حاصل محبت!

ہفتہ 11 اکتوبر 2014

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

یہ شاید پہلی دفعہ ہوا ہے کہ ایک طو یل عر صہ گذرا ہے کہ کسی کتاب کا مطالعہ نہ کر سکا۔ جب بھی کتاب کھولنے کی کوشش کر تا توکوئی نہ کوئی مصروفیت میری اس کو شش پر پانی پھیر دیتی اورایک ، دو دفعہ جب کوشش رنگ لائی تو کتاب کے کچھ صفحات پڑھنے کے بعد ہی طبیعت میں تھکاوٹ اور سستی کے ملے جلے احساسات پوری آب و تاب کے ساتھ سرایت کر جاتے پھریوں کچھ ہی لمحوں میں یہ کتاب ”بک شیلف“ کی نظر ہو جا تی ۔

انہی دنوں کی بات ہے کہ لیاقت علی ملک کے مضامین اور افسانوں کا مجموعہ” حاصل محبت “ہاتھ لگاجسے اب تک کئی دفعہ پڑھ چکاہوں۔طبیعت پر چھائی کئی دنوں کی سستی اور تھکاوٹ جیسے اپنی موت آپ مر گئی ہو اور مزے کی بات ہے کہ ہر بار مطالعے کے بعد ایک نئی طرح کا لطف طبیعت کو مزید محسور کن بنا دیا ہے۔

(جاری ہے)


جذبے کی شدت ،تجر بے کی وسعت ،اظہار کی بے ساختگی،تحریر کی معصومیت،جوانی کی رومان پروری،عہدے کا اعتماد ،سچ کی تلخی،بغاوت کی جرات اور اس پر صوفیانہ فکر کا بگھار”حاصل محبت“ کا خاصہ ہے۔

نارووال کے ایک دور افتادہ قصبہ میں جنم لینے والا لیاقت گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم کے حصول کا سفر شروع کرتے ہوئے آرمی کا حصہ بن گئے جہاں سیاہ چین کے محاذ کے علاوہ دوسرے اہم کار نامے سر انجام دینے کا تمغہ اپنے سینے پر سجا یا۔آرمی میں اپنا لوہا منوانے کے بعد پولیس سروس میں اپنے فرائض سر انجا دیتے ہوئے کیپٹن (ر) لیاقت علی ملک کے نام سے جانے جاتے ہیں اور اس سے بڑھ کر ایک دانشور اور شاعر کے طور پر۔


میں یہ بات کہنے پر حق بجانب ہو ں کہ آرمی اور پولیس میں بے شمار اعزازات سے نوازے جانے کے بعد انہیں ” حاصل محبت“ تحریر کر نے پر بہترین لکھاری کے اعزاز سے نوازا جا نا چاہئے کیونکہ ان کا یہ مجموعہ جس کے بارے میں یہ خود لکھتے ہیں۔”کچھ اس کو ہڈ بیتی سمجھیں گے ،کچھ”جگ بیتی“مگر یہ اس سے کچھ زیادہ ہے “۔
کتاب کو پڑھتے ہوئے یہ محسوس ہو تا ہے کہ منظر آپ کی نظروں کے سامنے ہیں ،حقیقت سے اتنے قریب کے ہر لفظ سینے کو چاک کرتے ہوئے دل میں پیوست ہو تا چلا جا تا ہے ۔

بقول عبداللہ بھٹی کہ کچھ لوگوں کی انگلیوں میں جاکر لفظ ،لفظ نہیں رہتے ۔احساس بن جاتے ہیں ۔زندہ ہو جاتے ہیں ۔ہر لفظ دعا کا روپ دھا ر لیتا ہے ۔ان کے الفاظ کی روشنی لوگوں کو گہرے اندھیرے میں راستہ دکھاتی ہے۔ ان کے الفاظ میں عمیق مشاہدہ اور ذہانت بجلی بن کر دوڑتی ہے ۔بالکل اسی طرح لیاقت ملک کے الفاظ روح اور باطن کی عمیق ترین گہرائیوں میں اُتر کر احساسات کا روپ دھار کے روح کو خاص تازگی اور سر شاری عطا ء کرتے ہیں۔


قارئین !میں سوچ رہا تھا کہ آخر اس کتاب میں کیا ایسی چیز ہے کہ جب بھی میں اسے پڑھنا شروع کر تا ہوں تو آنکھوں سے آنسو رواء ہو جاتے ہیں، قلب میں نر می اور روح کسی انجانے درد کا شکار ہو جاتی ہے۔ میں ابھی ان سوچوں میں گم تھا کہ میری نظر کتاب کے سپاس گزارم کی طرف پڑی اور مجھے اپنے سوال کا جواب مل گیا۔ اس کتاب میں بی بی پاکدامن در بار کی سیڑھیوں کی سوند ھی سوندھی کیچر کی خوشبو،پیر مکی در بار پر لائن میں لگ کر دامن پھیلا کر مانگے جانے والی نیاز کی برکت،دا تا گنج بخش علی ہجویری کے مزار پر مو جود چشمے کی ٹھنڈک اور مٹھاس ،بری اما م سر کار ،لعل شہباز قلندر،پیر مسرور چشتی،شا ہ رکن عالم،پیر مہر علی شاہکی در گاہوں ں کی لطافت سمیت انسانوں کو اللہ سے ملانے والے ایک ہی وقت میں ولی اور مصنف ہونے کا اعزاز اپنے پاس رکھنے والے بے شمار صوفیوں کی ”تھپکیوں“ کی خوشبو روح میں پیوست ہو کے انسان کو اس کیفیت کا شکار بنا دیتی ہے جس کا میں کئی دنوں سے شکار ہوں۔


قارئین محترم !حاصل محبت پر لکھوں تو الفاظ کا قحط پڑ جائے لیکن یہ لکھنے سے زیادہ محسوس کر نے والی چیز ہے ، اپنی روح میں جذب کر نے والی چیز ہے ۔لیں آپ بھی انسان کو اپنے اندر سمو جانے والے ”حاصل محبت “کے محبت اور درد میں گوندھے لفظوں کو پڑھیں اور اپنی روح کو تازگی بخشیں۔”وقت کبھی بھی اچھا بُرا نہیں ہوتا ،سوائے انسان کے!دکھ انسان کی عطا اور سُکھ قدرت کی جزا ء ہو تے ہیں ! مشکلات ہمیشہ اللہ کے مقبول بندوں کی راہ میں زیادہ آتی ہیں ،مگر وہ ان تکالیف سے یکسر بیگانہ اللہ کی ثنا ء میں مشغول رہتے ہیں۔

شکوہ ان کی زبان پر نہیں آتا ۔وہ ان ظاہری ایذا ء کو اس کی رضا تسلیم کر کے مزید شکر ادا ء کرتے ہیں۔جبکہ اہل دنیا کے لئے سکھ ہی سکھ اورا ٓرام ہی آرام ۔اپنی حرکتوں سے کمائی جانے والی ذلت کو بھی وہ اللہ کے نام سے جوڑ لیتے ہیں اور شکوہ در شکوہ مسلسل کرتے رہتے ہیں ۔ان کی یاد داشت بہت کمزور ہوتی ہے ۔ اس لئے یہ خدا کی عطا ء اور اپنی خطا ء کو ہمیشہ بھول جاتے ہیں ۔جو دکھ انسان کو خدا کے قریب لے جائے وہ نعمت اور عطا ء، اور جو سکھ اللہ سے دور کر دے وہ لعنت اور سزا ہے۔دُکھ انسان کو ظرف کے مطا بق عطا ہو تے ہیں“۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :