عید قربان کا پیغام جسے ہم فراموش کربیٹھے

پیر 6 اکتوبر 2014

Qasim Ali

قاسم علی

اللہ پاک نے ایک بار پھر ہمیں عید قربان کی سعادت عطا فرمائی جب دنیا بھر کے مسلمان سنت ابراہیمی کی یاد کو تازہ کرتے ہوئے عید مناتے ہیں پاکستان ایسا ملک ہے جہاں پر ہر عیدالضحیٰ کے موقع پر ایک کروڑ جانور ذبح کئے جاتے ہیں جو دنیا بھر میں اس روز ذبح ہونے والے 10کروڑ جانوروں کا 10%ہے یعنی پاکستان زیادہ قربانی کرنے والے ممالک میں پہلے نمبر پرہے اگر ان جانوروں کی مالیت کا محتاط تخمینہ لگایا جائے تو وہ تین ارب ڈالر بنتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستانی قوم اس لحاظ سے بہت ہی خوش قسمت ہے کیوں کہ یہ حقیقت ہے کہ اللہ جس سے خوش ہوتا ہے اسے دین کی سمجھ اور اپنے راستے میں خرچ کرنے کی توفیق دیتا ہے یاد رہے کچھ ہی عرصہ قبل ہونے والے ایک سروے میں یہ بات بھی سامنے آچکی ہے کہ پاکستان ان ممالک میں بھی بہت اونچا مقام رکھتا ہے جو اپنی رقوم کا بڑا حصہ خیرات کرتے ہیں ۔

(جاری ہے)

ان دونوں انتہائی خوش آئند خبروں کے باوجود گزشتہ کچھ سالوں جو ایک بہت تلخ حقیقت ہمارے سامنے آئی ہے وہ بھی ملاحظہ فرمالیں کہ
اب یہ بات اکثر دیکھنے میں آرہی ہے کہ قربانی میں نمائش کا عنصر بہت زیادہ دیکھنے میں آرہاہے کبھی ان جانوروں کے عجیب و غریب نام رکھ کر اور کبھی ان کی اونچی قیمتوں کی تشہیر کرکے اس عظیم جذبے میں ریاکاری کا زہرشامل کرکے اس کو نقصان پہنچایاجاتا ہے بلکہ اس طرح ثواب کی بجائے اپنے ہاتھوں گناہ خریدا جاتا ہے کس قدر ستم ظریفی ہے کہ بندہ ایک خطیررقم خرچ کرکے ایک جانور خریدتا ہے مگر محض ریاکاری کے باعث اس عظیم ثواب سے محروم ہوجاتا ہے جس کا اللہ نے ہم سے وعدہ کیا ہوتا ہے ۔

ایک اور بہت بُری چیز جو ہم میں اب سرائیت کرگئی ہے وہ قربانی کے گوشت کی غیر منصفانہ تقسیم ہے وقت کیساتھ ساتھ اب ہم نے قربانی کا گوشت خود گھر گھر جاکر تقسیم کرنے کی روائت ہم میں بہت کم رہ گئی ہے بلکہ اب یہ ہوتا ہے قربانی کرنے والوں کی کوشش ہوتی ہے کہ پہلے چند ایک لوگوں کو گوشت دینے کے بعد باقی کا سارا گوشت اپنے فریزر میں محفوظ کرلیا جائے جبکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ حکم کے مطابق گوشت کے تین حصے کئے جائیں ایک عزیزوں ودوستوں میں دوسرا غرباء میں تقسیم کیا جائے جبکہ تیسرا حصہ خود رکھا جائے ۔

اس کیساتھ ساتھ عید قرباں کا اصل پیغام جسے ہم فراموش کئے ہوئے ہیں وہ یہ ہے کہ جس طرح حضرت ابراہیم  نے اللہ کے حکم کے آگے اپنا سرتسلیم خم کرتے ہوئے اپنی عزیز ترین چیز یعنی اپنا بیٹا تک قربان کر ڈالا ساسی طرح ہم بھی اس دن یہ عہد کریں کہ ہم اپنی زندگی میں ہر حال میں اور ہر لمحہ اپنے خالق و مالک کی رضا کو ہی ایک نمبر پر رکھیں گے چاہے اس کیلئے ہمیں کتنی ہی بڑی قربانی دینا پڑے اور نہ صرف یہ عہد کریں بلکہ عملی زندگی میں اس کا مظاہرہ بھی کرتے رہیں تب ہی جاکر ہمیں قربانی کا وہ صلہ و انعام مل سکتا ہے جو اللہ نے اس عظیم عبادت یعنی قربانی کیلئے مقرر کررکھا ہے ہاں البتہ اس سے ہٹ کر وہ قادرِمطلق اور مالک و مختا ر ہے وہ چاہے تو ہماری تمام تر خطاوٴں اور لغزشوں کے باوجود ہماری ان ٹوٹی پھوٹی عبادات کو بھی سند قبولیت بخش دے اسے کون پوچھنے والا ہے۔

آخر میں یہ ضرور عرض کروں گا کہ اب کی بار عید قرباں ایسے وقت میں آئی ہے جب ہماری مملکتِ خدادادسخت مشکلات سے دوچار ہے سیلابوں اور دہشتگردی کے خلاف جنگ کے متاثرین آئی ڈی پیز کی تعداد بیس لاکھ سے تجاوزکرچکی ہے اور یہ لوگ ہرآن ہماری طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں اگر ہم ان کیلئے قربانی دیتے ہوئے ان کو کچھ سہولت دیں پائیں تو یہ ہمارے لئے بڑی سعادت ہوگی اور یہی قربانی کی اصل روح اور سبق بھی ہے جو پھر سے دہرانے کی ضرورت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :