گفتار کا غازی بن تو گیا کردار کا۔۔!

اتوار 2 نومبر 2014

Abdul Raheem Anjaan

عبدالرحیم انجان

گفتار کے غازی نے ایک بار پھر اپنی عاالمانہ شخصیت اور اُس کے کردار پر کئی سوالیہ نشانات کے چھینتے لگا لئے ہیں۔ جس کا سب زیادہ دکھ اُن خواتین و حضرات کو ہوا ہے جو پاکستان کے عوام دشمن نظام میں ایک انقلاب برپا کرنے کی امید لے کر کم و بیش دو ماہ سے زیادہ نہ صرف گھروں سے بے گھر ہوئے ، انہوں نے طوفانی بارشوں کے عذاب اور حکومتی بساط کے پیادوں کے یہ طعنے بھی جھیلے کہ وہ گفتار کے غازی کی انقلاب مہم کے لئے "Paid"انقلابیٍ ہیں۔

یہ الزام موسم کی اَذیّت سے بھی زیادہ تکلیف دہ تھا،لیکن اُن انقلاب کے شیدائیوں نے اعَصاب شکن موسم اور حکومتی پیادوں کے جذبات شکن الزامات برداشت کئے۔اُن پر ایک ہی دھن سوار تھی۔ انقلاب ، انقلاب،انقلاب۔۔ اُنہوں نے اپنے ساتھیوں کو شہید ہوتے بھی دیکھا اور زخمی ہو کر ہسپتال میں جانے کے بجائے اُن کے غائب ہونے کا ظلم بھی سنا اور سہا۔

(جاری ہے)

لیکن وہ غریب اپنے مورچے پر ڈَٹے رہے۔

یاد رہے کہ گفتار کے غازی نے اپنے دوسرے کئی دعوں کے ساتھ ایک دعوی یہ بھی کیا تھا کہ میں یہاں اپنی قبر کھودنے کے سامان کے ساتھ اپنا کفن بھی لے کر آیا ہوں،جس دن گفتار کے غازی نے وہی کفن ، اپنی رخصتگی کے سامان میں سنبھال کر رکھتے ہوئے اپنا دھرنا اٹھانے کا اعلان کیا ہے۔ اس دن میں طبعیت کی خرابی کی وجہ سے ہسپتال میں تھا۔لیکن مجھے میرے چند دوستوں نے بتایا ہے کہ گفتار کے غازی کا یہ اعلان کہ تم اپنے اپنے گھروں کو جاوٴ،ہم یہ دھرنا ختم کر رہے ہیں۔

عاشقانِ انقلاب کے لئے بڑا شاکنگ اعلان تھا۔ہجوم میں کافی لوگ زارو قطار روتے ہوئے دیکھے گئے،کچھ خواتین نے تو یہ تک کہا کہ ہم اپنے گھروں کو کس مُنہ سے جائیں ؟ ہمیں تو گھر والے چھتر ماریں گے۔وغیرہ وغیرہ۔
یہ سارا ہنگامہ کھڑا کرنے کی تیاری پکڑنے کے دوران گفتار کے غازی نے اپنے کئی انٹر ویوز میں اِس سوال کے جواب میں کہ آپ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران بھی انقلاب مارچ کو ادھورا چھوڑ کر واپس کینیڈا چلے گئے تھے۔

اب بھی کسی مقام پر واپس تو نہیں چلے جائیں گے ؟ حضرت مولانا ڈاکٹر طاہر القادری اپنے لب و لہجے میں بھر پور اعتماد ، اورسچائی پیدا کرتے ہوئے حتمی لہجے میں فرماتے رہے ہیں کہ میں کینیڈا سے اپنے سارے سامان کے ساتھ ، واپس نہ جانے کے لئے آیا ہوں۔اب یہاں آنے کے بعد انہوں نے سب سے پہلا بیان یہ جاری کیا ہے کہ میں اپنا پاسپوروٹ رنیو کرانے آیا ہوں۔


دھرنا اٹھانے کے بعد موصوف نے پہلے تو یہ کہا کہ میں انگلینڈ جاوٴں گا۔جہاں بے شمار لوگ میری سیاسی پارٹی میں شامل ہونے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔لیکن اس فرمان کے بعد پاکستان سے روانگی سے پہلے اُن کا بیان یہ آیا کہ میں انگلینڈ جانے کے بجائے کینیڈا جاوٴں گا۔ چونکہ انگلینڈ میں میاں شہباز شریف موجود ہیں اور میں نہیں چاہتا کہ اُن سے کسی خفیہ ملاقات کا الزام لگ جائے۔


سوال ہے ؟ اُن لوگوں کا کیا بنے گا جو انگلینڈ میں قادری صاحب کی سیاسی جماعت میں شامل ہونے کے لئے تیار بیٹھے تھے۔محض میاں شہباز شریف کی انگلینڈ میں موجودگی کو جواز بنا کر انگلینڈ نہ جانا ، کچھ عجیب ہی نہیں لگتا، ، دل و دماغ میں یہ سوال بھی اٹھاتا ہے کہ آ خر کچھ تو ہے ، جسے چھپانے کے لئے اتنی احتیاط کی گئی ہے۔ میاں برداران کی تو انگلینڈ میں بزنس ایمپائر ہے، اُس کے علاوہ ہمارے لیڈران پاکستان میں قابل اعتبار میڈیکل سسٹم نہ ہونے کے سبب اکثر میدیکل چیک اَپ کے لئے بھی پ انگلینڈجاتے رہتے ہیں۔

آپ کب تک انگلینڈ نہیں جائیں گے ؟ یہ میڈیکل چیک کے لئے انگلینڈ جانے والی حقیقت کا شرمناک پہلو یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے کسی پیادے سے پوچھ کر تو دیکھیں کہ میاں برادران نے پاکستان کے عام عوام کے لئے حفظان صحت کے نظام میں کیا کار نامہ انجام دیا ہے ؟ وہ پیادہ اپنی چرب زبانی کے جوہر دکھاتے ہوئے آپ کو حفظان صحت کے شعبے میں ترقی کے ایسے ایسے راز بتائے گا کہ آپ دنگ رہ جائیں گے۔


بہر کیف،آپ نے دیکھا اور سنا ہو گا کہ قادری صاحب اپنے انقلاب مارچ کے دھرنے میں خطاب کے دوران پاکستان میں موجودہ نظام کو بدلنے کا انقلاب لائے اور سانحہ ماڈل ٹاوٴن کے شہیدوں کے پس مندگان کو انصاف دلائے بغیروہاں سے نہ ہلنے کے لئے رب کعبہ کی قسمیں اٹھا اٹھا کر میاں صاحب کی جان ِنا تواں پر ظلم ڈھاتے رہے ہیں۔سوال ہے آ خر کس مجبوری کے تحت وہ اپنے رب کعبہ کی قسموں کو بالائے طاق رکھنے پر مجبور ہوئے ہیں ؟ ایک ٹالک شو دیکھتے ہوئے ٹی۔

وی پر یہ اسٹکر دیکھ کر بہت دکھ ہوا کہ ریمنڈ ڈیوث ہی کی طرح سانحہ ماڈل ٹاوٴن کے شہیدوں کا خون بہا بھی دے دیا گیا ہے۔
میرے دل میں قادری صاحب کی عالمانہ قدو قامت کے لئے بڑی عزت ہے۔لیکن کیا کروں اُس عز ت کو اُن کے اعمال کی دیمک چاٹ رہی ۔مجھ جیسے ، رسول اللہ ﷺ کے دَر کے ایک معمولی سے کتے کے لئے قادری صاحب کی رسول اللہ ﷺ کے بارے میں خوابیں اور بشارتیں ہی کافی تھیں۔

مثلاً رسول اللہ ﷺ قادری صاحب سے فرماتے ہیں” قادری میں پاکستان آنا چاہتا ہوں۔میرے آنے کا، کھانے پینے اور رہائش کا بند بست کرو،“ بحوالہ پاکستان ٹی۔وی ۔۔اور یہ آج کی بات نہیں ہے۔راقم اس سے پہلے بھی اپنے کسی کالم میں یہ لکھ چکا ہے کو جو شخص رسول اللہ ﷺ جیسی عظیم ہستی کو اپنی شہرت کے لئے استعما ل کر سکتا ہے۔میں اُس زبان دراز پر بھروسا نہیں کر سکتا۔

ایک خواب میرے قائد، بانی پاکستا ن نے بھی دیکھا تھا اور اپنے قریبی عالم دوست مولونا شبیر عثمانی ( مرحوم مغفور ) سے کہہ دیا تھا۔میری زند گی میں اس خواب کا کسی سے ذکر نہ کرنا۔( آپ اُن کا خواب مولانا شبیر عثمانی کی سائٹ پر دیکھ سکتے ہیں)
بہر کیف، انقلاب مارچ کا دھرنا ختم کرنے کے بعد قادری صاحب فرماتے ہیں۔”میری انقلاب مارچ ابھی ختم نہیں ہوئی ۔

میں اپنی جنگ جاری رکھنے کے لئے واپس آوٴں گا اور سسٹم میں رہ کر جنگ جاری رکھوں گا۔عمران خان پارلیمنٹ کی جن سیٹس سے مستعفی ہو رہے ہیں۔ میں اُن سیٹس پر الیکشن لڑ کر سسٹم میں آوٴں گا۔“ وغیرہ وغیرہ۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ واپس نہیں آئیں گے اور کچھ لوگ کہتے ہیں۔ قادری صاحب کو معلوم ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاوٴن کے بارے میں سچی یا جھوٹی ، جس افواہ نے جنم لیا ہے ۔

اس کو دبانے کے لئے وہ واپس آئیں گے۔لیکن جس طرح ہمارے حکمران پاکستان پر امریکہ کے ڈرون حملوں کے لئے احتجاجی بیان جاری کرنے کی رسمیں ادا کرتے رہے ہیں۔وہ بھی سانحہ ماڈل ٹاوٴن کا ذکر رسماً جاری کرتے رہیں گے، پہلے سے شدید ردِ عمل کا مظاہرہ عملاً نہیں کریں گے۔؛
سوال ہے گفتار کے غازی سسٹم میں کیسے آئیں گے ؟ جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں۔اس کے بعد مجھے بڑی شدت سے اُس دن کا انتظار ہے، جب وہ الیکشن لڑیں اور ۲۰۱۳ کے الیکشن میں، الیکشن کمیشن کی مدد سے ، میاں نواز شریف نے مداریوں والا جو جادوئی ”چرلو“ الیکشن کے نتائج پر پھیرا ہے۔

اگر کسی ڈیل کے تحت اُسی جادوئی ”چرلو“ سے سے قادری صاحب کو جتوانے کی کوشش نہ کی گئی اور الیکشن صاف شفاف ہوئے تو قادری صاحب کے ساتھ ساتھ دنیا کو بھی معلوم ہو جائے گا کہ ایک عالم اور عامل میں کیا فرق ہوتا ہے ؟ اللہ سبحان و تعالیٰ کی قدرت کاملہ سے آگاہی کا علم تو ابلیس کے پاس بھی بہت زیادہ تھا۔ لیکن اُس علم کی اطاعت میں کھوٹ یعنی عمل کرنے کے میدان میں بھٹک کر ابلیس کا کیا انجام ہوا ہے ؟ بتانے کی ضرور ت نہیں۔

آج ہم سب مسلمان اسے شیطان مردود کے نام سے جانتے ہیں۔
عالم اور عامل کے فرق میں علامہ اقبال  نے کیا ہی پیارا شعر کہا ہے۔
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا
اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتار کا یہ غازی تو بنا ، کردار کا غازی بن نہ سکا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :