ایجنٹ ملالہ

ہفتہ 25 اکتوبر 2014

Jahid Ahmad

جاہد احمد

اتنا غم و غصہ کس بات کا ہے جناب؟ ایک پاکستانی کو نوبیل انعام سے کیوں نوازا گیا یا پاکستانی تک تو بات ٹھیک تھی پر ایک سترہ برس کی لڑکی کو کیوں اس قابل سمجھا گیا یا ایک عددپاکستانی لڑکی تک بھی بات ٹھیک تھی پر ملالہ جیسی تعلیم کی داعی ایجنٹ کو انعام کا حقدار ٹھہرائے جانے کا افسوس ہے؟
زندہ قومیں اپنے حقیقی قومی سورماؤں کو سر آنکھوں پر بٹھاتی ہیں اور عزت و تعظیم سے نوازتی ہیں پر یہاں کا دستور نرالا ہے! 2014 میں ملالہ غیر ملکی ایجنٹ ہے تو 1979 میں پروفیسر ڈاکٹر عبداسلام پر نفرتوں کی توپوں سے الزامات کے گولے برسائے جاتے رہے تھے۔

دونوں شخصیات میں پاکستانی شہری ہونا، غیر ملکی ایجنٹ کا خطاب پانا اور نوبیل انعام کا حقدار ٹھہرنا مشترک قدریں ہیں۔ پاکستان کے ناخواندہ فرقہ پرست معاشرے میں ڈاکٹر عبدالسلام سے نفرت کی وجوہات سمجھنامشکل امر نہیں کیوں کہ اول جس الیکڑو ویک نظریے کی بنیاد پر اس عظیم نظریاتی ماہر طبعیات کو نوبیل انعام سے نوازا گیا تھااس کی وقعت رجعت پسند پاکستانی معاشرے کی نظر میں ایک مکمل گول صفر کی سی تھی، دوم کائنات کے اسرار و رموز سمجھنے کی کامیاب سعی کرنے کی پاداش میں مذہبی طور پر وہ گناہ کبیرہ کے مرتکب ہو رہے تھے اورسوئم یہ کہ ڈاکٹر صاحب کا تعلق اقلیتی احمدی فرقے سے تھا جو انہیں قابلِ نفرت بنانے کے لئے بہت کافی اور معقول وجہ تھی۔

(جاری ہے)

اب 2014 میں اکثریتی پاکستانی معاشرے کی نوبیل انعام یافتہ سترہ سالہ مسلم ملالہ سے نفرت کی وجوہات سمجھنے کی کوشش کی جائے توU Turn کے چمپین معاشرے کا ٹوٹا پھوٹا وجود نکھر کر سامنے آن کھڑا ہوتا ہے!
2012 میں ضیاء الحق مرحوم کا پروان چڑھایافرقہ واریت اور طالبانائزیشن کاسورج پوری آب و تاب سے آنکھیں خیرہ کئے دے رہا تھا۔ وہ روشن دور جہاں الباکستان میں طالبان حمایتی سیاسی اور مذہبی و فرقہ پرست جماعتیں و عناصر دہشت گردی کی ہرکاروائی کو یہود و ہنودو مغرب کی سازشوں اور ڈرون حملوں کا ردِ عمل قرار دیتے ہوئے طالبان کے قتل و غارت گری اور نظریہ کو جہادی لبادہ اوڑھا کرعوام الناس کے دلوں میں جماعت کے لئے نرم گوشہ ابھارنے اور فکری یکسانیت پیدا کرنے کی کامیاب مہم پر عمل پیرا تھیں ۔

سوات میں فوجی آپریشن کے بعد بھی طالبان علاقے میں کاروائیاں جاری رکھے ہوئے تھے۔ ایسے ماحول میں پندرہ سالہ ملالہ کا تعلیم کے حصول کی خاطر طالبان نامی وحشت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کراپنی تعلیم جاری رکھنا اور سوات میں طالبان کے اثر و رسوخ اور ظلم و جبر سے دنیا کو آگاہ کرنے کے مقصد سے بی بی سی کے لئے سوات کے روز مرہ کے معمولات پرڈائری لکھنا جرم ٹھہرا جس کی منطقی سزا کے طور پر بالآخر ملالہ کو طالبان کی بربریت کا نشانہ بننا پڑا۔


اس نقطے سے آگے پاکستانی قوم کی بددیانتی، جامد سوچ و تنگ نظری، دوغلے پن، فکری زوال،نظریاتی دماغ شوئی کے اعلی مظاہرے تعلیم کی ایجنٹ ملالہ سے نفرت کی وجوہات بیان کرتے ہیں۔طالبان کی حمایت میں اعتراض اٹھتا ہے کہ سر میں گولی لگنے کے باوجود ملالہ زندہ کیسے بچ سکتی ہے؟ ملالہ پر حملے کے واقعہ کو ڈرامہ قرار دیا جانے لگا! جدید تحقیق کے مطابق مہلک طریقہ سے سر میں لگی گولی کے باوجود زخمی شخص کے زندہ بچ جانے اور صحت یاب ہونے کے امکانات پانچ سے دس فیصد ہوتے ہیں جبکہ تمام قسم کی سر میں لگنے والی گولیوں کے زخموں سے بچ جانے اور روبہ صحت ہونے کے امکانات تیس سے چالیس فیصد تک ہوتے ہیں۔

سر میں لگی گولی سے نقصان کا انحصار اس بات پر ہے کہ گولی سر کے کس حصے میں لگی اور دماغ کے کس حصہ کو کس قدر متاثر کیا۔ جذبہ ایمانی کی بات کریں تو بددیانتی کا ایسا ثبوت دیا گیاکہ بالفرض ملالہ کی جگہ کوئی جہادی ایسے کسی حملے سے زندہ بچ جاتا تو اہلِ ایمان پکارتے نہ تھکتے ’جسے الله رکھے اسے کون چکھے‘! لیکن ملالہ کے کیس میں پینترا بدل کر الله کی حکمت اور بزرگ و برتری بھی پسِ پشت ڈال دی گئی۔

بھلا ہو آئی ایس پی آر کاجس نے حال ہی میں ایک پریس بریفنگ میں ملالہ پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کی شمالی وزیرستان سے آپریشن کے دوران گرفتاری کی نوید سنا کر کم از کم یہ واضح کر دیا کہ ملالہ پر واقعی حملہ ہوا تھا نہ کہ کوئی ڈرامہ تخلیق کیا گیا تھا!مزید براں اس گولی نے مستقل طور پر ملالہ کے بائیں کان کا پردہ اور دماغ کی ان رگوں کو متاثر کیا ہے جو چہرے کے پٹھوں کو قابو کرتی ہیں۔


ملالہ کتاب لکھے ، اپنی آپ بیتی بیان کرے، اپنے تجربات اور عقل کی بنیاد پرمتنوع موضوعات پر اظہارِ خیال کرے توباعثِ نفرت اور اگر نوبل انعام کے لئے نامزد ہو تو سی آئی اے ایجنٹ !درحقیقت نفرت کی وجہ ملالہ کے اعمال نہیں معاشرہ کی تنگ نظری اور وہ جامد سوچ ہے جو مخصوص زاویوں سے ہٹ کر سوچنے، سمجھنے اور عمل کرنے کو قابلِ مذمت قرار دینا فریضہ اول جانتی ہے۔

فکری زوال اور نظریاتی دماغ شوئی اس نہج پر ہے جہاں قوتِ برداشت کی شدت سے کمی واقع ہو چکی ہے اور حالات یہ ہیں کہ مخالف کے کسی بھی پرمغز سوال کا مدلل جواب میسر نہ ہونے کی صورت میں کفر کا فتوی اور صیہونی سازش کے الزام کی تلوار انحراف کرنے والے کی گردن مارنے پر تیار کھڑی نظر آتی ہے۔قومی یکجہتی کے حصول کے مقصد سے مغرب کے بارے پیدا کیا گیا شدید ترین تعصب بھی عوام الناس کی جانب سے ہر اس شخص کے لئے بائی ڈیفالٹ نفرت کے جذبات پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے جسے قوم کے منظور نظر نظریات سے ہٹ کر مغرب سے سراہا جائے۔


ڈاکٹر عبدالسلام کا کارہائے نمایاں کم تعلیم یافتہ اور سائنس سے نابلد معاشرے کے لئے غیر اہم کام ہے مگر افسوس تو یہ ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم کے لئے سوات جیسے علاقہ میں ایک چھوٹی سی باہمت بچی کا اپنی جان داؤ پر لگا کر جہالت اور درندگی کے خلاف عَلم عِلم بلند کرنا بھی اس معاشرے کے لئے کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا جو اس بات کی دلیل ہے کہ علم کی اہمیت کے حوالے سے پاکستانی معاشرے کی سوچ مزید ابتر ہوچکی ہے ۔

باہمت ایجنٹ ملالہ کی اس جد و جہد نے عالمی سطح پر بچوں کی تعلیم کے حوالے سے آگہی کے وہ نتائج برآمدکیے ہیں جویقینا اربوں ڈالر خرچ کر کے بھی حاصل نہیں کیے جا سکتے تھے۔ ملالہ ان کڑوڑوں بچوں کے لئے مشعلِ راہ بن گئی ہے جو حصولِ تعلیم کے حوالے سے نا موافق حالات کا شکار ہیں لیکن علم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
ملالہ نے درست کہا ہے کہ ایک بچہ، ایک کتاب، ایک قلم اور ایک استاد اس دنیا کو بدل سکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :