محکمہ صحت کے حکام بالا کے لئے

بدھ 12 نومبر 2014

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

وہ دن مجھے اچھی طرح یاد ہے جب ایک دوست کی عیادت کے لئے مئیو ہسپتال کی ایمرجنسی میں کھڑا تھاجہاں ریسکیو اہلکار ذہنی معذور ایک ایسے شخص کو وہاں لائے جو شہر کی ایک مصروف شاہراہ کو پارکرتے ہوئے تیز رفتار گاڑی کی ٹکڑ سے شدید زخمی تھااور تکلیف کی شدت سے اس کی آواز بھی اس کا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔15منٹ سے سٹریچر پر پڑے ہاتھ کے اشاروں سے ڈاکٹروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی اپنی سی کوشش کر تے اس شخص کی بے بسی کو دیکھتے ہوئے میں نیڈیوٹی پر موجود ڈاکٹرکو اس کا معائنہ کر نے کی درخواست کی، مسیحا کے روپ میں جلاد نما اس شخص نے پہلے تو میری بات بھی سُنی ان سُنی کر دی لیکن میرے بار ہا اصرار پرچہرے پر رعونیت اور زبان میں بد اخلاقی کا زہر بھرے لہجے میں ”اس کے پاس اپنے کسی عزیز کا رابطہ نمبر نہیں ہے ،جب تک اس کا ئی عزیز یہاں نہیں آتا ہم کچھ نہیں کرسکتے“ کا جواب دیا۔

(جاری ہے)

اس سے پہلے کہ میں اس کی اس بھونڈی دلیل کا جواب دیتاتو اس نے وارڈ بوائے کو یہاں موجود تما م لوگوں کو باہر نکالنے کے احکامات صادر کر دئیے۔ ہسپتال کے تقدس اور یہاں موجود مریضوں کا خیال رکھتے ہوئے مجبوراََ وہاں سے نکلنے کو ہی مقدم جانا لیکن آج بھی جب میں اس منظر کو یاد کرتا ہوں تو مریضوں کی بے بسی پر آنسو بہانے کو جی چا ہتا ہے۔آج یہ واقعہ مجھے اس وجہ سے بھی یاد آگیاکہ پچھلے دنوں میں یکے بعد دیگرے لاہور کے سر کاری ہسپتالوں کی حالت زار کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے جہاں معاملات جوں کے توں ہیں۔

ابھی کل ہی کی بات ہے کہ ایک دوست پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں مریضوں کو پیش آنے والی مشکلات کا ذکر کر رہے تھے جن کے بہنوئی بر وقت علاج نہ ہو نے کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ اکثر پوری ایمرجنسی میں ایک ڈاکٹر مو جود ہو تا ہے ۔صبح سے شام اور شام سے صبح ایمرجنسی سے لیکر ہر ڈیپارٹمنٹ تک مریض ذلیل و خوار ہوتے دیکھا ئی دیتے ہیں۔

مریضوں اور ان کے لواحقین کی عزت نفس کو مجروح کر نے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی،افسران بالا کو بار ہا عملے کی بدتمیزی اور جارحانہ رویہ کی شکایات کر نے کے بعد بھی کوئی نتیجہ بر آمد نہیں ہوتااور ہو بھی کیسے ؟یہاں تو آوے کا آوا ہی خراب ہے۔
قارئین محترم!حکومت کی طرف سے اور بالخصوص خادم اعلیٰ پنجاب کی طرف سے ہر سال صحت کے بجٹ میں اضافہ ہو تا ہے اور اس شعبے میں بہتری لانے کے بلند و با لا دعوے بھی کئے جاتے ہیں لیکن بہتری تو دور کی بات ہر سال محکمے کے حا لات بد سے بد تر ہوتے جا رہے ۔

پروفیسر صاحبان اپنے پرائیویٹ کلینک کوآباد کر نے اور نوٹ چھاپنے کے لئے غریب مریضوں کو ٹرینی ڈاکٹرز کے سپرد کر دیتے ہیں اور پھر ڈاکٹرز سے لیکر وارڈ بوائے ،نرس سے لیکر لیبارٹری ٹیکنیشن تک تما م لوگ نفرت اور ذلت کے ملے جلے لہجے میں مریض سے ایسے پیش آتے ہیں کہ اس کا مرض کم ہو نے کی بجائے مزید بڑھتا چلا جا تا ہے۔
قارئین !کالم کو لکھنے سے کچھ دیر پہلے ہی خادم اعلیٰ کی سر پرستی میں چلنے والے اتفاق ہسپتال میں ایک مریض کی عیادت کر کے آیا ہوں۔

آدھ گھنٹہ یہاں قیام کرنے کے دوران بہت سی باتیںآ شکار ہوئیں جس میں سے سب سے اہم یہ ہے کہ یہاں آنے والے زیادہ تر مریض ایسے ہیں جنہیں سر کاری ہسپتالوں کے ڈاکٹروں نے جواب دے دیا ہو تا ہے لیکن یہاں آنے کے بعد ایسے 95فیصد مریض شفا یا ب ہو کے اپنے گھروں کو جاتے ہیں۔ اس کے پیچھے جو نسخہ ء کیمیا کار فر ما ہے وہ یہاں کے ڈاکٹروں کی نیک نیتی، عملے کا جذبہ خدمت خلق سے سر شار ہو نا، مریضوں کو ہمت ،حوصلہ اور امید کے ساتھ ان کی دلجوئی کر نا، انتظامیہ کی طرف سے سخت چیک اینڈ بیلنس اور مر یض کے لواحقین کی شکایت کے فوری ازالہ کے خوف سے تمام ملازمین کا اپنی اپنی ذمہ داری کو پوری کر نا شامل ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ سر کاری ہسپتالوں میں اس سے زیادہ افرادی قوت،سر مایہ، مشینری اور اراضی ہے لیکن یہاں اخلاص،اخلاق اور جذبہ خدمت انسانی کا قحط ہے۔اگر خادم اعلیٰ پنجاب، سیکریٹری صحت بڑے بڑے دعووں کی بجائے نیک نیتی اوجذبہ ء خلوص کیساتھ صرف ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل سٹاف کو مریضوں کے ساتھ احسن سلوک سے پیش آنے کا پابند بناتے ،پروفیسر صاحبان کو اپنی ڈیوٹی کے اوقات میں ہسپتال میں رہنا لازم قرار دیتے ،چیک اینڈ بیلنس کا سخت نظا م بناتے اور مریض کی شکایت کا فوری ازالہ کرتے محکمہ صحت کی چندکالی بھیڑو ں کو فارغ کرتے ہوئے ”اتفاق ہسپتال ماڈل“ کو تما م سر کاری ہسپتالوں میں نافذ کر دیں تو مجھے یقین ہے کہ اس دن سے سر کاری ہسپتالوں کی کار کردگی میں انقلاب آجائے گا۔

جس کے نتیجے میں آج ان ہسپتالوں کے بر آمدوں وارڈوں اور ایمرجنسیوں میں علاج کی خاطر سسکتے، ذلیل ہوتے اور مرتے لوگ، کل یہاں سے امید، ہمت اور نئی زندگی کی نوید لے کر جا سکتے ہیں۔ کاش کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :