دکھ کی زبان

اتوار 2 نومبر 2014

Farrukh Shahbaz Warraich

فرخ شہباز وڑائچ

یہ اخبار کی ایک خبر تھی جیسے ہر روز سینکڑوں خبریں ہوا کرتی ہیں،مگر نظر جیسے خبر پر ٹھہر ہی گئی تھی۔یہ خبر تھی ایرانی 26 سالہ لڑکی ریحانہ کے متعلق جسے اپنی عزت کا دفاع کرنا مہنگا پڑا تھا۔دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیموں اور بین الاقوامی کوششوں کے باوجود قتل کے الزام میں تقریباً 7 سال سے قید ریحانہ جباری کو 25 اکتوبر کوایران میں پھانسی دے دی گئی۔

2007ء میں ریحانہ نے سابق اینٹیلی جنس اہلکار مرتضیٰ عبدل علی سربندی کو چھری کے وار سے قتل کر دیا تھا۔ ریحانہ کا کہنا تھا کہ اس نے مرتضٰی کا قتل اپنے دفاع میں کیا تھا ریحانہ جباری کا موقف تھا کہ مرتضیٰ عبدل علی سربندی اسے جنسی زیادتی کا نشانہ بنانا چاہتا تھا اور بقول اس کے اس نے اپنے دفاع میں اس کو چھری مار کر ہلاک کیا تھا۔

(جاری ہے)


ریحانہ نے پھانسی سے پہلے اپنی ماں کو ایک خط لکھ کر اپنی موت کے بعد اپنے اعضاء کو عطیہ کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔

میڈیا اداروں کا کہنا ہے یہ خط اپریل میں ہی موصول ہو گیا تھا،لیکن ایران میں امن کے حامی کارکنان نے یہ خط ریحانہ کو سزائے موت دیے جانے کے ایک دن بعد عام کیا۔انسانیت کی بھی کوئی زبان ہوا کرتی ہے۔انسانیت کا دکھ کسی زبان ،کسی قبیلے،کسی مذہب،کسی فرقے،کسی ذات پات کا محتاج نہیں ہوتا۔ناجانے کس جذبے کے تحت میں نے یہ خط کتنی بار پڑھا،لفظ جیسے میرے پاس سے گزرے جاتے تھے۔

میں اپنی بات کہنے کے لیے لفظ تلاش کرتا رہامگر ذہن جیسے مفلوج ہوگیا ہو۔یہ خط اب تک پوری دنیا میں لاکھوں بار پڑھا گیا۔سچ پوچھیں تو میں تمہید باندھنا چاہتا تھا،میں رائے دینا چاہتا تھا لیکن اس خط نے مجھے اپنے حصار میں لیے رکھا۔الفاظ سچے ہوں تو دل کی گہرائیوں میں اتر جاتے ہیں۔یہ وہ آخری الفاظ ہیں جو ریحانہ نے اپنی موت سے کچھ دن قبل اپنی ماں کے لیے بھیجے تھے۔

مجھے ایسا لگا جیسے لڑکی کے ان االفاظ نے اسے امر کر دیا ہے۔
آئیے اس معصوم لڑکی کے الفاظ دیکھیے۔۔۔
”میری عزیز ماں“
مجھے آج پتہ چلا کہ مجھے قصاص (ایرانی نظام میں سزا کا قانون) کا سامنا کرنا پڑے گا، مجھے یہ جان کر بہت دکھ ہو رہا ہے کہ آخر آپ اپنے دل کو یہ یقین کیوں نہیں دلا رہی ہیں کہ میں اب اپنی زندگی کے آخری مقام تک پہنچ چکی ہوں۔

آپ کو پتہ ہے کہ آپ کی اداسی مجھے کس قدر پریشان کرتی ہے؟ آپ مجھے اپنے اور پاپا کے ہاتھوں کو چومنے کا موقع کیوں نہیں دیتی ہیں۔ماں، اس دنیا نے مجھے 19 سال جینے کا موقع دیا تھا۔ اس منحوس رات کو میرا قتل ہو جانا چاہیے تھا۔ میری لاش کو شہر کے کسی کونے میں پھینک دیا گیا ہوتا اور پھر پولیس آپ کو میری لاش کو پہچاننے کے لیے بلواتی اور آپ کو پتہ چلتا کہ قتل سے پہلے میری عزت تار تار کر دی گئی تھی ۔

میرا قاتل کبھی بھی گرفت میں نہیں آتا، کیونکہ آپ پاس اس کی طرح نہ ہی دولت ہے، نہ ہی طاقت۔اس کے بعد آپ کچھ سال اسی عذاب اور پریشانی میں گزار تیں اور پھر اسی عذاب میں آپ بھی انتقال کرجاتیں۔لیکن، کسی لعنت کی وجہ سے ایسا نہیں ہوا۔ میری لاش تب پھینکی نہیں گئی۔ لیکن، یہاں جیل کی قبر میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔اسے ہی میری قسمت سمجھیے اور اس کا الزام کسی کے سر نہ ڈالیے۔

آپ بہت اچھی طرح جانتی ہیں کہ موت زندگی کا خاتمہ نہیں ہوتی۔آپ نے ہی تو کہا تھا کہ انسان کو مرتے دم تک اپنے اقدار کی حفاظت کرنی چاہیے۔ماں، جب مجھے ایک قاتل کے طور پر عدالت میں پیش کیا گیا، تب بھی میں نے ایک آنسو نہیں بہایا۔ میں نے اپنی زندگی کی بھیک نہیں مانگی۔ میں چلّانا چاہتی تھی لیکن ایسا نہیں کیا کیونکہ مجھے قانون پر پورا بھروسہ تھا۔

ماں، آپ جانتی ہیں کہ میں نے کبھی ایک مچھر بھی نہیں مارا۔ میں کاکروچ کو مارنے کی بجائے اس کو مونچھ سے پکڑ کر اسے گھر سے باہر پھینک آیا کرتی تھی، لیکن اب مجھے ایک ارادے کے تحت قتل کرنے کا مجرم بتایا جا رہا ہے۔وہ لوگ کتنے پْر امید ہیں جنہوں نے ججوں سے انصاف کی امید کی تھی۔آپ جو سن رہی ہیں، مہربانی کرکے اس پر مت روئیے۔
میں اپنی موت سے پہلے آپ سے کچھ کہنا چاہتی ہوں۔

ماں، میں مٹی کے اندر سڑنا نہیں چاہتی۔ میں اپنی آنکھوں اور جوان دل کو مٹی میں بدلنا نہیں چاہتی، اس لیے استدعا کرتی ہوں کہ پھانسی کے بعد جلد سے جلد میرا دل، میرے گردے، میری آنکھیں، ہڈیاں اور وہ سب کچھ جس کا ٹرانسپلاٹ ہو سکتا ہے، اسے میرے جسم سے نکال لیا جائے اور انہیں ضرورت مند شخص کو عطیے کے طور پر دے دیا جائے۔ میں نہیں چاہتی کہ جسے میرے اعضاء دیے جائیں اسے میرا نام بتایا جائے۔“

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :