ناکامی و کامیابی

اتوار 19 اکتوبر 2014

Hussain Jan

حُسین جان

قدر تو اُسی کی ہے جو کامیابیوں کی مختلف منازل طے کرتا ہوا آسمانوں میں چمکتے ستاروں میں سے ایک ستارہ لگے۔اکثر اوقات ایسے اوراق بھی پڑھنے کو مل جاتے ہیں جس میں کچھ ایسی ہستیوں کا ذکر ملتا ہے جو اپنی جوانی یا بچپن میں کسی نہ کسی طرں ناکام ہوئے مگر پھر زندگی کے ایک حصے میں آکر کامیابی نے اُن کے قدم چومے۔ لیکن یہ تعداد آٹے میں نمک اور اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہے۔

زیادہ تر ناکام لوگوں کو دُنیا کچھ خاص منہ نہیں لگاتی اور آخر کار وہ کڑھتے کڑھتے اس دُنیا سے اپنا بستر گول کرلیتے ہیں۔ کچھ ناکام حضرات ناکامی کو اپنی کمزوری نہیں بننے دیتے اور بار بار کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح ایک کامیاب انسان بن جائے۔ ہر انسان زندگی کے مختلف شعبوں میں سے کسی نہ کسی شعبے سے وابستہ ہوتا ہے، ہر کرکٹ کھیلنے والا خود کو بڑا عالمی کرکٹر بننے کے خوا ب دیکھا کرتا ہے مگر آفریدی کی طرح نہیں بلکہ دوسرئے کامیاب کھلاڑیوں کی طرح جو باتیں کم اور کام زیادہ کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

اسی طرح وکالت کے پیشے سے وابستہ افراد بڑئے وکیل بننا چاہتے ہیں اور پھر ملکی سیاست میں اہم کردار ادا کرنے کے خوائش مند ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر حضرات جو ساری زندگی غریبوں کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالتے رہتے ہیں اُن کی بھی خوائش ہوتی ہے کہ وہ مشہورو معروف ڈاکٹر کہلائیں اور اُن کے مریضوں میں ملک کے نامور لوگ شامل ہوں تاکہ پیسہ بنانا آسان رہے۔
سیاستدان تو خیر شروع سے ہی ملک کا وزیر آعظم بننے کی تمنا کیے ہوتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ تیسری دفعہ ملک کا سب سے بڑا عہدہ ملنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔

سیاستدان بھی عجیب شے ہوتے ہیں ان کی ساری زندگی جھوٹے وعدئے کرتے ہی گزر جاتی ہے یہاں تک کہ اگر بیگم کوئی چیز بھی مانگ لے تو ایک لمبی چوڑی تقریر کرکے اُس کے ساتھ ساتھ اپنا غم بھی کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سیاست میں کامیابی تو نصیب سے ہی ملتی ہے مگر ناکامی اپنی کوشش سے حاصل کی جاتی ہے جس کی تازہ اور زندہ مثال ہاشمی صاحب موجود ہیں۔
دوسری طرف ایک طبقہ ہوتا ہے جو اصلی معنوں میں ملک کی بھاگ دوڑ سمجھالے ہوتا ہے یعنی ہمارے آقا بیوروکریٹس ان کی شاہانہ زندگی کی جھلک تو اکثر اوقات میڈیا پر چلتی ہی رہتی ہے ۔

یہ وہ طبقہ ہوتا ہے جس نے کبھی ناکامی کا لفظ سنا بھی نہیں ہوتا ایک دفعہ بیوروکریٹ بن گئے تو بس پھر کامیابیاں ہی کامیابیاں ہوتی ہیں مڑ کر دیکھنے کا ان میں رواج نہیں ہوتا۔ ہمارے سرکاری اداروں کے تمام اہلکار اپنے آپ میں ایک انجمن ہوتے ہیں انجمن اداکارہ نہیں بلکہ تنظیم والی انجمن۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جب اپنی آئی پر اُتر آئیں تو بڑئے بڑئے لوگ دفاتر کے چکر لگا لگا کر اپنی جوتیاں گھِسابیٹھتے ہیں مگر کامیابی حاصل نہیں ہوتی۔


ویسے تو ہمارئے ہاں فلم انڈسٹری بالکل تباہ ہو چکی ہے مگر ابھی بھی کچھ پرانے اور نئے لونڈے لونڈیاں اس کا حن بہال کرنے کے چکروں میں نظر آتے ہیں ۔ ایک دفعہ کسی اداکارہ کا انٹرویوپڑھا کہنے لگیں میں پاکستان کی بہترین اداکارؤں میں سے دوسرئے نمبر پر آتی ہوں جب اداکاروں کی تعداد پوچھی گئی تو وہ صرف دو ہی نکلی۔ اسی طرح ہر اداکار خود کو سب سے بڑا اداکار ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

ہمارے ہاں کچھ میراثی بھی پائے جاتے ہیں جن کی آجکل زیادہ ڈیمانڈ میڈیا پر ہے ان میں سے کچھ تو خاندانی میراثی ہیں مگر زیادہ تر گھس بیٹھیے ہیں جو خود کو خاندانی میراثی ثابت کرنے کے لیے اکثر ٹی وی پر اپنی منحوس شکل مزید منحوس بنانے کی کوشش کرتے پائے جاتے ہیں۔
ویسے تو ہمارے ہاں کچھ اقتصادیات کے ماہر بھی پائے جاتے ہیں جو بی کام کی تعلیم پوری کرکے خوائش کرتے ہیں کے ملک کے کسی بڑئے ادارئے کے معاشیات کے تمام معاملات ان کے ہاتھ میں ہونے چاہیے لیکن اس میں کامبیابی اُنہی لوگوں کو ملتی ہے جن کی سیاست میں رشتہ داریاں ہوں ورنہ سنڈئے کہ سنڈے اخبارات میں نوکریوں کے اشتہارات دیکھنے کے سوا ان کو کئی کام نہیں ہوتا۔

ویسے ہمارئے ملک کا نظام تعلیم بھی کسی سے کم نہیں یہاں ہر للوپنچوخودکو ماہر تعلیم سمجھتا ہے اور لوگوں میں تعلیم کے بارے میں شعور پیدا کرنے کی کوشش کرتا دیکھائی دیتا ہے۔ اس طرف ہماری حکومتیں بھی کسی سے پیچھے نہیں کروڑوں روپے کے اخباری اشتہارات باقاعدگی سے چھپتے ہیں تاکہ لوگوں میں شعور اُجاگر کیا جاسکے یہ الگ بات ہے کہ اس سے اخباری مالکان میں تو شعور پیدا ہوجاتا ہے غریب بیچارے تو اشتہارات پڑھنے کے قابل ہی نہیں ہوتے۔

ہمارے ہاں آجکل ایک نئی قسم کے لوگ بھی پیدا ہوئے ہیں جو اپنے آپ کو اینکر کہلوانہ پسند کرتے ہیں۔ یہ طبقہ خود کو تمام طبقوں سے برتر سمجھتا ہے کہ یہ ہر ایک کو مثالیں دیتے نظر آتے ہیں ایسی ایسی دانشوری کی بات کرتے ہیں کہ بعد میں سنا ہے خود بھی شرمندہ شرمندہ نظر آتے ہیں۔ ان کا کام اپنے کچھ جاننے والے سیاستدانوں کے بیٹھا کر ملکی تقدیر کے فیصلے کرنے میں مشورہ دینا ہوتا ہے۔

وہ تو اللہ بھلا کرئے ہمارے سیاستدانوں کا جو کسی کی سنتے نہیں ورنہ ان احباب کو باتوں میں آجائیں تو ملک کا مزید بیڑہ غرق ہو جائے۔
تو ہمارے ہاں کامیابی اور ناکامی کو ماپنے کا معیار صرف اور صرف عہدہ اور پیسہ ہے جس کے پاس جتنی بڑی گاڑی ،گھر ،بینک بیلنس ہوگا وہ اُتنا ہی کامیاب ٹھہرائے جانے کا مستحق ہو گا۔ یہاں جس کی گاڑی کے پیچھے جتنے زیادہ گارڈ ہو ں گئے وہی کامیابی کی تعریف پر پورا اُترئے گا چاہے اُس کے گارڈ کسی بے گنا ہ کا ناحق خون ہی کیوں نہ بہا دیں۔

پاکستان میں ناکامی کا منہ کوئی نہیں دیکھنا چاہتا یہاں تو ہر انسان خود کو پیدائشی کامیاب انسان سمجھتا ہے سب کے اپنے اپنے مفاد ہیں ویسے ہمارئے ہاں دو نمبر ی میں کامیابی حاصل کرنا زیادہ آسان ہے۔ کہا جاتا ہے سیکھنے کا عمل ناکامی سے ہی شروع ہوتا ہے مگر اپنے ہاں کوئی ناکام ہوگا تبی تو سیکھنے کا عمل شروع ہو گا شائد اسی لیے ہم زندگی کے تمام شعبوں میں پیچھے راہ گئے ہیں کہ ہمارے سیکھنے کا عمل کبھی شروع ہوتا ہی نہیں۔

ہمیں ناکامی کی عادت نہیں کامیابی حاصل کرنے کے لیے ہم کسی حد تک بھی جاسکتے ہیں چاہیے اُس کے لیے ہمیں کتنے ہی لوگوں کا حق مارنا پڑئے کتنی ہی لاشوں سے گزرنا پڑئے لیکن کامیاب ضرور ہونا ہے کامیابی کی ایک تصویر تو ملک میں بنتی ہوئی نئی نئی کالونیاں ہیں ہے جہاں دیکھو ایک نئی پوش بستی بننے کو تیار ہے جو کہ کامیابی کی علامت بنتی جا رہی ہے۔

دوسری طرف قبضہ گروپ بھی کافی حد تک کامیاب ہوتے نظر آتے ہیں کہ ان کا بھی جہاں دل کرتا ہے اپنے تمبوں لگا کر سرکاری زمیں پر قابض ہو جاتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔
اگر کامیابی کا گراف ایسے ہی چلتا رہا تو وہ وقت دور نہیں جب ہم کامیاب تو ہو جائیں گے مگر کوئی مقام حاصل نہیں کر پائیں گے۔ دُنیا میں عزت تو پہلے ہی کھو چکے ہیں اب مزید دیکھیں کیا کیا کھوتے ہیں کیا واقعی ہم کھوتے ہیں؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :