ڈومور ماننے کا انجام
ہفتہ 8 نومبر 2014
(جاری ہے)
دوسری طرف پاکستان نے اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے امریکی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کرکے احتجاج کیا اور پاکستانی قربانیوں کا ذکر کیاہے۔اور ایک خاموشی چھا گئی ہے ہونا تو یہ چاہی تھا کہ سیاسی پارٹیوں سے لیکر تمام محب وطن افراد اس کا جواب دیتے مگر افسوس ہم فارغ کہا ہیں؟ کئی با ر مختلف فورمز پر یہ بات سامنے آئی کہ اب وقت آگیا ہے کہ اس امریکی مفادات کی جنگ سے باہر آجانا چاہی ہے تاکہ پاکستان اپنے اندرونی معاملات پر توجہ دے سکے مگر ہر بار ایک طبقے نے اسے پاکستان کی جنگ قرار دیا جس کی وجہ سے آج خطے میں ہمارے دوست کم اور دشمن بڑھتے جارہے ہیں اور جن پتوں پر ہمشہ تکیہ رہا ہر بار کی طرح اس بار بھی دھوکہ دے گیا اور ہم ہیں کہ اب بھی اس کی محبت میں سرشار ہیں۔
اور یہ بھی حقیقت ہے امریکہ نے پاکستان کی ہر حکومت خواہ وہ جمہوری تھی یا آمرانہ اسے اپنے معاملات میں اس قدر زیادہ الجھائے رکھا کہ وہ ملک کی تعمیر و ترقی کے پروگراموں میں تسلسل برقرار ہی نہ رکھ سکی۔ امریکی خوف سے ہمارے حکمران ہمیشہ یہ سوچتے رہے کہ امریکہ کو کیسے راضی رکھا جاسکتا ہے اور جس نے ملک اور قوم کے بارے میں سوچا اور اس سوچ پر عمل کرنا چاہا اسے راستے سے ہٹا دیا۔
امریکہ کی وجہ سے پاکستان کا امن و امان تباہ ہوگیا۔ ہمارے ہزاروں فوجی اور ہزاروں شہری شہید ہوئے۔ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کا سانحہ عظیم ہوا جس کی وجہ سے ان گنت نوجوان خودکش بمبار بن گئے۔ ہماری زراعت تباہ ہوگئی ‘ ہماری صنعتی ترقی کا پہیہ جام ہوگیا۔ ہماری معیشت اوندھے منہ جاگری۔ ہمارے عوام کے چہروں سے مسکراہٹ چھن گئی عام آدمی روٹی کو ترسنے لگا ‘ لوگوں کے لئے زندگی ایک وبال بن گئی ۔ اہم شخصیات کی زندگیاں خطرے میں پڑگئیں اور وہ حفاظتی حصار میں
محصور ہوکر رہ گئے۔ ہمارے کئی جید علماء اور سیاستدان خودکش دھماکوں میں مارے گئے۔۔ ہمارے بزرگوں کے مزار تک محفوظ نہ رہے اور جو کسر خودکش بمباروں نے چھوڑی وہ امریکہ نے ڈ رون حملوں کے ذریعے پوری کر دی اور جب یہ سب کچھ ہوگیا تو پاکستان کی امداد روک کر حکومت اور عوام کو ایک خوفناک معاشی بحران کی طرف دھکیل دیا گیا اور اب پاکستان کو ہی مورد الزام ٹھرایا جارہا ہے وہگہ کے سے لیکر کراچی تک ہمارے دشمن مصروف عمل ہیں اور اس کے ثبوت بھی کئی بار دیئے مگر پھر بھی ملزم ہم یہ ہے ڈومرر پر نیچے لیٹنے کا انجام ۔یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پاکستان کو آج جتنے بھی مسائل کا سامنا ہے یہ سب امریکہ کی پیداوار ہیں۔ اگر امریکہ ہمارے راہ میں روڑے نہ اٹکتا تو آج پاکستان جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی فوجی اور معاشی طاقت ہوتا۔ ہمارے حکمرانوں کو ملکی وسائل بروئے کار لاکر ملک کی ترقی کے راستے پر گامزن کرنے کا موقع ہی نہ دیا گیا ورنہ پاکستان میں اتنے معدنی وسائل تھے کہ آج ہر پاکستانی خوشحال ہوتا۔
اب جبکہ بہت کچھ برباد ہوگیا ہے تو پاکستانیوں میں یہ احساس فزوں تر ہوتا جارہا ہے کہ اگر ہم نے خود کو امریکی چنگل سے آزاد نہ کرایا تو کچھ بھی نہیں بچے گا۔ ہم گھاس کھالیں گے ‘ پیٹ پر پتھر با ندھ لیں گے۔ فوجی اور اقتصادی پابندیوں کے ساتھ جی لیں گے مگر امریکہ کی غلامی نہیں کریں گے۔ حکومت ایک قدم بڑھائے ‘ گے کیونکہ اب پاکستان کے ایک عام آدمی کو بھی یہ احساس ہوگیا ہے کہ ہماری تمام تر بربادی کا ذمہ دار امریکہ ہے اور اس سے نجات حاصل کرکے ہی ہم نئے سرے سے ایک آبرو مندانہ زندگی کا آغاز کرسکیں گے۔
پاکستانی آرمی چیف کا دورہ افغانستان پاکستان سمیت خطے کے لئے اور بھی اہمیت اختیار کر گیا ہے اور اس دورے سے دونوں ممالک کے درمیان خلیج کم کی جاسکتی ہے مگر اس کیلئے اعتماد کی بحالی اولین شرط ہے جس کے لئے دونوں ممالک کو ایک قدم پیچھے ہٹنا ہوگا کیونکہ ایک جانب اگر امریکہ نے کسر نہیں چھوڑی تو دوسری جانب دوست ملک چین کا حالیہ بیان کہ پڑوسی ممالک افغانستان کے معاملات میں مداخلت نہ کریں بھی معنی خیز ہے کیونکہ چین کے اپنے مفادات بھی ہیں اور وہ نہیں چاہتا کہ سینکیانگ متاثر ہو ۔
اس صورت میں جہاں ہر ایک کو اپنے مفادت عزیز ہیں تو پاکستانی وزارت خارجہ کو بھی اپنی پالیسی میں اپنے مفادات کو ترجیع دینا ہوگی،ورنہ تیزی بدلتی دنیا اور صف بندی جاری ہے ڈپلومیسی میں دوستیاں کے ساتھ ساتھ اپنے مفادات کا تحفظ اولین ترجیع ہوتی ہے اور نیٹو کے انخلا کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال میں ہر ملک افغانستان میں اپنا تحفظ چاہتا ہے بس ایک پاکستان ہے کہ جیسے کہا جارہا ہے کہ پیچھے رہو ورنہ بھارت ایران روس کی مداخلت کوئی ڈھکی چھہی بات نہیں،سب تیزی سے مصروف ہیں بس ایک ہم ہیں کہ ڈنگ ٹپاو پالیسی پر عمل پیرا ہیں احتجاجوں سے بات آگے نکل چکی ہے اب دنیا میں رائے سازی کا وقت ہے جو پاکستان کے مفاد میں ہو سوال یہ ہے کہ موجودہ حکومت اور ریاستی اداروں کو اس کا ادارک ہے بھی؟
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
بادشاہ خان کے کالمز
-
معلومات کے حصول کے حق کا تحقیقاتی صحافت میں استعمال
جمعرات 17 مارچ 2016
-
تقسیم در تقسیم دنیا کا مستقبل
جمعہ 18 دسمبر 2015
-
مشرق وسطی کی جغرافیائی توڑ پھوڑ
جمعرات 5 نومبر 2015
-
وزیراعظم کا دورہ امریکہ اور ڈاکٹر عافیہ
بدھ 28 اکتوبر 2015
-
راکھ کے نیچے آگ کی چنگاریاں
ہفتہ 24 اکتوبر 2015
-
فلسطین سے کشمیر تک مغرب کا دہرا معیار
جمعہ 16 اکتوبر 2015
-
مسلم ممالک پر سپرپاورز کی بمباریاں
جمعرات 8 اکتوبر 2015
-
سانحہ منیٰ اور اس کے اثرات
بدھ 30 ستمبر 2015
بادشاہ خان کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.