درسِ کربلا

اتوار 2 نومبر 2014

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

پوری دنیا میں اس وقت مسلمان مشکلات کا شکار ہیں۔ کفارانِ وقت اجتماعی طور پر مسلم امہ کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اس کے باوجود ہم باہم دست وگریباں ہیں۔ ہم مل کر دشمن کا مقابلہ کرنے کے بجائے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ملکوں کی سطح پر بھی ہم ایک دوسرے کو ناکام ثابت کرنے پر تلے ہیں ہوئے۔ قرآن کریم رہتی دنیا تک سرچشمہء ہدایت ہے لیکن ہم ہدایت لینے کو تیار نہیں۔

ارشاد ہوا" اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو ، اور تفرقوں میں نہ پڑو" لیکن ہم کو کسی کے بندھے ہاتھوں پہ اعتراض ہے تو کسی کے کھلے ہاتھوں پہ۔ کسی کا ناف پہ ہاتھ باندھنا ہمیں کھٹکتا ہے تو کسی کا سینے پہ ہاتھ باندھنا ہمیں قبول نہیں۔کہیں کفر کے فتوے ہیں تو کہیں قتل کے فرمان۔

(جاری ہے)

غرضیکہ کہ قفس بھی اپنا قیدی بھی خود۔
مسائل کا منبع معاملات کو اجتماعی حالت میں دیکھنا ہے۔

ہم اجتماعی طور پر خود کو مسلم امہ کاحصہ سمجھتے ہیں لیکن انفرادی طور پر اچھا مسلمان بننے کو تیار نہیں ہیں۔ ہم آقائے دو جہاں صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات سے دور ہو رہے ہیں۔ طائف کی وادی، پتھروں کی بارش، حبیب خدا صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم کے جوتے مبارک تک خون سے بھر گئے۔ وحی آئی، " حکم کریں تو پہاڑ اہل طائف پر الٹ دیا جائے" ۔

فرمایا " اللہ یہ بے خبر ہیں نہیں جانتے، انہیں ہدایت عطا فرما"۔ کیا کبھی ہم نے سوچا کہ سرور کائنات صلی اللہ وعلیہ و آلہ سلم جو وجہ ء تخلیق کائنات ہیں جب وہ صبر و برداشت کا اتنا بڑا مظاہرہ کر سکتے ہیں تو پھر ہماری کیا اوقات کہ ہم دوسروں کے گریباں چاک کرتے پھریں؟ ہم کیوں بھول چکے ہیں کہ جناب حمزہ کا کلیجہ چبانے والی آقاصلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم سے معافی پاتی ہے۔

جن کی وفات پر آقا صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم بہت غمگین بھی ہوئے تھے۔ کیا شریعت خون کا بدلہ خون نہیں کہتی ؟ جب ایسا ہے تو پھر ہندہ کو کیوں معاف کیا گا صرف اس لیے کہ امت کو درس دیا جائے کہ صبر اور برداشت کا کیا درجہ ہے۔
صبر و برداشت کا جو درس کائنات کے راہبر صلی اللہ و علیہ و آلہ سلم نے پوری ظاہری زندگی میں دیا۔ اس کی تکمیل نواسہ رسول صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم ، جگر گوشہء بتول ، حسین ابن علی رضی اللہ تعالی عنہ نے کرب و بلا کے میدان میں کر دی ۔

اور دکھا دیا کہ صبرو برداشت ہی ہماری میراث ہے۔ لیکن صد افسوس! ہم میں آج یہ صبر و برداشت عملی طور پر ختم ہو گیا ہے۔
قیام مکہ میں جب کوفہ والوں کی طرف سے بے پناہ خطوط و پیغامات موصول ہوئے تو جناب مسلم بن عقیل رضی اللہ تعالی عنہ کو روانہ کیا ۔ لیکن جب ابن زیاد کوفہ کا گورنر بنا تو مسلم بن عقیل رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کے حواریوں کو، بمعہ فرزندان ِ مسلم ، بے دردی سے شہید کر دیا گیا۔

امام عالی مقام رضی اللہ تعالی عنہ کو راستے میں جب خبر ملی تو پھر بھی آپ نے کمال صبر و برداشت کا مظاہرہ کیا۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ چاہتے تو واپس لوٹ سکتے تھے۔ لیکن نانا کے دین کی آبیاری اپنی ذات سے زیادہ اہم تھی۔ فرزندِ شیر خدا رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حج کے دوران شہید کرنے کا ارادہ کیا گیا۔ لیکن شریعت کے روح رواں کیسے خانہء خدا کو لہو میں تر بتر دیکھ سکتے تھے۔

بندھے احرام کھول دیے۔ حج کو عمرے میں تبدیل کر دیا۔ کیا اس لمحے بھی تاریخ نوجوانانِ جنت کے سردار کے لبوں پر کوئی ایسا لفظ تلاش کر پائی جو صبر و برداشت کے منافی ہو؟ 2 محرم الحرام آمد سے لے کر 7 محرم الحرام تک فرات کے کنارے امام عالی مقام اور اہل و عیال کے خیمے نصب تھے۔ حسین ابن علی رضی اللہ تعالی عنہ کے صبر و برداشت کا اس سے بڑھ کے کیا مظاہرہ ہو گا کہ دشمن کے جانوروں تک کو پانی سے دور نہ رکھا گیا۔

7محرم الحرام کو پانی کی بندش پہ بھی مظلوم کربلا رضی اللہ تعالی عنہ کے لبوں پہ شکوہ نہیں آیا۔ اور رب کی رضا پہ صبر کیا۔ تین دن کی پیاس، تپتا صحرا ، آگ برساتا سورج، آسمان دنگ ، زمین حیران۔۔۔ یہ صبر و برداشت سے بھی کچھ اوپر کا عمل تھا۔ شیطان کو شاید آج سجدہ نہ کرنے کا بھی افسوس ہوا ہو گا۔ جن کے لباس جنت سے آئیں۔ وہ تپتے صحرا کے مکین۔ ۔

۔ الاماں۔۔۔ افسوس ہم نے صبر و برداشت کے اس عظیم مظاہرے کو بھلا دیا۔ اور عدم برداشت کو اپنا لیا۔ کیا کرب و بلا میں صبر کی انتہا نہیں تھی؟ تو پھر آج ہم کیوں صبر کو چھوڑ چکے ہیں؟ کیوں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے ہیں؟
72جان نثاروں کا مقابلہ9لاکھ فوج سے تھا۔ اسی لئے آپ نے روشنی بجھا دی تا کہ ہر کوئی سوچ لے لیکن جب دوبارہ چراغ روشن ہوا تو ہر ایک ثابت قدم تھا اور جناب مسلم ابن عوسجہ کے یہ الفاظ تاریخ کا حصہ بن گئے کہ "یہ ہمارے لئے ممکن نہیں کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو چھوڑ دیں۔

میں اپنے نیزے کو دشمنوں کے سینوں میں توڑ دوں گا۔ اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے قدموں میں اپنی جان نچھاور کر دوں گا"۔
کرب و بلا کی تپتی زمین سے اپنے پیاروں کے لاشے اٹھاتے ہوئے بھی امام عالی مقام رضی اللہ تعالی عنہ کے پایہ استقلال میں لرزش نہ آئی۔ اور صبر و برداشت کا ایسا نمونہ رہتی دنیا تک چھوڑا جس کا کوئی ثانی نہیں ہو گا۔
بیمار ِ کربلا جنابِ سجاد رضی اللہ تعالی عنہ نے بیبیوں کے ہمراہ کربلاء سے لے کر شام تک جوسفر طے کیا اس میں تقریباً 1445میل،36شہر، 72بازار، 144گلیاں،258موڑ،اور 3دریا شامل ہیں لیکن اس پورے سفر میں انہوں نے ایک بھی نماز قضا نہیں کی۔

کہیں بھی لبوں پہ شکوہ نہیں آیا۔ صبر کی میراث کو نہ چھوڑا اور یہی وہ درس ہے جو کربلاء کے ذریعے ہمیں دیا گیا ۔ کیا ہم اس درس کو سمجھ پائے ؟ اگر ہم ابھی تک اس کو سمجھ نہیں پائے تو خدارا اپنی زندگیوں کو کربلا کے عملی درس کے مطابق ڈھالیں۔کربلا میں معرکہ ء حق و باطل تھا۔ جس کا پیغام صبر و برداشت تھا۔ کیا ہم آج اس پیغام کو سمجھ پا رہے ہیں؟ کیا آج ہم میں برداشت موجود ہے؟ کیا آج ہم صبر کو اپنی ذات کا حصہ بنا رہے ہیں؟ اگر نہیں تو ہمیں خود احتسابی کے عمل سے گزرنا ہو گا۔

مشکلات پہ صبر کرنا سیکھنا ہو گا۔ کسی دوسرے کی سوچ، عمل، طریق کو برداشت کرنا ہوگا۔ یہی کربلا کا درس ہے جس سے نہ صرف ہماری ذاتی زندگیا ں بہتر ہوں گی بلکہ امت مسلمہ اجتماعی طور پر بھی مسائل سے چھٹکارا حاصل کرسکتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :