ایشیا کی صدی اور خطے میں کشیدگی و اثرات

بدھ 29 اکتوبر 2014

Badshah Khan

بادشاہ خان

آپ نے کئی بار پڑھ ہوگا کہ یہ صدی ایشیا کی صدی ہے ایشیا کی حکمرانی ہوگی اور دنیا کو ایشیا کی پیروی کرنی ہوگی مگر ایشیا میں جاری جنگوں اور اختلافات سے ایسا لگتا تھا اور ہے ، کیونکہ خطے کے ممالک کے مفادات مسائل اور دوست مختلف ہیں اور دن بدن ان میں شدت آتی جارہی ہے،پاکستان بھارت سرحدی خلاف ورزیوں کے بعد اب افغانستان و ایران کی جانب سے پاکستانی سرحد پر فائرنگ معمول بنتی جارہی ہے ،ایسے ماحول میں ایشیا کے اہم ملک چین کی جانب سے اسلام آباد میں منعقد کی جانے والی عالمی کانفرنس جس کا مرکزی محور افغانستان کی موجودہ صورت حال اور امریکی ونیٹو(ناٹو) کے افغانستان سے انخلا کے بعد کیا ہوگا،اس کے علاوہ خطے میں روس و بھارت کے بڑھتے اثرات کے علاوہ خطے میں اقتصادی رہداری سینٹرل ایشیا اکنامک بیلٹ وغیرہ پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ایسی دوران چین نے بیجنگ میں عالمی مالیاتی اداروں کی اجارہ داری ختم کرنے کیلئے پچاس ارب ڈالرز سے نئے ایشین بنک کو قائم کردیا،پاکستان سمیت اکیس ممالک نے ایم او یو پر دستخط کردیئے،اور مزید پچاس ارب ڈالرز کا بندوبست نجی کمپنیوں سے حاصل کئے جایئں گے،یہ بنک ایشیا میں سڑکوں،ریلوے،اور پاورپلانٹس میں سرمایہ کاری کو ترجیحی دے گی۔

(جاری ہے)


تاہم اس موڑ چند ایشیائی ممالک امریکی اتحادی ہونے کی وجہ سے اس میں شامل نہیں ہوئے،جن میں جاپان انڈونیشیا جنوبی کوریا وغیرہ شامل ہیں روس وایران بھی الگ ہیں خیر بات ہورہی تھی خطے کی صورتحال میں برطانیہ نے ہلمند کے علاقے لشکرگاہ میں اپنا سب سے بڑا اورآخری فوجی اڈہ کیمپ ہیچین افغان آرمی کو حوالے کردیا اور چند دنوں برطانوی فوجی افغانستان سے روانہ ہوجائیں گے،اور جیسے جیسے افغانستان سے نیٹو کاانخلا مکمل ہورہا ہے خطے میں کشیدگی بڑھتی جارہی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں افغانستان میں حالات مزید خراب ہوجائیں گے،جس کا اثر پڑوسی ممالک پر پڑھے گا ۔


ہندوستان و افغانستان کے بعد اب کچھ عرصے سے ایرانی سرحدی فورس کی جانب سے فائرنگ معمول بنتی جارہی ہے اور اب تو نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ ایک دوسرے ملک کے سفیروں کو وزارت خارجہ میں طلب کیا جاچکا ہے،اور احتجاج کے بعد خاموشی ہے کیا وجہ ہے ہر پاکستانی حکومت صرف احتجاج کرکے چپ ہوجاتی ہے،ڈرون حملے ہوں یااندرونی مداخلت؟ایک طرف دوستی کا دعوی کرنے والا فائرنگ کرکے پاکستانی فوجیوں کو شہید کررہا ہے تو دوسری طرف ازلی دشمن ، اور اس نے تو یہاں تک کہا کہ اتنی گولا باری کرو کہ پاکستان کو پتہ چلے،اور رہی بات اقوام متحدہ کی تو وہ پرانا گھساپیٹا محاورہ بنتا جارہا ہے کہ باہمی مذاکرات کے ذریعے مسئلے کو پر امن حل کیا جائے۔


خطے کی اس نازک صورت حال میں چین جو کہ کاروباری حوالے سے دنیا کی مجبوری بنتا جارہا ہے کہ یہ دو فیصلے ایشیا میں مزید اہمیت اختیار کرچکے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ روس سینٹرل ایشیا ممالک کو اس طرف آنے دیتا ہے یا ایک بار پھر روکاوٹ بنتا ہے تاہم ازبکستان اور قازقستان نے اس نئے بنک کے قائم پر دستخط کر دیئے ہیں ،مگر روس کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ آزاد ہونے والے روسی ممالک اس کے زیر تسلط رہیں اور اسی کو فالو کریں،ہمارے ایک دوست میاں محمد عامرجو کہ چند برس قبل سیاحتی دورے پر ازبکستان گئے تھے ان کا کہنا ہے کہ آپ نے اگر وہاں بیرونی دنیا کے بارے میں جاننا ہو تو آپ کو روسی میڈیا پر گذرا کرنا پڑے گا پاکستانی اور مغربی میڈیا کو ان ممالک میں رسائی حاصل نہیں ہیں،روس نے ان اپنے ساتھ جوڑا ہواہے تاکہ ان ممالک پر اس کی گرفت کمزور نہ ہو۔


افغانستان خطے میں ایسے ملک کی حیثیت اختیار کرچکا ہے جس کی ضرورت ہر ملک کو پہلے سے بڑھ کر ہے، اس کے ایک طرف وسطی ایشیاء کی مسلم ریاستیں ہیں جو معدنیات سے مالامال ہیں دوسری طرف پاکستان اور تیسری طرف ایران ہے ۔خود افغانستان میں اس وقت سونے ،تانبے اور فولاد کے محفوظ ذخائر بڑی مقدار میں موجود ہیں جبکہ تیل وگیس بھی موجود ہے ۔اس کے علاوہ ایک بڑی وجہ تحریک طالبان افغانستان کا وجود ہے جسے نیٹو و امریکہ ختم نہ کرسکا نیٹو کے انخلاء کے بعد افغانستان پرطالبان کا قابض ہونا سب طاقتوں کو صاف نظر آرہا ہے،جس دن نیٹو افواج کا انخلا مکمل ہوگا اگلے چند برسوں میں کابل کے کٹھ پتلی حکمران اپنا سامان بندھنا شروع کردینگے۔

طالبان کے قابض ہونے سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مفادات کو براہ راست زک پہنچے گی اور اربوں ڈالرز کے منصوبے ڈوب جانے کا خدشہ موجود ہے
پاکستان بھی بلوچستان میں بیرونی مداخلت سے پریشان ہیں اس انڈین مداخلت کی وجہ سب کو معلوم ہے کہ وہ گودار کو ناکام کرنا چاہتا ہے۔ایک اور پڑوسی ملک تاپی گیس معاہدے کو ناکام کرنا چاہتا ہے ،جس کا سب سے بڑا بینفشری پاکستان ہے ۔

جسے ناکام بنانے کیلئے الف اتحاد کابل میں ایسی حکومت کا قائم کرچاکاہے جس سے یہ خطہ ایک بار پھر بے چینی اور جنگوں کا شکار ہوجائے گا،امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی پہلی خواہش ہے کہ افغانستان میں طالبان کا کردار نہ ہو، بلکہ افغانستان کو نسلی بنیاد پر پختون و شمالی اتحاد میں تقسیم ہوکر ابھرے،جس سے براہ راست انڈیا کو فائدہ ہوگا،انڈیا نے بامیان ،کاپیسا،پروان اور ان علاقوں میں فولاد سیمت کئی شعبوں میں معاہدے کئے ہیں اور ان علاقوں میں شمالی اتحاد کا اثررسوخ ہے۔

تصویر کا ایک تیسرا رخ وسطی ایشیاء کی مسلم ریاستیں اور روس ہے جس میں سے وسطی ایشیاء کی مسلم ممالک پاکستان کے ساتھ کاروبار اور تعلقات کا فروغ چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں چند روز قبل کرغزستان نے کئی معاہدوں پر پاکستان کے ساتھ ایم او یوز دستخط کئے ہیں،بنکینگ سے لیکر بندرگاہوں تک کام کرنا چاہتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ اس وقت اور آنے والے سالوں میں افغانستان جس سے یہ سب راستے گذرتے ہیں کیا چین کی یہ کوشیش کامیاب ہونگی کیونکہ امریکہ و اس کے اتحادی جانے کے موڈ میں نہیں بلکہ اس بار داعش کے خلاف نئے پرپیگنڈے کے ساتھ مشرقی وسطی میں موجود ہے اور چند عرب ممالک سمجھ رہے ہیں کہ اس طرح کی بادشاہتں محفوظ ہوگئی ہیں سب ایشیائی ممالک کو فیصلے کرنے ہونگے کہ کون ایشیا کا خیر خواہ ہے اور کو اس میں عدم استحکام چاہتا ہے۔

آخر میں ایک بات ضرور لکھنا چاہتا ہوں اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد کو چلانے والے یہ بات یاد رکھیں پاکستان کے سبز پاسپورٹ پر واضح لکھا ہوا ہے کہ اسرائیل سے ہمیں کتنی نفرت ہے اس واقعے کی تحقیق ہونی چاہی ہے اور ان افراد کا موخذاہ ہونا چاہے ،دوسرے ممالک دوست اپنے مفادات کے لئے بناتے ہونگے ہمارے دوست و دشمن نظریے کے بنیاد پر ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :