اسلام، جمہوریت اور آئین پاکستان۔متفقہ سفارشات

ہفتہ 11 اکتوبر 2014

Molana Shafi Chitrali

مولانا شفیع چترالی

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے زیر اہتمام”اسلام ، جمہوریت اور آئین پاکستان “ کے موضوع پر علمی مذاکروں کے سلسلے کی آخری کڑی کے طور پر گزشتہ دنوں اسلام آباد میں مرکزی سطح کے ایک مذاکرے اور سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں ملک کے تمام مکاتب فکر کے علماء کے علاوہ ممتاز دانشوروں اور پروفیسر حضرات نے شر کت کی۔ سمینار کی صدارت پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کی ،جبکہ مہمان خصوصی جناب خور شید ندیم تھے۔

سیمینار میں انتہائی خوشگوار اور سنجیدہ ماحول میں دور حاضر کے اس اہم اور سلگتے ہوئے موضوع سے متعلق اہم گوشوں پر تفصیلی گفتگو ہوئی اور شرکاء کی جانب سے بعض مسائل پر متنوع اور اختلافی آراء کے اظہار کے ساتھ ساتھ متعدد کلیدی نکات پر اتفاق رائے بھی پایا گیا اور متفقہ سفارشات کی منظوری دی گئی جسے اس سیمینار کا نقد ثمرہ کہا جاسکتا ہے۔

(جاری ہے)

ان سفارشات میں قوم کے لیے راہنمائی کا کافی سامان موجود ہے۔ مذکورہ متفقہ سفارشات حسب ذیل ہیں۔
1۔ اسلام کے سیاسی نظام میں حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالی کو حاصل ہے۔ مسلمان ریاست میں کوئی قانون شریعت کے خلاف نہیں بنایا جا سکتا۔ البتہ اجتہادی امور میں اجتماعی بصیرت اور غور وفکر سے قانون سازی کی جا سکتی ہے۔ چنانچہ مجلس قانون ساز کا تصور بنیادی طور پر اسلام کے خلاف نہیں ہے۔


2۔ اسلام کا سیاسی نظام شورائیت کے اصول پر مبنی ہے۔ مطلق العنان بادشاہی اور آمریت کا طرز حکومت اسلامی تصورات کے خلاف ہے۔
3 ۔حکمرانوں کو رائے عامہ کا اعتماد حاصل ہونا چاہیے۔ تاہم حکمران کے انتخاب کا کوئی لگا بندھا ضابطہ شریعت میں نہیں بتایا گیا۔ خلفائے راشدین کا انتخاب الگ الگ طریقوں سے کیا گیا۔ اس لیے بدلتے حالات میں اس مقصد کے لیے کوئی بھی موزوں طریق کار اختیار کیا جا سکتا ہے۔


4۔ اسلام کی رو سے امیدوار کا انتخاب ایمان، عمل صالح، اہلیت وصلاحیت اور دیانت وامانت کی بنیاد پر ہونا چاہیے، جیساکہ آئین پاکستان کی شق 62 و63 میں بھی اس کی ضمانت دی گئی ہے۔ پاکستان میں نظام انتخاب کی اصلاح کے ضمن میں اقدامات وتجاویز کو قومی سطح پر موضوع بحث بنایا جائے اور مروجہ طریق کار کے ساتھ دیگر متبادل طریقہ ہائے کار مثلاً متناسب نمائندگی وغیرہ کو بھی زیر غور لایا جائے۔


5۔ ریاستی سطح پر طے ہونے والے اجتماعی معاملات میں اختلافات ونزاعات کے تصفیے کے لیے اکثریت کی رائے کو بنیاد بنائے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ اقلیت کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ اپنے تصورات اکثریت پر مسلط کرے۔ یہی اصول شریعت کی تعبیر وتشریح کے باب میں بھی لاگو ہوگا اور اس کا فیصلہ منتخب پارلیمان کی سطح پر ہوگا۔
6۔ اسلام اگرچہ مختلف سیاسی گروہوں کے وجود کی نفی نہیں کرتا لیکن وہ اس پر اصرار کرتا ہے کہ حکمرانوں پر تنقید یا ان سے اختلاف کا مقصد نظام حکومت کی بہتری، انسانی حقوق کا تحفظ اور رفلاح عامہ ہونی چاہیے۔

اسلام دھڑے بندی اور اختلاف برائے اختلاف کی بجائے باہمی تعاون اور خیر خواہانہ محاسبہ وتنقید کو حکمرانوں اور رعایا کے باہمی تعلقات کی بنیاد تصور کرتا ہے۔
7۔ پاکستان کا آئین ایک اسلامی آئین ہے جو علماء کی تائید سے مرتب کیا گیا ہے۔ اس میں قرارداد مقاصد دیباچے کے طور پر موجود ہے ، قوانین کو قرآن وسنت کے تابع رکھنے کی ضمانت دی گئی ہے اور خلاف شریعت قوانین کی تبدیلی کے لیے پورا طریق کار وضع کیا گیا ہے۔

اس کی حیثیت قومی اتفاق کی ہے جسے تمام نمائندہ طبقات کا اعتماد حاصل ہے۔
8۔ آئین میں دی گئی ضمانتوں اور یقین دہانیوں کے باوجود ملک کے عملی نظام سے متعدد غیر اسلامی امور کا خاتمہ نہیں کیا جا سکا۔ اس پہلو پر خاص توجہ دینی چاہیے، کیونکہ یہ آئین میں کیے گئے عہد کا بھی تقاضا ہے اور حکومتوں کی طرف سے عملی کوتاہی اور تساہل کی وجہ سے فی نفسہ آئین اور دستور کے متعلق بھی منفی رجحانات جنم لے رہے ہیں۔


9۔ ملکی قوانین کی شریعت کی روشنی میں اصلاح کے لیے آئینی ادارے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو غور وخوض اور بحث کے لیے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ دستوری طور پر کونسل کی سفارشات کا پارلیمان کے سامنے پیش کیا جانا ضروری ہو۔
10۔ دستور پاکستان کی حیثیت ایک قومی معاہدے کی ہے جس کی پاس داری اسلامی تعلیمات کی رو سے تمام فریقوں پر ضروری ہے۔

البتہ دستور کی ہیئت میں کسی تبدیلی یا متبادل تجاویز کے حوالے سے بحث ومباحثہ کا دروازہ کھلا رکھنا چاہیے۔ نہ تو دستور کی کسی شق سے نظری اختلاف کو غداری قرار دینا چاہیے اور نہ عملی طور پر دستور سے ہٹ کر بزور قوت ملکی نظام میں کوئی تبدیلی لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
11۔ بعض طبقات کی طرف سے اسلامی اقدار کے منافی غیر ذمہ دارانہ رویوں کی وجہ سے رد عمل پیدا ہوتا ہے جو بسا اوقات تشدد پر منتج ہوتا ہے۔

اس رجحان کے سد باب کے لیے غیر اسلامی تصورات اور سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے اور مثبت اقدار کے فروغ کے لیے ریاست کے ساتھ ساتھ ذرائع ابلاغ کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
12۔ مسلمان معاشروں میں جمہوریت کا وہی تصور قابل قبول ہو سکتا ہے جو اسلامی نظام اقدار اور ضابطہ حیات سے ہم آہنگ ہو۔ مغربی قوتوں کو چاہیے کہ وہ مسلمان معاشروں کی مذہبی وثقافتی حساسیتوں اور ترجیحات کو پیش نظر رکھیں اور معاشرت کی تشکیل یا انتقال اقتدار کے حوالے سے مسلم رائے عامہ کے اکثریتی وجمہوری فیصلوں کا احترام کریں۔


13۔ ایک نظریاتی اسلامی ریاست اور ایک قومی ریاست کی ترجیحات میں فرق کے حوالے سے پاکستان کے مختلف طبقات میں فکری ابہامات پائے جاتے ہیں جنھیں فکری سطح پر موضوع بنانے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں علمی وتحقیقی اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
14۔ نفاذ اسلام کے لیے غیر جمہوری اور عسکری جدوجہد پر یقین رکھنے والے طبقات کے ساتھ اسلام اور جمہوریت نیز جہاد اور غلبہ دین جیسے اساسی تصورات کے حوالے سے براہ راست مکالمے کا اہتمام کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ اس ضمن میں موجود غلط فہمیوں اور ابہامات کا ازالہ کیا جا سکے۔


سیمینار میں اپنی گفتگو کے دوران راقم نے گزارش کی کہ اسلام ، جمہوریت اور آئین سے متعلق جوسوالات آج اٹھائے جارہے ہیں، یہ نئے نہیں ہیں، ان پر گزشتہ ایک سو سال سے بحث ہوتی رہی ہے اور اگر ہم بر صغیر کی تاریخ اور حالات کو سامنے رکھیں تو یہاں1920ء کے بعد سے تقریباً تمام مذہبی طبقات جمہوری اور پر امن جدوجہد پر متفق نظر آتے ہیں۔ پاکستان کا قیام بھی جمہوری جدوجہد کے ذریعے عمل میں آیا ہے اور قیام پاکستان کے بعد پاکستان کے آئین کو اسلامی بنیادیں فراہم کرنے کے لیے اپنے وقت کے ممتاز ترین علماء نے قابل قدر کردار ادا کیا ہے۔

پاکستان کے آئین کو یکسر غیر اسلامی کہنا،ان تمام علماء و اکابر کی کوششوں پر خط تنسیخ پھیردینے کے مترادف ہے جنہوں نے اس آئینی جدوجہد میں حصہ لیا ہے۔ دراصل آج اسلام، جمہوریت اور آئین پاکستان کے تعلق کے حوالے سے سوالات اس لیے اٹھ رہے ہیں کہ آئین پر عمل درآمد نہیں ہورہا ۔ایک آدمی کے ذہن میں پیدا ہونے والا یہ سوال بالکل فطری ہے کہ جب پاکستان ایک اسلامی ملک ہے،اس کا آئین اسلامی ہے تو یہاں اسلامی تعلیمات کی بالادستی کیوں نہیں ہے،یہاں عام آدمی کو انصاف، روزگار اور دیگر حقوق کیوں نہیں ملتے؟یہاں امیر اور غریب میں اتنا زیادہ فرق کیوں ہے؟ایک اسلامی ریاست کی داخلہ و خارجہ پالیسیاں اسلامی حمیت،ملی وقار اور قومی غیرت کے تقاضوں کے مطابق ہوتی ہیں، پاکستان ایک اسلامی ریاست ہوتے ہوئے عالمی طاقتوں کی غلامی پر کیوں مجبور ہے؟ان سوالات کا جواب اسی صورت میں مل سکتا ہے جب آئین پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد کیا جائے اور پاکستان کو ایک حقیقی اسلامی فلاحی ریاست بنایا جائے۔


راقم نے یہ گزارش بھی کی کہ اسلامی دنیا میں جمہوریت سے تنفر بڑھنے کی ایک وجہ عالمی طاقتوں کی پالیسیاں بھی ہیں۔الجزائز، مصر اورفلسطین کے تجربات نے یہ ثابت کردیا ہے کہ مغرب” جمہوری اسلام“ کو قبول کرنے کو بھی تیار نہیں ہے۔موجودہ عالمی نظام انصاف خود جمہوری اصولوں کی نفی کررہا ہے اور مسلمانوں کو یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ وہ پر امن جدوجہد کے ذریعے اپنے حقو ق حاصل نہیں کیے جاسکتے۔یہی وجہ ہے کہ اسلامی دنیا میں القاعدہ، ، داعش، بوکوحرام، جبہة النصرہ ،الشباب جیسی تحریکیں زور پکڑ رہی ہیں۔اگر د نیا میں امن واستحکام لانا ہے تو عالمی طاقتوں کو پہلے خود جمہوری اصولوں پر عمل کرنا چاہیے اور پھر مسلمانوں کو جمہوریت کا درس دینا چاہیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :