بھٹو ازم

ہفتہ 25 اکتوبر 2014

Abdul Raheem Anjaan

عبدالرحیم انجان

پاکستان پیپلز پارٹی کراچی کا جلسہ، ہم یاران وطن کے لئے ، جو اپنے وطن سے ہزوروں میل دور بیٹھے ہوئے ہیں، بلا شبہ ایک بڑا جلسہ تھا، کہ ہم وہی کہتے ہیں ، جو دیکھتے یا سنتے ہیں۔ لیکن وطن سے اس جلسے کے لئے دو رائے سنی جا رہی ہیں۔اراکین پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ یہ جلسہ ہر لہاز سے کامیاب رہا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کی تقریر نے” بھٹو ازم“ کو زندہ کر کے بلاول بھٹو زردا ری کو اپنے نانا کے مقام پر کھڑا کر دیا ہے۔

وغیرہ وغیرہ ،جلسے میں ایک بہت بڑے ہجوم کے بارے میں اراکین پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ یہ سب لوگ بھٹو ازم کے جیا لے تھے جو سندھ اور پاکستان بھر کے دوردراز کے علاقوں سے اپنے نو عمر قائد کی رونمائی میں شریک ہونے آئے تھے۔ لیکن اراکین پیپلز پارٹی یہ نہیں بتاتے کہ ان کو لایا کون ہے ؟جبکہ ذرائع ابلاغ اور سنیئر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس ہجوم کو اکٹھا کرنے کے لئے سندھ گورنمنٹ نے کروڑوں رپے نہ صرف خرچ کئے ہیں ، جلسے کی رونق بڑھانے کے لئے سرکاری وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے بہت محنت اور بھاگ دوڑ بھی کی ہے، کوئی اور اِس حقیقت کو ما نے نہ مانے لیکن بلاول زرداری اور آ صف علی زرداری ضرور جانتے ہیں۔

(جاری ہے)

یہی وجہ کہ ُانہوں نے اپنے اگلے جلسے کی تاریخ ہفتے یا دو ہفتوں کے بعد نہیں، مہینوں کے بعد رکھی ہے۔
اس جلسے میں بلاول نے ”بھٹو ازم “ ایک انقلابی نعرے کی طرح گلا پھاڑ پھاڑ کر استعمال کیا ہے۔بھٹو ازم کیا تھا ؟”کمیو ازم “کو” اسلامی مساوات“ کے کپڑے پہنائے گئے تھے، جس نے پہلا بچہ ” روٹی، کپڑ ا اورا مکان“ کے نام کا دیا تھا۔

جو بچہ تا حال چاک گریباں گلیوں گلیوں اپنی کسی عملی شکل کے لئے سرگرداں ہے۔ روٹی کپڑا اور مکان تو رہی دور کی بات،سندھ میں لوگوں کے پاس اپنے جھونپڑوں میں پینے کے لئے پانی تک نہیں ہے۔خیر پینے کے لئے صاف پانی تو پورے پاکستان ہی میں نہیں ہے۔سندھ چونکہ روٹی۔کپڑا اور مکان دینے کا وعدہ کرنے والے سائیں کا ہے۔اس لئے صرف سندھ ہی کا ذکر کیا ہے۔


بھٹو (شہید)کے اِس وعدے کے تناظر میں ان کا لائف اسٹائل دیکھتے ہوئے ،اُن کے ایک قریبی ساتھی خالد معراج جو ایک کٹر کمیونسٹ یا اسلامی مساوات کے قائل تھے وہ پارٹی چھوڑ کر الگ ہو گئے تھے۔
بات آگے بڑھانے سے پہلے ایک بات جو مجھے اکثر کھٹکتی ہے۔ہم پاکستانی عوام اِس دکھ میں کڑھتے رہتے ہیں کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے۔جو ہمیں دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے لیکن دوسری طرف ہم جب سیاسی پارٹیوں کے پیادں کو اپنے اپنے لیڈران کے نا کردہ کار ناموں اور شرمناک بیڈ گورننس کے کاغذی پھول ، مرتی ہوئی معیشت کی زلفوں میں ٹانکتے ہوئے دیکھتے ہیں، تو کم از کم مجھے ایسے لگتا ہے، جیسے ہمارا آج کا قومی مسئلہ ”کرپشن “کے ساتھ ساتھ ”جھوٹ“ بھی ہے، جو ہم اپنے کسی لیڈر کی وکالت اور کسی دوسرے پر تنقید کرتے ہوئے بے حیائی کی آ خری حد تک بولتے ہیں۔

مثلاً شہیلا فاروقی کئی دونوں سے عمران خان کے جلسوں میں شرکا کے ا پنے قائد عمران خان کی تعریف میں کسی گانے کی دھن پر جھوم جھوم کر فضا میں ہاتھ لہرا لینے پر، اپنی مشرقی اقدار کے حوالے سے اچھی خاصی تنقید کرتی رہی ہیں۔لیکن قربان جاوٴں کیمرے کی آنکھ کے جو ہر جگہ پہنچ جاتی ہے، وہی شہیلا فاروقی مذکورہ جلسے میں باقاعدہ ٹھمکے لگا لگا کر ڈانس کر رہی تھیں۔

ایسے دوہرے معیار پر سو بار لعنت بھیجتا ہوں۔
سوال ہے اِس جلسے سے بلاول بھٹو زرداری نے قائد عوم ذوا لفقا ر علی بھٹو ( شہید) بننے کی قبل اَز وقت اور ناکام کوشش سے کیا پایا اور کیا کھو یا ہے ؟ سندھ میں ایم۔ کیو۔ ایم اُن کی ایک مضطبوط اتحادی جماعت تھی۔ بلاول بھٹو زرداری نے انکل الطاف کو مخاطب کرتے ہوئے، جو کچھ کہا ہے ،اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے کہ الیکٹرنکس میڈیا سب کچھ بتا چکا ہے ۔

”بدنام ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا۔“ کے مطابق ایک متنازعہ تقریر کر کے بلاول چند دن خبروں میں تو رہ لئے ہیں۔لیکن دوسری طرف اُن کی تقریر کے ردِ عمل میں جو کچھ ایم۔کیو۔ ایم نے کہا ہے، اس کے بعد اُن کے پاس کراچی میں اپنی طاقت کا مظا ہرہ کرنے کے لئے کیا رہ گیا ہے ؟ ” میں شہیدوں کا وارث ہوں، ڈراتا نہیں ہوں۔“ بلٹ پروف شیشے کے پیچھے کھڑے ہو کر یہ کہنا کہ میں ڈرتا نہیں ہوں۔

اک تماشا ہی تو ہے۔ کسی سنیئر تجزیہ کار کو میں نے بلاول کی اس بات کے جواب میں یہ کہتے بھی سنا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو (شہید) تو کبھی کسی جلسے میں ہیلی کاپٹر پر نہیں جاتے تھے۔بہر کیف، بلاول کی تقریر کے ردِ عمل میں ایم۔کیو۔ایم کے کسی لیڈر کے دو جملے اب بھی میرے کانوں میں گونج رہے ہیں۔
” بلاول صاحب ! تم بھٹو کی اولاد نہیں ہو، بھٹو کی اولاد شاہنواز بھٹو تھے ،تم آصف علی زرد ا ری کے بیٹے ہو۔

تم بمبینو سینما کے وارث تو ہو سکتے ہو۔ بھٹو کے وارث نہیں ہو سکتے ہو۔ ،تم نے اپنی ماں کے قاتلوں کا
جینا تو حرام کیا نہیں ۔الطاف بھائی کا جینا کیا حرام کرو گے؟“ سیانے اسی لئے کہتے ہیں کہ شیشے کے گھروں میں رہنے والے دوسرو ں کے گھروں پر پتھر نہیں پھینکا کرتے۔خیر یہ تو دو ایسی سچی باتیں ہیں ، جو ہمیشہ بلاول زرداری کا پیچھا کرتی رہیں گی اور چونکہ اِن باتوں کا تعلق قوم و ملت کے نفع و نقصان سے نہیں ہے۔

قوم و ملت کے نفع و نقصان کا تعلق تو اُس لوٹ کھسوٹ سے ہے۔جو نئے پاکستان کے ایجنڈے پر سرِ فہرست ہے۔ڈاکٹر شاہد مسعود کے ایک حالیہ پروگرام کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی نے تحریک انصاف کو میاں نواز شریف کے خلا ف اپنی حمائیت کی پیش کش بہت پہلے اس شرط کے ساتھ کی تھی، کہ وہ (عمران ) احتساب کے موجودہ عمل کو اسی طرح چلنے دیں گے۔ ا سے فعال بنانے کی کوشش نہیں کریں گے۔

جس کے جواب میں عمران خان نے اُن کی حمائیت لینے سے صاف انکار کر دیاتھا کہ عمران خان کی سیاست محض جھوٹے نعرروں کا سنہری جال نہیں ہے ، وہ پاکستان اور پاکستان کے غریب عوام کے ساتھ مخلص ہیں ۔ اگر وہ بھی جھوٹے ثابت ہوئے تو پھر ان کا حشر میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری سے بھی برا ہو گا۔اِس لئے کہ کسی خالصتاً جمہوری نظام میں طاقت کا سرچشمہ عوام ہوتے ہیں اور عمران خان کی طاقت پاکستان کا پڑھا لکھااور با شعور طبقہ ہے۔

جن کے سامنے اُن (عمران خان ) کی کوئی چالاکی نہیں چل سکے گی۔ ”ہم پاکستان کی ترقی کے پہیئے کو رکنے نہیں دیں گے،ہم کسی کو پاکستان کی تعمیر و ترقی کے راستے میں آنے کی اجازت نہیں دے سکتے ،ہم کسی کو جمہوریت کو ڈیریل کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔‘ اس قسم کے کھوکھلے اور بے معنی نعرے پاکستان کا پڑھا لکھا طبقہ کھوٹے سکوں کی طرح اُن کے مُنہ پر دے مارے گا اللہ وہ وقت نہ لائے کہ پاکستان کے غریب عوام کی امیدوں کے اندھیروں میں روشنی کی ایک لکیر عمران خان ہی ہیں ۔

لیکن خاکم بدہن اگر انہوں نے بھی اپنے وعدوں سے چشم پوشی کی تو ان کے خلاف سب سے زیادہ لکھنے والوں میں میرا نام بھی سر ِفہرست ہو گا۔کہ میری پارٹی پاکستان اور پاکستان کے غریب لوگ ہیں۔زرداری صاحب کی پیش کش سے دو باتیں عیاں ہو گئی ہیں کہ ہمارے لیڈر بھی عمران خان کو آ ئندہ کا وزیر اعظم دیکھ رہے ہیں اور دوسری بات یہ کہ یہ لوگ جو جمہوریت کی آ ڑ میں سب متحد ہو گئے ہیں۔

فقط اپنے کھائے ہوئے کو ہضم کرنے کے لئے اکٹھے ہو گئے ہیں۔جس کا اظہار راقم پہلے بھی کئی بار کر چکا ہے ۔
چند سطور پہلے میں نے بلاول زرداری کی اپنے نانا بننے کی قبل از وقت اور ناکا م کوشش کہا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی سیاسی زندگی کی شرو عا ت شاید قدرتی وسائل کی وزارت سے کی تھیں ، ذہین و فطین اور معامل فہم انسان تھے۔ اُسی وزارت کے دوران وہ جنرل محمد ایوب خا ں کی ناک کا بال بن گئے تھے اور انہوں نے مارشل لاء کی مدد سے پا کستان کے اقتدار پر قابض ہونے والے جرنیل محمد ایوب خان کو ڈیڈ ی اور ایوب خان نے بھی انہیں پیار سے زلفی کہنا ہی شروع کر دیا تھا اور انہیں فارن منسٹر بھی بنا دیا تھا۔

ستمر ۶۵ کی پاک و ہند جبگ میں پاکستان کے فار ن منسٹر کی حیثیت سے یو۔ این۔ او میں بھٹو شہید کی تقریر میں اُن کے دو جملوں نے،” ہم کشمیر کے لئے ہزار سال تک لڑتے رہیں گے“ اور یہ کہ” انڈین ڈاگز کشمیر پر قابض ہیں“ اُنہیں قوم کا ہیرو بنا دیا تھا ۔ الغرض اُنہوں نے خار زار ِ سیاست کی اچھی خاصی سیاحت کے بعد اپنی پارٹی بنائی تھی اور اپنے بل بوتے پر سیاست میں آئے تھے۔

بلاول آپ کس وراثت کی بات کرتے ہیں؟ بھٹو جب سیاست میں داخل ہوئے تھے۔تو ان کے پاس ایک گھر کلفٹن میں اور ایک گھر لاڑکانہ میں تھا۔اور جب ( شہید ) ہوئے ہیں تو ان کے پاس اُس وقت بھی صرف وہی دو گھر تھے۔آج اُن کے دشمن بھی کہتے ہیں کہ بھٹو نے کوئی مالی کرپشن نہیں کی۔جب کہ آپ کے والد نے ایک محل دوبئی میں ، ایک محل پیرس میں،سر ِ محل لندن( انگلینڈ) بھی تھا، جو اب بک چکا ہے۔

لیکن ان کی پراپرٹی لندن اور امریکہ میں بھی بتائی جاتی ہے اور نقد سرمایہ بھی بلینز میں بتایا جاتا ہے۔پاکستان میں بھی ایک بلاول ہاوٴس کراچی میں ، ایک لاہور میں اور اب کس ڈھٹائی سے اعلان فرما رہے ہیں ایک بلاول ہاوٴس پختون خواہ میں بھی بنائیں گے۔
ذوالفقاری علی بھٹو( شہید) کے خود ساختہ وارث کبھی یہ بھی سوچا کہ جس سرمائے کے بل بوتے پر، تم لندن میں مغلیہ دور کے شاہوں اور عیاش شہزادوں کی طرح زندگی بسر کر کے شرمناک اسکینڈلز کو جنم دیتے رہے ہوجن کا تذکرہ آج بھی برطانیہ کے اخبارات میں ہوتا رہتا ہے، وہ سرمایہ تمہارے باپ کے پاس ان کی کس آمدن سے آیا ہے ؟ پہلے سوچو اور پر خود کو بھٹو کا وارث کہنا۔

کوئی ہجڑا کسی بہادر جرنیل کی وراثت کا دعوایٰ کر کے، جرنیلی کے خواب نہیں دیکھ سکتا کہ محاذ پر ٹھمکے نہیں لگا ئے جاتے۔محاذ پر گولیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔” مرسوں مرسوں، سندھ نہ دیسووں“ آپ کے خاندان کا یہ سیاسی کارڈ اب پٹ چکا ہے ۔ سندھی بھی یہ جا ن چکے ہیں کہ آپ کے خاندان نے لوٹ کھسوٹ کے علاوہ سندھ کے لئے کچھ نہیں کیا ہے ؟ وہاں تو آج بھی لوگ پینے کے لئتے پانی کو ترس رہے ہیں۔

بھوکوں مر رہے ہیں۔
جب آپ کی والدہ کی حکومت دوسری بار کرپشن کے الزامات میں توڑی گئی تھی،تو اُس وقت راقم نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا بے نطیر بھٹو کی سیاست میں زرداری سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔آج یہی بات آپ کے لئے لکھ رہا ہوں کہ آپ کے راستے میں بھی سب سے بڑی رکاوٹ آپ کے والد ِ محترم ہی ہیں اور آپ اپنے نام کے ساتھ بھٹو لگا کر اس رکاوٹ سے چھٹکارہ حاصل نہیں کر سکتے۔

اگر آپ اپنے نانا کی پارٹی کو دوبارہ زندہ کرنے کے لئے واقعی مخلص ہیں تو پھر اسے بے نظیر بھٹو کے زمانے کے پرانے لوگوں اور بھٹو شہید کی حقیقی وارث فاطمہ کے حوالے کر دیں۔جو آپ کے مقابلے میں کہیں زیادہ سمجھ دار اور سیاسی شعور رکھتی ہے۔ لیکن آپ ایسا نہیں کریں گے۔آپ پارٹی کے ساتھ اور نہ قوم و ملت کے ساتھ مخلص ہیں۔آپ صرف لوٹ کھسوٹ کے ساتھ مخلص ہیں۔

پاکستان کے ہر صوبے میں ایک بلاول ہاوٴس بنانے میں مخلص ہیں۔جس لوٹ کھسوٹ کے حوالے سے سبھی لٹیروں کے انجام پر مجھے غالب کا
ایک شعر یاد آ رہا ہے۔جس شعر کی صحت کی ضمات نہیں دے سکتا۔
ابھی کہاں ہے ہماری بربادی مکمل
ابھی تو ہوا میں مشتغبار ہونا باقی ہے
یعنی ابھی تو مرنا، مرنے کے بعد قبر میں دفن ہونا اور قبر کی مٹی کا ہوا میں مشتغبار ہو کر ہمیں بے نام و نشاں چھوڑنا باقی ہے۔انشاللہ میری غریب قوم کے لٹیروں کا یہی حال ہو گا۔ اک نیا پاکستان بن تو لینے دوٴ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :