گمشدہ آئین کی تلاش

پیر 27 اکتوبر 2014

Prof.Riffat Mazhar

پروفیسر رفعت مظہر

56 اور 62کے آئین کے بعدپارلیمنٹ نے 1973ء میں متفقہ آئین پاس کیا جسے آج بھی ذوالفقار علی بھٹومرحوم کی کاوشوں کا ثمر کہا جاتاہے ۔پیپلزپارٹی جب بھٹومرحوم کے کارنامے گنوانے پہ آتی ہے تو سب سے پہلے اسی آئین کا بڑے فخر سے ذکر کرتی ہے ۔ہم نے اِس آئین کا ذکر تو بار بار سُنا تھا لیکن دیدار کبھی نہیں کیا۔ایک بار مَن میں آئی کہ ”ویہلے“ بیٹھنے سے بہتر ہے کہ آئین کا دیدار ہی کرلیا جائے لیکن جب تلاش شروع کی تو پتہ چلا کہ یہ آجکل مفقود الخبرہے ۔

ویسے بھی بقول ضیاء الحق مرحوم یہ سو صفحے کی ایک فضول سی کتاب ہے جس کی حیثیت بالکل وہی ہے جو برطانوی جمہوریت میں ”تاجِ برطانیہ“کی ہے ۔اسی لیے اِس کو کوئی سیاستدان پڑھنے کی کوشش کرتا ہے نہ تجزیہ نگار اور نہ ہی کوئی مذہبی رہنما ۔

(جاری ہے)

شنید ہے کہ اِس آئین کے 283 آرٹیکلز ہیں جن میں سے کسی ایک پر بھی عمل کرنا ہم ”کسرِ شان“ سمجھتے ہیں ۔

اگر کہیں بہت مجبوری آن پڑے تو ہم اِس کو الماری میں بند کرکے اُس پر ”نظریہٴ ضرورت“ کا بھاری بھرکم تالا لگا دیتے ہیں ۔بیس سالوں تک توضیاء الحق اور پرویزمشرف نے اِس آئین کو ”لفٹ“ نہیں کروائی اورنظریہٴ ضرورت سے ہی کام چلاتے رہے لیکن سیاسی رہنماوٴں نے بھی اِس سے کوئی اچھا سلوک نہیں کیا ۔وہ بھی جب جی چاہتا ہے اِس میں اپنی مرضی کی تبدیلیاں کرتے رہتے ہیں ،گویا آئین نہ ہوا،موم کی ناک ہواکہ جس طرف جی چاہا موڑ لیا۔

کہا جا سکتا ہے کہ ہمارا آئین وہ بھینس ہے جو ہر ”تَگڑے“ کی لاٹھی کے تابع ہے اسی لیے ہر کسی کا اپنا اپنا آئین ہے۔
ایک آئین طالبان نے دیاجس کی بنیاد قتل وغارت اور تباہی وبربادی ٹھہری ۔اِس آئین میں شریعت کا”تڑکا“ لگا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ معصوم بچوں ،عورتوں اور بوڑھوں کا قتل نہ صرف جائز بلکہ عین اسلام ہے ۔آجکل افواجِ پاکستان کے جری جوان اِس ”طالبانی آئین“کا قلع قمع کرنے میں مصروف ہیں اور یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ کم از کم اِس آئین سے تو جلد چھٹکارا مل جائے گا ۔

ایک آئین لندن میں بیٹھی ملالہ مرتب کر رہی ہے جس میں ملعون رشدی اور احمدیوں سے ہمدردی اور پاک فوج سے بیزاری کے آرٹیکلز شامل کیے جا رہے ہیں ۔ملالہ کے آئین میں حدودآرڈیننس کی کوئی گنجائش ہے نہ شاتمِ رسول کو سزا دینے کی اور نہ ہی اسلامی نظریاتی کونسل کی ۔ملالہ کا آئین اِس لحاظ سے بہت طاقتور اور خطرناک ہے کہ پورا یورپ اور امریکہ اُس کی پُشت پر ہے ۔

اگر کسی نے اِس آئین کو چھیڑنے کی کوشش کی تو اُس کو پتھر کے زمانے میں دھکیلنے کی دھمکی برقرار ہے۔
ایک آئین علامہ طاہرالقادری کا بھی ہے جسے”کنٹینر آئین“کہا جا سکتا ہے ۔اِس آئین کی بنیاد”لمبی لمبی چھوڑنے“ پر رکھی گئی ہے اور پچھلے 75 دنوں میں یہ آئین نہ صرف علامہ کے عقیدت مندوں بلکہ مخالفین کو بھی ازبَر ہو چکا ہے ۔مولانا ایسے سندر سپنے دکھاتے ہیں کہ پھر وہی گھسا پٹالطیفہ یاد آجاتا ہے کہ بھوکی بلّی چوہے کے انتظار میں تھی لیکن چوہا اپنے بِل سے نکلنے کا نام ہی نہیں لیتا تھا۔

تنگ آکر بلّی نے چوہے کو مخاطب کرکے کہا”بھانجے! اگر تم اِس بِل سے نکل کر اُس بِل تک جاوٴ تو پانچ سو روپیہ انعام دونگی“۔ چوہے نے لالچ میں آکر بِل سے سر باہر نکالا لیکن پھر فوراََ ہی اندر کر لیا۔بلی نے پوچھا”بھانجے کیا ہوا؟“۔چوہے نے جواب دیا”خالہ ! پیسے بوہتے تے پینڈا تھوڑا،کوئی چکر اے“۔ حضرت بھی قوم کو لالچ تو بہت دے رہے ہیں اور اُن کی اقتدار کی بھوک تو ”بھوکی بلّی“ سے بھی زیادہ ہے لیکن سوائے عقیدت مندوں کے اُن کی باتوں پر کوئی یقین کرنے کو تیار نہیں ۔

اب اُنہوں نے عقیدت مندوں کی مضبوطی کے لیے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ اُن کے پاس ”جِنّات“ہیں جو اُنہیں پوری دُنیا کی خبریں پہنچاتے رہتے ہیں۔اِس لیے اگر کوئی خبر جھوٹی نکلے تو اُسے کسی شرارتی جِن کی شرارت سمجھا جائے ۔یوں تو مریدین اپنے مُرشد پر ”اَنّے وا“اعتماد کرتے ہیں لیکن وہ اُس وقت سے کچھ بد دِل ہو گئے ہیں جب سے مولانا نے ووٹ اور سپورٹ کے ساتھ” نوٹ“ بھی مانگنے شروع کر دیئے ہیں ۔

مولانا کے عقیدت مند تو اِس آس میں اُن کا ساتھ دے رہے تھے کہ اُن کی روٹی روزی کا بندوبست ہونے والا ہے لیکن مولانا نے تو اُلٹا نوٹ ہی مانگنے شروع کر دیئے ۔دھرنے کے خاتمے پر ایک خاتون پریشانی کے عالم میں کہہ رہی تھی کہ وہ تو دھرنے میں اِس لیے آئی تھی کہ اُس کے کھانے پینے کا بندوبست ہو جائے گا ۔ستّر دِن تو آرام سے گزر گئے لیکن اب مولانا نے دھرنے کے خاتمے کا اعلان کر دیا ہے ۔

اب روٹی کہاں سے ملے گی؟۔ہم سمجھتے ہیں کہ علامہ نے اچانک دھرنے کے خاتمے کا اعلان کرکے نہ صرف کپتان صاحب بلکہ عقیدت مندوں کے بھی دل توڑ دیئے ہیں ۔شاید اسی لیے اب کپتان صاحب نے بھی ”نوٹ“ مانگنے شروع کر دیئے ہیں تاکہ مولانا کو کچھ تو مالی نقصان پہنچے ۔ہم نے تو اپنے ایک کالم میں بہت پہلے یہ خدشہ ظاہر کر دیا تھا کہ ”دو ملّاوٴں میں مُرغی حرام“ کا سانحہ کسی وقت بھی پیش آ سکتا ہے ۔

لگتا ہے کہ ”مسٹراور مُلّا“ اب اُسی طرف محوِسفر ہیں ۔ پتہ نہیں حضرت کو اچانک یہ کیا سوجھی کہ مقصد کے حصول تک دھرنا ختم نہ کرنے کے بار بار دعووٴں کے باوجود اچانک کہہ دیا کہ ”سامان سمیٹو اور گھر جاوٴ“۔ سونامیے کہتے ہیں کہ مولانا کی نواز لیگ سے ڈیل ہو گئی ہے اور وہ بِک گئے لیکن نواز لیگ کے صدیق الفاروق کہتے ہیں کہ مولانا کو ”غارِ حرا“ سے حکم آیا تھاکہ میاں نوازشریف آپ کو کندھوں پر بٹھا کر غارِ حرا تک لے گئے تھے اِس لیے اِس احسان کا بدلہ اتارتے ہوئے دھرنا ختم کر دو ۔

ہوسکتا ہے کہ صدیق الفاروق صاحب کی بات سچ ہی ہو کیونکہ مولانا فضل الرحمٰن بھی کہتے ہیں کہ علامہ صاحب شیخ الاسلام نہیں ”شیخ الالہام “ہیں ۔مولانا فضل الرحمٰن تو یہ بھی کہتے ہیں کہ دھرنے تو دِن کو ہوتے ہیں ،رات کو تو مُجرے ہوتے ہیں لیکن ہمیں اِس سے اتفاق نہیں کیونکہ زمانہ بہت ترقی کر چکا ہے ۔اب راتوں کو بھی ”دھرنے“ ہی ہوتے ہیں۔


جب ہم نے 73کے آئین کی تلاش میں بھٹو مرحوم کے وارثوں کو بھی کھنگالنے کی کوشش کی تو ہم پر اُس وقت حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے جب پتہ چلا کہ بھٹو مرحوم کا ”خود ساختہ“وارث بلاول تو خود اِس آئین کا باغی ہے ۔ہم نے واقفانِ حال سے استفسار کیا توجواب آیاکہ ”ہر کہ آمد ،عمارتِ نَو ساخت“۔ بلاول تو میدانِ سیاست میں آیا ہی اِس لیے ہے کہ سارے” نقشِ کہن“ مٹا دے ۔

اسی لیے تو اُس نے اپنے ٹویٹ میں لکھا” میں چاہتا ہوں کہ میری زندگی میں پاکستان کو ایک وزیرِاعظم مسیحی کمیونٹی سے بھی ملے“۔بھٹو مرحوم تو بڑے فخر سے کہا کرتے تھے کہ 73 کے آئین میں جتنی اسلامی شقیں ہیں اتنی دُنیا کے کسی اسلامی ملک کے آئین میں نہیں۔اُنہوں نے قومی اسمبلی میں اپنے خطاب میں اسلامی شقوں کو آئین کی بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ شقیں اسلامی روایات کی ضامن ہوں گی ۔

یہ بھٹو کا ہی آئین ہے جس میں درج ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا صدر یا وزیرِ اعظم صرف مسلمان ہی بن سکتا ہے لیکن نو وارد و نَوخیزبلاول اِسے تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔یہ بلاول کے نانا کا آئین ہے اِس لیے اُسے آئین کی بنیاد تک تبدیل کرنے کا حق حاصل ہے ۔ابھی توبلاول نے زبانی نئے آئین کی بنیاد رکھی ہے، آگے آگے دیکھیئے ہوتا ہے کیا۔۔۔۔ حرفِ آخر یہ کہ ہم گمشدہ آئین کی تلاش میں ہیں جسے ملے وہ ہمیں ضرور خبر کر دے اور اگر آئین خود پڑھے تو گھر لوٹ آئے ، ہم اُس کے لیے بہت اُداس ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :