سیاسی پاگل پن!

جمعہ 31 اکتوبر 2014

Ashfaq Rehmani

اشفاق رحمانی

گزشتہ روز اسلام آباد میں سرمایہ کاری کانفرنس سے خطاب اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ حکومت ملک میں سیاسی استحکام کیلئے پرعزم ہے‘ ہمیں سیاسی پختگی کا ثبوت دینا ہو گا۔ انکے بقول انکے دور میں بدعنوانی کا ایک سکینڈل بھی سامنے نہیں آیا۔ حکومت کو اندرونی اور بیرونی حالات درست کرنے دیئے جائیں اور ملک کو تنزلی کی طرف نہ لے جایا جائے۔

نجکاری کے عمل اور ہماری اقتصادی پالیسیوں کی وجہ سے ملکی معیشت درست سمت پر گامزن ہوئی ہے۔ حکومت سنبھالتے ہی معیشت کی بحالی کے اقدامات شروع کر دیئے تھے۔ ہمارے معاشی اہداف میں بہتری آئی ہے اور حکومت کم آمدنی والے افراد کی مدد کیلئے 80 ارب روپے خرچ کر رہی ہے۔میاں نوازشریف کا یہ شکوہ اپنی جگہ درست ہو گا کہ انہیں اقتدار سنبھالتے ہی عوامی مسائل کے ساتھ ساتھ حکومت مخالف تحریک کا سامنا بھی کرنا پڑا مگر یہ حقیقت بھی اپنی جگہ اٹل ہے کہ حکومت مخالف یہ سوچ اور فضا حکمرانوں کی اپنی پیدا کردہ ہے جس نے انکے اقتدار کے آغاز ہی میں ان کیلئے ”صبح گیا یا شام گیا“ والی کیفیت پیدا کی ۔

(جاری ہے)

بلاشبہ اس افراتفری سیاست نے ملک کی معیشت کو مزید نقصان پہنچایا جبکہ ملک میں پیدا ہونیوالی سیاسی عدم استحکام کی اس فضا سے ہی ہماری سالمیت کے درپے بھارت کو بھی فائدہ اٹھانے کا موقع ملا جس نے عمران و قادری کے دھرنے کے ساتھ ہی کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر پاکستان کے اندر یکطرفہ طور پر فائرنگ اور گولہ باری کا روزانہ کی بنیاد پر سلسلہ شروع کر دیا۔

حکومت تو اس جھٹکے سے مخدوم جاوید ہاشمی کے دھرنے بازوں کا بیچ چوراہے میں بھانڈہ پھوڑنے اور پارلیمنٹ میں تمام سیاسی عمائدین کے حکومت کے ساتھ کھڑا ہونے کے باعث بچ گئی مگر ان دھرنوں نے قومی معیشت اور ملکی مفادات کو جو بھاری نقصان پہنچایا‘ اس کا ازالہ ہوتے ہوتے نہ جانے پلوں کے نیچے سے مزید کتنا پانی بہہ چکا ہوگا۔ حکومت کو اس وقت ملکی معیشت کوحکمرانوں کے بڑھائے گئے توانائی کے بحران کے باعث متعدد چیلنجوں کا سامنا تھا‘ سابق حکمرانوں کی پالیسیوں کو کوسا اور ان سے نجات کیلئے عوام کو سہانے سپنے دکھائے جبکہ زمینی حقائق اسکے قطعی برعکس تھے۔

قوم کو ان سے بھی یہی توقع تھی کہ دوبار اقتدار سے محرومی کے بعد انہوں نے ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل کرکے سیاسی پختگی کے مراحل طے کرلئے ہونگے اور وہ عوام کے روٹی روزگار کے مسائل بڑھانے اور توانائی کا بحران سنگین بنانے والی سابق حکمرانوں کی عاجلانہ پالیسیوں سے ملک و قوم کو خلاصی دلا کر اپنے انتخابی دعوؤں اور وعدوں کے مطابق قومی معیشت کو شاہراہ ترقی کی جانب گامزن کردینگے۔

مگرن لیگ نے قوم سے اقتدار کا مینڈیٹ حاصل کرنے کے بعد یہ کہہ کر عوام کو ٹھینگا دکھا دیا کہ ان سے دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کی ہرگز توقع نہ رکھی جائے۔ گزشتہ انتخابات کی مہم کے دوران عمران خان کو جس بھرپور انداز میں پذیرائی حاصل ہوئی‘ اس سے وہ اپنے اقتدار کی منزل کو یقینی سمجھ بیٹھے تھے تاہم انتخابی نتائج اسکے برعکس سامنے آئے تو انہیں انتخابی دھاندلیوں کا الزام لگانے کا موقع مل گیا جس میں ان کا پہلا ہدف الیکشن کمیشن تھا جبکہ بعدازاں انہوں نے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اور حکمران مسلم لیگ (ن) کو بھی رگیدنا شروع کر دیا۔

اگر حکومت اس وقت ہی انتخابی دھاندلیوں کے الزامات کی جامع تحقیقات کرالیتی اور غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے مارے عوام کو ریلیف فراہم کرنے اور انہیں بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ سے نجات دلانے کے اقدامات اٹھالیتی تو کسی حکومت مخالف تحریک کی گنجائش ہی پیدا نہ ہوتی مگر اس تحریک کے سارے حالات اور محرکات خود حکمرانوں نے اپنی بے عملی اور عوام سے لاتعلقی کے باعث پیدا کئے۔

گزشتہ روز بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ نئے پاکستان کیلئے تھوڑا پاگل پن ضروری ہے۔ اگر عوام کے گوناں گوں گھمبیر مسائل جوں کے توں برقرار ہیں‘ وہ بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کا عذاب بھی برداشت کر رہے ہیں‘ روزگار کے دروازے بھی مسلسل ان کیلئے بند ہیں‘ روزافزوں مہنگائی نے بھی انہیں زندہ درگور کیا ہوا ہے اور حکومت سے کسی قسم کے ریلیف کے معاملہ میں بھی انکی مایوسیاں بڑھتی جا رہی ہیں تو عمران و قادری کی دھرنا سیاست سے نجات کے باوجود وینٹی لیٹر پر رکھی ہوئی موجودہ حکمرانی کیلئے کوئی دوسرا عوامی جھٹکا جان لیوا بھی ہو سکتا ہے۔

جب تک عوامی اضطراب موجود رہے گا‘ حکمرانوں کے اقتدار کو خطرات لاحق رہیں گے اس لئے وزیراعظم نوازشریف کو ملک و معیشت کو سیاسی عدم استحکام سے نکالنے کیلئے خود بھی کوئی چارہ کرنا ہو گا جو مضطرب عوام کو مطمئن کرنے سے ہی ممکن ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :