سیاست و صحافت کی بدلتی قدریں

بدھ 15 اکتوبر 2014

Prof.Mazhar

پروفیسر مظہر

سیاست بلاشبہ سیادت ہے اور سعادت بھی۔شرط مگر یہ کہ اِس میں صداقت ،امانت ،دیانت اور شرافت کی چاشنی ہواور قوم کا سردار اپنے قول و فعل سے قوم کا خادم نظر آئے۔لیکن یہ کیسی سیاست ہے جس میں محض کثافت ہی کثافت ہے؟۔یہ کیسی سیاست ہے جس میں پگڑیاں اچھالی جاتیں اور طنز کے تیروں سے مخالف کوگھائل کرکے لطف اندوز ہوا جاتا ہے ؟۔ جس میں عدم برداشت کا یہ عالم کہ ذاتیات تک اترنے میں بھی کوئی قباحت محسوس نہیں ہوتی؟۔

جس میں”کُرسی“سے محبت کی جنگ میں ناروا کو بھی روا سمجھا جاتا ہے؟۔اور یہ کیسی سیاست ہے جس کے رنگ انوکھے اور ناقابلِ یقین ہیں ؟۔ بھٹو دَور تک تو جلسے جلوسوں میں ڈھول کی تھاپ کو بھی معیوب سمجھا جاتا تھا لیکن اب تو ماشاء اللہ ڈی جے بَٹ بھی ہوتا ہے اور عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی بھی ۔

(جاری ہے)

”اَج میرا نچنے نوں جی کردا “ گانے والے بھی اوررہنماوٴں سمیت گانوں پر والہانہ رقص کرنے والے بھی۔

مان لیا کہ یہ نسلِ نَو کومتوجہ اور متحرک کرنے کا حربہ ہوگالیکن قائدین کی بَد زبانی اور بَد کلامی؟۔ کہہ لیجئے کہ زبان کی یہ سختی بھی نو نہالانِ وطن کے اندرخونِ گرم کی لہریں تازہ دَم کرنے اور اُنہیں جھپٹنے ،پلٹنے کے گُر سکھانے کی سعی ہے لیکن جھوٹ؟۔تسلیم کہ جھوٹ کی آڑھت سجانے کا مقصد اِہلِ وطن کواپنے سیاسی ”رقیبانِ روسیاہ“ سے متنفر کرنا ہے لیکن قومی و ملّی سلامتی ،حبّ ِوطن اور دھرتی ماں کا قرض؟۔

کیا یقین کر لینا چاہیے کہ ہمارے رہبروں کو غرض ہے تو صرف ”راج سنگھاسن“سے ،باقی سب جائے بھاڑ میں۔ یہ سوال تو پھر بھی تشنہٴ جواب ہی ر ہے گاکہ اگر خاکم بدہن ملک ہی نہ رہا تو پھر اِن کی ”راج گدی“کا کیا بنے گااور یہ حکومت کِس پر کریں گے؟۔اِس لیے بتقاضہٴ عقل انہیں راج کرنے کے لیے کم از کم زمین کا یہ ٹکڑا تو بچا لینا چاہیے جس کا نام پاکستان ہے اور جس کے بنانے میں اِن کا ہاتھ ہے نہ اِن کے ”پُرکھوں“ کا۔

لیکن یہ توجانے انجانے میں اسی کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے پر تُلے بیٹھے ہیں۔
چلیں یہ سیاست تو اشرافیہ کا کھیل ہے اور اِس کھیل میں ہار جیت بھی اُنہی کی ہوتی ہے لیکن ہماری صحافت ٹیڑھی چال کیوں چلنے لگی۔کسی بھی معاشرے میں صحافی مصلح کا کردار ادا کرتا ہے اوراُس کی تنقید و تنقیص میں ہمیشہ اصلاح مضمر ہوتی ہے لیکن بد قسمتی یہ ہوئی کہ سیاسی کثافت ہماری صحافت میں بھی دَر آئی ہے ۔

ہر لکھاری کا اپنا اپنا قبلہ اور اپنا اپنا کعبہ اور ہر کوئی اپنے اپنے ممدوح کی مدح میں مگن ۔یہاں تک تو شاید قابلِ قبول بھی ہوتا کہ نہ تو کسی کی سوچوں پر پہرہ بٹھایا جا سکتا ہے اور نہ ہی تحریر و تقریر کی آزادی کا حق چھینا جا سکتا ہے لیکن عدم برداشت کے زہریلے نشتر اب ہمارے کالموں میں بھی نظر آنے لگے ہیں۔سبھی نہیں لیکن بہت سے لکھاری اب گالی گلوچ اور طنز و تعریض کو ہی اپنی تحریروں کا حسن سمجھنے لگے ہیں اور نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ جسے کچھ عرصہ پہلے تک گالی سمجھا جاتا تھاوہ نسلِ نَو کی روز مرہ گفتگو میں مستعمل ہو تی جا رہی ہے ۔

ایک محترم لکھاری جو کبھی کبھارکپتان صاحب کے جلسوں میں بھی نظر آجاتے ہیں ،وہ خاں صاحب کے عشق میں اتنا آگے نکل گئے کہ عقل و فہم سے تہی نظر آنے لگے ۔محترم جاوید ہاشمی کی تحریکِ انصاف سے علیحدگی کے بعد اُنہوں نے لکھا ”سیلف میڈ مخدوم، مجہول ،بوگَس ،بَدبودار،باغی ہمیشہ کی طرح بکاوٴنکلا۔۔۔۔ ضیاء الحق کے فوجی بوٹ کا یہ تسمہ اور نواز شریف کے جوتے کا تلوا بننے تک یہ ایک احمق ایجی ٹیٹرکے سوا کچھ بھی نہ تھا“۔

محترم کالم نگار اگر یہی سب کچھ شاہ محمود قریشی کے بارے میں بھی لکھ دیتے تو ہم اُن کی عظمت کو سلام کرتے کیونکہ ہاشمی اور قریشی ،دونوں کا ماضی بالکل ایک جیسا ہے لیکن اُنہوں نے ایسا نہیں کیا،شاید وقت کا تقاضہ ہو گا اور موصوف توہمیشہ بہتے ہی وقت کے دھاروں کے ساتھ ہیں۔کسی زمانے میں اُ ن کے ممدوح وہ ہوا کرتے تھے جو ایک آمر کو دَس بار وردی میں منتخب کروانے کے دعوے دار تھے اور یہ تو موصوف جانتے ہی ہونگے کہ جہانگیر ترین ،خورشید قصوری ،شیریں مزاری اور اُن جیسے کئی اوربھی اُسی درخت کے پتے ہیں جو پَت جھڑ کا موسم آتے ہی جھڑے ،اُڑے اورخاں صاحب کی جھولی میں آگرے۔

اُن کے بارے میں موصوف کی زبان خاموش کیوں ہے؟۔رہاکالموں میں غیر پارلیمانی الفاظ کے استعمال کا مسٴلہ تو موصوف کی یہ پُرانی اور پختہ عادت ہے جس کاوہ کئی بار مزہ بھی چکھ چکے ہیں۔
ایک اور محترم لکھاری جو انتہائی خوبصورت نثر لکھنے کے ماہر ہیں (یہ الگ بات ہے کہ اُن کے کالموں کو پڑھنے اور سمجھنے کے لیے ادبیات میں کم از کم پی ایچ ڈی ہونا ضروری ہے ) اُنہوں نے بھی آجکل کپتان صاحب اور علامہ صاحب کے عشق میں ڈوب کر جو کالم لکھنا شروع کیے ہیں اُن میں اپنی ہی برادری کے لوگوں پر رکیک حملوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔

اُن کے کالم پڑھ کر دُکھ کی ایک لہر پورے جسم میں سرایت کر جاتی ہے کیونکہ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ وہ صاحبِ علم بھی ہیں اورذاتی زندگی میں انتہائی شفیق بھی ۔اُنہوں نے چند معروف اینکرز اور کالم نویسوں کا نام لے کر لکھا ہے کہ وہ تھرڈ کلاس قسم کی جگت بازی کرتے ہیں اور محدود سوچ کے گنبدِ بے در کے اسیر اپنی بے ہنگم فکر کے ننھے مُنے کنویں کے خوردبینی میڈک ہیں ۔

وہ بوزنے ، نرگسیت کے شکار ،نفسیاتی مریض ،ہوسِ زر کے مارے اور سستی شہرت کی سولی پہ چڑھے فطری بالشتیے ، سیاسی بونے اور ذہنی ناٹے ، حمد و ثنا اور تعریف و توصیف کرکے دہاڑی لگانے والے ، اپنی اوقات اور اصلیت بھولنے والے ہیں ۔۔۔۔ محترم لکھاری کے کالم کاکسی نے بھی جواب نہیں دیا اِس لیے کہنا ہی پڑتا ہے کہ
کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بھی بے مزہ نہ ہوا
اُنہوں نے اپنے ”عصائے موسوی“ سے نَو مولود و نَو آموز کالم نگاروں کی دُرگت بناتے ہوئے کہا کہ یہ خواتین و حضرات کالم کو اُگالدان سمجھ کر اُبکائیاں کرتے پھرتے ہیں ۔

حالانکہ یہ جانتے ہی نہیں کہ کالم کسے کہتے ہیں ۔حیرت اُن مدیرانِ کرام کے انتخاب پر جو اقرباء نوازی کے منفی جذبے سے مغلوب ہو کر اِن کی بے ہنگم تحریروں کو کالم کا عنوان دے کر شائع کرتے ہیں حالانکہ اِن کا اصل مقام صرف اور صرف کوڑے دان ہے ۔یہ ناٹے اور ناٹیاں عمران خاں کی کردار کشی کی مہم لانچ کیے ہوئے ہیں ۔یہ گلے سَڑے بوسیدہ ، غلیظ ، متعفن ، مکروہ اور بَد بودار نظام کے فلتھ ڈپو کے کیڑے مکوڑے ہیں ۔

۔۔۔اِن کی ایڑی میں عمران خاں کا کونسا اقدام کیل بن کر چُبھ رہا ہے اور اِس کی ٹیسیں اُن کے قلب و جگر کو کیوں زخما رہی ہیں ۔دست بستہ عرض ہے کہ یہ ناٹے ناٹیاں محترم لکھاری کی طرح ”پیدائشی کالم نگار“نہیں اگر میرے بَس میں ہوتا تو میں اِن سبھی کو اکٹھا کرکے محترم کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کر دیتا۔رہی ایڑی میں چبھن کی بات تو عرض ہے کہ اُنہوں نے ابھی تک خاں صاحب کو ولی سمجھا ہے نہ غوث وقطب اورنہ ہی نبی(نعوذ با للہ) ۔

اسی لیے وہ خاں صاحب کی شان میں ایسی گُستاخیاں کرتے رہتے ہیں کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ خاں صاحب ہوسِ اقتدار میں ملک و قوم کو تباہ کرنے پہ تُلے ہوئے ہیں ۔مکرر عرض ہے کہ یہ کالم نگاری کی کونسی قسم ہے جس کا استعمال میرے محترم کالم نگار آجکل کر رہے ہیں ۔شاید اُنہوں نے اپنے رہنما کی پیروی کو اپنا فرضِ عین سمجھ لیا ہے کہ ایسی زبان تو خاں صاحب اور مولانا صاحب ہی استعمال کر سکتے ہیں اور یہ تو طے ہے کہ
کنند ہم جنس ، باہم جنس پرواز
کبوتر با کبوتر ، باز با باز

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :