار سکھائی اور عملاً بتلائی جاتی ہیں اور تکبر، غرور، بخل، ریا، نمودونمائش، عدم برداشت، حرص وطمع اور نفس پرستی وشکم پروری جیسے اوصاف رذیلہ سے بچاوٴ کے طریقے سکھائے جاتے ہیں۔ہمارے ہاں کے خاندان نظام میں بھی اولاد کی اخلاقی تربیت کو کلیدی اہمیت حاصل رہی ہے۔ اچھے خاندانوں میں بچوں کو بہت چھوٹی عمر میں اخلاق وآداب، شرم وحیا، وضع داری وشرافت، زبان و ادب، مہمان نوازی اور خدمت گزاری کے قرینے سکھائے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں اخلاقی ومعاشرتی بگاڑ ابھی اس سطح تک نہیں گیا، جوبعض معاصر معاشروں میں دیکھا جاتا ہے۔
مگر بایں ہمہ مرورزمانہ کے ساتھ ہماری ہاں بھی اخلاقی قدریں آہستہ آہستہ مٹتی جارہی ہیں اور خاندان کا ادارہ کمزور ہوتا جارہا ہے۔ بلاشبہ یہ عالمگیریت اور ذرائع ابلاغ کی برق رفتار ترقی کا ایک منطقی نتیجہ ہے۔ آج ہمارے ہاں بھی طلاقوں کی شرح خطرناک حد تک بڑھتی جارہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ والدین اپنی اولاد کے لیے مادی آسائشوں، جدید تعلیم اور سہولیات زندگی کی فراہمی پر تو پوری توجہ دیتے ہیں، مگر ان کی اخلاقی وروحانی تربیت کی طرف بہت کم کسی کا ذہن جاتا ہے۔ بیٹے کو شادی سے پہلے اپنے پاوٴں پر کھڑا کرنے، بینک بیلنس، بنگلہ ،گاڑی فراہم کرنے کے لیے ہر ممکن جتن کیے جاتے ہیں، لیکن یہ سکھانے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی کہ شادی کے بعد اسے اپنے گھر میں کیسے رہنا ہے، اپنی بیوی کے ساتھ کیا برتاوٴ کرنا ہے،بچوں کی تربیت کیسے کرنی ہے۔اسی طرح بیٹی کو سسرال والوں کے طعنوں سے بچانے کے لیے زیادہ سے زیادہ جہیز فراہم کرنے اور لڑکے والوں کے تمام مطالبات پورے کرنے پر بسا اوقات پورا کا پورا خاندان کھپ جاتا ہے، مگر بیٹی کو نئے گھر میں زندگی گزارنے، شوہر، سسرالی رشتہ داروں کے ساتھ برتاوٴ کے طریقے نہیں سکھائے جاتے، بلکہ اب تو گھرداری کے بنیادی تقاضوں کی تربیت کی بھی ضرورت نہیں سمجھی جاتی۔ بیٹی کے پاس کسی اعلیٰ یونیورسٹی کی ڈگری تو ہوتی ہے لیکن زندگی کے سردوگرم حالات سے نمٹنے کاسلیقہ نہیں ہوتا۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہنی مون پیریڈ گزرنے کے بعد زندگی کے تلخ حقائق منہ کھولے سامنے آجاتے ہیں اور بہت چاوٴ اور محبت سے کیے گئے رشتے بھی ان حقائق کی تلخیوں کے زہر کی خوراک بن جاتے ہیں۔ یہ ہمارے سماج میں ایک گمبھیر مسئلہ بنتا جارہا ہے۔
اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ہم جدید ایجادات اور گلوبل کلچر کی مخالفت ومزاحمت نہیں کرسکتے، نہ ہمیں ایسا کرنے کی ضرورت ہے، اس کے مقابلے کے لیے ہمارے پاس اسلام کی ارفع روحانی تعلیمات موجود ہیں جنہیں ہم انہی جدید ذرائع کی مدد سے دنیا تک پہنچا سکتے ہیں اور خود بھی ان پر عمل کرکے اپنی زندگیاں سنوار سکتے ہیں ۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ان تعلیمات کی پیشکش کے انداز میں ہم دورجدید کی زبان اور حالات کو ملحوظ رکھیں۔ اس سلسلے میں ماشاء اللہ بہت سے ادارے اور افراد سوشل میڈیا پر بہت اچھا کام کررہے ہیں۔ یہ بات نوٹ کی گئی ہے کہ سوشل میڈیا پر سماجی، اخلاقی اور معاشرتی مسائل سے متعلق راہنمائی پر مبنی مواد کو حوصلہ افزا پذیرائی مل رہی ہے۔فیس بک پر ”مجلس علمی“ کے ہمارے دوستوں کی پوسٹوں کی زبردست مقبولیت اور اس کی واضح دلیل ہے۔ علاوہ ازیں بہت سے نوجوان علماء کی جانب سے سماجی، معاشرتی واخلاقی مسائل پر اچھی اچھی کتابیں بھی مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہمارے عزیز دوست انورغازی کی نئی تصنیف ”خاندانی نظام ایسے بچائیے“ بھی ہے۔ ہم میں سے ہر شخص روزانہ کچھ نہ کچھ پڑھتا ہے، کتابیں، رسالے، اخبارات اور اب سوشل میڈیا معلومات کا اہم ذریعہ ہیں، لیکن ایسے لوگ کم ہوتے ہیں جو روزانہ کے مطالعے میں حاصل ہونے والی معلومات کو جمع ، محفوظ اور مرتب کرنے کا ذوق رکھتے ہوں۔انورغازی کے کمالات میں سے ایک بڑا کمال یہ ہے کہ وہ بہت پڑھتے ہیں اور جو کچھ پڑھتے ہیں، اس سے بہت کچھ اخذ بھی کرتے ہیں۔ ان کا گھر، دفتر، کمپیوٹر یہاں تک کہ ان کی جیبیں بھی اخباری تراشوں اور معلومات کے انبار سے بھری ہوتی ہیں۔ وہ ان معلومات کو جمع کرتے اور سلیقے سے رکھتے ہیں اور پھر ترتیب دے کر کالموں اور کتابوں کی شکل میں قارئین کے ذوق مطالعے کی نذر کرتے ہیں۔
”خاندانی نظام ایسے بچائیے“ کے نام سے ”زندگی ایسے گزارئیے“ سیریز کی ان کی نئی کتاب بھی ان کے اسی ذوق اور محنت کا شاہکار ہے۔ اس کتاب میں خاندان کے ادارے کو مضبوط بنانے، بچوں کی تربیت، میاں بیوی کے حقوق، کامیاب زندگی کے اصول، جدید سماجی مسائل، فحاشی وعریانی کے فتنے اور سماج پر پڑنے والے اس کے اثرات، مغربی کلچر کی تباہ کاریوں سمیت درجنوں اہم موضوعات پر قابل مطالعہ مواد موجودکیاہے۔ کامیاب عائلی وخاندانی زندگی گزارنے کے خواہش مند حضرات وخواتین کے لیے یہ ایک اچھا تحفہ ہے۔

قارئین ! آپ راقم سے فیس بک پیج shafi chitrali پر بھی رابطہ کرسکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :