اوباما کی گڑیا ۔۔’ملالہ‘

بدھ 15 اکتوبر 2014

Anam Ahsan

انعم احسن

جس چیز پر گورے مہر لگا دیں وہ تو جیسے ہمارا ایمان ہی بن جاتا ہے۔لیکن خدا نے انسان کو سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے نوازا ہے ۔آزاد ریاست کا آزاد شہری ہونے کے ناطے ہر شخص کو آزادیِ حقِ رائے حاصل ہے۔میری بھی اپنی ایک رائے ہے جس سے آپ کا اعتراف اور اختلاف ممکن ہے۔ملالہ کے بارے میں نے سنا کہ وہ مختلف تعلیمی سر گرمیاں سر انجام دے رہی ہے مگر کہاں۔

۔؟ مجھے تو آج تک سمجھ نہیں آیا۔امن کا نوبل انعام ملالہ کو پرامن رہنے پر ملا ۔۔۔فلسطین میں نہتے شہریوں کا قتلِ عام کیا گیاتب تو کوئی ملالہ نہیں بولی۔۔۔گویا کہ عالمی برادری سمیت سب نے چپ کا روزہ رکھ لیا ہو۔۔۔
علم کی شمع،عورتوں کی آزادی کی علمبردار، حقوق نسواں کے پر فریب نعروں سے پکاری جانیوالی سوات کی گل مکئی اس وقت دشمنانِ اسلام اور پاکستان کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بن گئی جس وقت خود اسکی عمر گڑیوں سے کھیلنے کی تھی۔

(جاری ہے)

ملالہ کو گولی لگنے کے واقعہ نے رات و رات ملالہ کو شہرت دوام بخشی۔حالانکہ درجنوں ملا لایئں ہیں جو ڈرون حملوں کا نشانہ بن جاتی ہیں مگر یہ ملالائیں کسی کو نظر کیوں نہیں آتیں۔۔۔؟انکا تو کوئی نام نا مقام۔ انکا نام بھی لیتے ہو ئے میڈیااور اثرو رسوخ رکھنے والی با اختیار شخصیات کو جیسے سانپ سونگھ جاتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے ملالہ کو یہ شہرت دوام کس نے بخشی۔

۔؟ ایک معمولی سی لڑکی کے اتنے چرچے کہ امن کا نوبل انعام بھی مل گیا۔یہ خبر پڑھتے اور سنتے اپنی ہی بصارت پر شک گزرا ۔۔ شاید غلطی سے لفظوں کا ہیر پھیر ہو گیا ہو۔۔۔اور دل و دماغ کے پردوں پر جیسے خاردار پاؤں والی چیونٹیاں رینگ رہی ہوں۔۔۔۔
دراصل یہ شہرت ملی نہیں بلکہ باقاعدہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت دلائی گئی ہے۔ملالہ نے سوات کی گڑیاسے اوباما کی گڑیا تک کا سفر چند لمحوں میں طے کیا۔

اوباما کی اس گڑیا نے بی بی سی کیلئے گل مکئی کے نام سے ڈائری لکھی جس میں ایک جگہ لکھا کی"جب با پردہ عورت کو دیکھتی ہوں تو پتھر کا زمانہ یاد آتا ہے۔داڑھی والے کو دیکھتی ہوں تو فرعون یاد آتاہے۔"اسی گڑیانے حامدمیر کے پروگرام میں کہا میرے آئیڈیل بے نظیر(مرحوم)،باچاخان اور باراک اوباما ہیں۔اف خدایا پختونوں کی بیٹی جن کے افغانستان اور پاکستان میں روزانہ چیتھڑے اڑتے ہیں کی پسندیدہ شخصیت اوباما ہے۔

اور پاکستانی میڈیا کے بڑے بڑے اینکرز اسے liveبھی لیتے ہیں۔یہ میڈیا ایسے حرکت میں کیسے آ سکتا ہے یہ تو صرف ڈالرز ملنے پر ہی سر گرمِ عمل رہتا ہے۔آج میڈیا صرگ اپنے ریٹنگ بنا رہا ہے بس جس پہ میڈیا مہربان ہو جائے اسے شہرت مل ہی جاتی ہے۔
ماضی میں11ستمبر کو اگر امریکہ کو ایک ٹوئن ٹاورز کی تباہی دیکھنا پڑی تو اس نے ہمارے حال کا ہر لمحہ اورمستقبل کا سالوں کا وقت جہنم بنا دیا۔

انہی سب عوامل نے وزیرستان آپریشن کو ہوادی۔ملالہ کو جب نشانہ بنایا گیا تو امریکہ میں الیکشن ہونے تھے تو باراک اوباما کو ان میں کامیابی کیلئے کسی ٹھوس اقدام کی ضرورت تھی لہذا ادھر ملالہ کو گولی لگی اور ادھر رات و رات بینرز لگا دئیے گئے کہwe want waziristan operation۔کیا ہمیں ایک ایٹمی طاقت ہوتے ہوئے، بہترین فوج رکھتے ہوئے ان سب نا مساعد حالات کا سامنا کرنا چاہیے تھا۔

۔؟
ملالہ کا کردار روزبروز پر اسرار بنتا جا رہا ہے۔ملالہ کی ذات بہت سے سوالات کو جنم دے رہی ہے۔کیا ملالہ کو گولی لگنا محض ایک ڈرامہ تھا؟کیاپاکستان کو بدنام کرنے کا ایک پروپیگنڈہ تھا؟ کیا پورے پاکستان میں صرف ملالہ کی جان کو ہی خطرہ ہے طالبان سے؟ہزاروں قبائلی عالقے ایسے ہیں جہاں معلوم نہیں کنی معصوم بچیوں کو گولیاں لگتی ہیں اور وہ لقمہ اجل بن جاتی ہیں لیکن انہیں تو وہ پروٹوکول اور درجہ نہیں دیا گیا جو ملالہ کو ملا۔

۔۔اگر اب وہ مکمل صحت یاب ہو چکی ہے تو اپنے وطن واپس کیوں نہیں آجاتی؟ ملالہ کا ہر کانفرنس میں پاکستان کو غیر محفوظ قرار دینا کیا پاکستان اور اسلام کے حق میں بہتر ہے؟سب سے اہم سوال یہ کہ ملالہ نے بالآخر ایسا کونسا قابلِ فخرکارنامہ سر انجام دے دیا جس پر اسے امن کا نوبل انعام ملا؟ جبکہ عارفہ کریم ، ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور ایسی دیگر بہنیں اس سے زیادہ قابل تھیں ۔

محترم جناب ایدھی صاحب دکھی انسانیت کے ساتھی جنہوں نے اکیلے انسانیت کی خدمت کی، اعتزاز احسن جس نے اپنی جان دے کر اپنے سکول میں حصولِ تعلیم کے لئے آئے طالبعلموں کی جان بچائی۔
کیا ملالہ نے کسی چڑیا کی بھی کبھی جان بچایی؟کیا کسی سکول میں ایک اینٹ بھی رکھی؟ یہ انسانیت کیلئے بہت اہم سوال ہے۔۔۔۔
ملالہ کہاں سے نکلی اور کس طرح امن کے نوبل انعال کی حقدار قرار پائی یہ ایک معمہ ہے جو عنقریب حل ہونے والا ہے۔اب ملالہ کو نوبل انعام کے ملنے کے بعد اسکی پاکستان کے حوالے سے سوچ واضح ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :