اکلوتا پن

ہفتہ 11 اکتوبر 2014

Manzoor Qadir Kalru

منظور قادر کالرو

اکلوتا بچہ بہت سی پیچیدگیوں ، دشواریوں، مسائل اور دُکھوں کا شکار ہوتا ہے۔ اکلوتا پن دو طرح کا ہوتا ہے۔ایک تو اکلوتا پن ماں باپ کی واحد اولاد کا ہونا ہے۔دوسرا اکلوتا پن و ہ ہے جس میں بہت سی بہنوں میں ایک بھائی ہو یا سب سے چھوٹے بچے اور اس سے بڑے میں آٹھ دس برس کا فرق ہویا بہت سے بھائیوں میں سے ایک بہن ہو اوروہ جنس کے فرق کی وجہ سے اکیلی رہ گئی ہو۔

اکلوتا بچہ ایک ایسے گھر میں پیدا ہوتا ہے جو کہ اپنے ہم عمروں یعنی اپنے سے کچھ بڑے اور کچھ چھوٹے بہن بھائیوں سے خالی ہوتا ہے۔اس گھر میں اس سے بڑے افراد ہر وقت اس کی صحبت کے لئے موجود ہیں لیکن یہ لوگ اسے جتنی بھی توجہ محبت دینے کی کوشش کر لیں اس کے ہم جولیوں کی جگہ پر نہیں کر سکتے۔والدین عمر میں بڑے ہیں زمانے کی نشیب و فراز نے ان کی سوچ کے انداز میں سخت گیری کے عناصر پیدا کر دئیے ہیں ۔

(جاری ہے)

ان کی زندگی کا نظریہ غیر جذباتی اور قدرے پتھریلا ہو چکا ہے۔ دوسرے الفاظ میں وہ بچپن کے ولولوں سے دور اور بچپن کی چنچل چلبلاہٹ سے دور ہیں۔ بچپن کے تقاضے کچھ اور ہیں لیکن تجربہ کار پختہ کار والدین و دیگر افراد کی مجلس کچھ اور ہے۔ہم عمروں کی صحبت میں جب بچے اکٹھے کھانا کھاتے ہیں، لبا س پہن کرایک دوسرے کو دکھا تے ہیں،نیند سے پہلے کہانیاں سنتے ہیں اور سناتے ہیں، پہیلیاں بھجواتے ہیں،قلابازیاں لگاتے ہیں ، اچھلتے کودتے ہیں اور بعض کھیلوں میں جب وہ سبقت لے جاتے ہیں تو ان کے جذبات کی تسکین ہوتی ہے۔

اکلوتا بچہ اس اجتماعیت اور اس اجتماعی کھیل سے محروم ہے جو کہ مکمل نشوونما کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ کھیل ایک بچہ تنہا نہیں کھیل سکتا بلکہ مل جل کر کھیلا جاتا ہے۔ کھیل سے محرومی کی وجہ سے وہ اشتعال سے بھرپور حرکتیں کرتا ہے اور بعض اوقات وہ انتہا درجے کاخاموش شرمیلا اور اندر ہی اندر گھٹا ہو ا بچہ بن کر رہ جاتا ہے۔ والدین اپنے بچے کو ہر قسم کے قیمتی ترین کھلونے تو خرید کر دے دیتے ہیں لیکن وہ بے کارپڑے رہتے ہیں۔

اکیلا بچہ کس کے ساتھ کھیلے، دوستوں کو کتنی بار بلائے ،کتنی مرتبہ خود ان کے گھر جائے، سارے کھلونے کس طرح خود اٹھائے پھرے، کتنی دیر وہ دوسرے کے گھر رہے، پھر ہر گھر میں بہن بھائیوں سے ترتیب پائی ہوئی ایک اپنی محفل موجود ہے۔اکلوتا بچہ ان میں زبردستی شامل ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ اسے یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ ان کی محفل میں فالتو ہے ۔ وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو ان پر زبردستی ٹھونسنے کی کوشش کر رہا ہے۔

عید بقراعید پراسے کئی طرح کی محرومیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نئے کپڑے پہن کر کس کو دکھائے۔ تحفے اور روپے لے کر کس کو دکھائے۔ کس کے ساتھ مل کر دوستوں کو عید ملنے جائے۔یہ محرومی اس میں پیچیدہ کردار پیدا کر دیتی ہے۔ اکلوتے پن کی تنہائی مسرتوں سے محروم کر دیتی ہے۔ غصے ہونا روٹھنا منانا، قیادت کرنا، تقلید کرنا، وفاداری اور خدمت پیش کرنا ایثار و قربانی پیش کرنا،بڑوں کی اطاعت و عزت کرنا ایسے اوصاف ہیں جو کہ بہن بھائیوں کیساتھ زندگی بسر کرنے سے پیدا ہوتے ہیں۔

اکلوتا بچہ ان سب سے محروم ہے۔وہ سوسائٹی میں زود رنج جھگڑالو غصیلا یا تنہائی پسند خود پسند ہے۔ وہ صرف تحسین و آفرین سننا چاہتا ہے۔ وہ اپنی ہر بات منوانا چاہتا ہے۔ وہ ہر ایک سے برتری چاہتا ہے۔وہ ہر چیز محض اپنے استعمال کے لئے رکھتا ہے۔ وہ ہر ایک پر حکومت کرنا چاہتا ہے کیونکہ گھر میں اکلوتے پن کی وجہ سے اس کی زندگی کا یہ تجربہ ہے۔ وہ گھر میں بلاشرکت غیرے حاکم ہے لیکن گھر سے باہر اجتماعی زندگی ہے۔

گھر اور باہر کا تضاد اس کو جذباتی اضطراب میں مبتلا کر دیتا ہے۔ جب یہ ناممکن توقعات پوری نہیں ہوتیں تو وہ روتا ہے یا جھگڑا کرتا ہے اور بدکلامی پر اُتر آتا ہے۔ وہ ہر ایک کا شاکی ہے۔ دوست بن سکتا ہے نہ بنا سکتا ہے۔ اس کے لاشعور میں اشتعال اور انتقام ہے۔ وہ اپنے کام ، تعلیم میں اپنی ذہانت کے معیار سے بہت کم کامیاب ہے۔ اس کی سوچ تضادات کامجموعہ ہے۔

بچے کے سامنے اس کے اکلوتے پن پر حسرت کا اظہار ہر آنے جانے والے کا محبوب مشغلہ ہے۔ والدین، دوست عزیز و اقارب سارا وقت اکلوتی اولاد پر افسوس کرتے ہیں اور اس کے والدین کو سارا وقت دعا دیتے ہیں کہ خدا ان کو اور اولاد دے اور ہمہ وقت ایک ہی رٹ لگائے رکھتے ہیں کہ بچے کو بہن بھائی نصیب ہوں۔ اکثر اوقات اکلوتے پن کی ذمہ داری بچے کے نصیب پر محمول کرتے ہیں اور بعض اوقات بچے کو منحوس بھی کہہ دیتے ہیں۔

اس میں احساسِ گناہ نشوونما پاتا ہے پھر وہ محسوس کرنے لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے منحوس و کمتر پیدا کیا ہے۔ اگر وہ کم نصیب نہ ہوتا تو اس کے بھی باقی دوستوں کی طرح بہن بھائی ہوتے۔ بعض والدین بچوں سے سرد مہری کا رویہ رکھتے ہیں۔جس کی وجہ سے بچے کے دماغ میں ٹھکرائے جانے کا احساس پختہ ہو جاتا ہے۔ اس کے ذہن میں اپنے والدین کی تصویر یہ ہے کہ وہ سرد مہر ہیں، بے نیاز، غافل اورلا پرواہ ہیں۔

ان کو اپنے تنہا بچے کی کوئی پرواہ نہیں۔روزمرہ کی محرومی اور سرد مہری کے تجربات بتدریج اشتعال و انتقام کے جذبات کو ارتقاء دیتے ہیں اور یہ لاوا کی صورت میں جمع ہوتا ہے اور پھر بچے میں تخریبی عمل کا ایک طوفان بن کر بھڑک سکتا ہے یہ لاوا جامد ہو کر بچے کی تخلیقی صلاحیتوں کو دبا دیتا ہے۔اساتذہ اور والدین کا فرض ہے کہ اکلوتے بچے کی فطری محرومیوں کو پہچانیں ۔

بچے کی ہر عجیب خواہش اور ہر عجیب عمل کو بگڑا کردار نہ سمجھیں۔ان کے چڑ چڑے پن غصیلے پن ، مارپیٹ ،شرمیلے پن اوربے حد خاموشی و بے حد کم سخن اور بے حس و حرکت ہونے کو بیماری سمجھیں اور اس کے تدارک کا حل نکالیں۔اکلوتے بچوں کو مجلسی زندگی دی جائے۔ ان کو ایسے بچوں کی صحبت مہیا کی جائے جو کہ یا تو گھر میں اکیلے ہیں یا اپنے سے بڑے سے دس برس چھوٹے ہیں اور عمر کے لمبے وقفے کی وجہ سے اکیلے رہ گئے ہیں۔

ایسے بچوں کے آپس میں دوست بن جانے کے بہت امکان ہوتے ہیں کیونکہ دونوں تنہائی کی اذیت میں مبتلا ہوتے ہیں۔اس طرح بچہ یہ بھی محسوس کر تا ہے کہ صرف وہ ہی اکیلا نہیں بہت سے اور بھی اس کی طرح اکیلے ہیں۔ اکلوتے بچے کوایسے مشاغل مہیا کئے جائیں جن میں جسمانی طاقت کا اصراف بہت زیادہ ہو مثلاَ تیز بھاگ دوڑ کا کھیل،ڈرل، جسمانی ورزش وغیرہ ۔ایسے بچوں کو ایسی سرگرمیوں میں لگانا چاہیے کہ جن سے ان کی خوابیدہ تخلیقی صلاحیتوں کو جِلا ملے۔

ڈرامے ،کہانیاں گیت، موسیقی ، عمدہ شاعری اور رقص وغیرہ۔ یہ مشاغل اضطراب کو ختم کر دیتے ہیں۔بچوں کے لئے سیر بھی مفید ہے۔ دوستوں کے ساتھ مل کر صبح کو سیر کرنا شام کو سیر کرنا مسرت دیتا ہے اور اضطراب کو گھٹاتا ہے۔ گھاس والے میدان میں لوٹنیاں کھانا دونوں بازؤؤں کو پھیلا کر بھاگنا درختوں پر چڑھنا وغیرہ صحت بخش مشاغل ہیں اورگھٹن کم کرنے کے لئے اکسیر ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :