تبدیلی یا خواب؟

ہفتہ 4 اکتوبر 2014

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

پنجاب یونیورسٹی سے اعلی تعلیم حاصل کرنے والے " فہد رسول" نے وطن عزیز کے وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اٹھا لیا ہے۔ وہ پنجاب کے ایک چھوٹے سے قصبے میں پیدا ہوئے ۔ اپنے تمام تعلیمی کیرئیر میں ان کی وابستگی سرکاری تعلیمی اداروں سے رہی ۔ ان کے خاندان میں کبھی بھی کوئی سیاسی عہدے پر نہیں رہا۔ وہ اس اعلیٰ درجے تک پہنچنے والے خاندان کے پہلے فرد ہیں۔

اپنے عہدے کا حلف اٹھاتے ہی انہوں نے ملک میں مفت تعلیم کے لیے اقدامات کرنے کی ہدایات جاری کر دی ہیں اس سلسلے میں انہوں نے معاشی طور پر اس منصوبے کے لیے ملک کے ایک ماہر معیشت دان کو ضروری سرمائے کی فراہمی کا حکم بھی صادر کیا ہے کیوں کہ یہی ماہر معیشت دان جو دنیا کے مالیاتی اداراں میں کام کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں ان کی کابینہ میں وزیر خزانہ بھی ہوں گے ۔

(جاری ہے)

اس کے علاوہ اس منصوبے کے لیے "وزیر اعظم فہد رسول " نے وطن عزیز کی ایک ممتاز علمی شخصیت کودیکھ بھال کی ذمہ داریاں سونپی ہیں ۔ یہ شخصیت اس منصوبے کی منصوبہ بندی، عملی شکل دینے اور شکایات و تجاویز کے حوالے سے بھی ذمہ دار ہوں گے۔نئے وزیر اعظم نے دیگر شعبوں میں بھی بہترین ماہرین کی خدمات حاصل کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ اس سے پہلے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج اپنے سر پر سجانے والے" علی احسن" نے صوبے بھر میں کرپشن کی شکایات وصول کرنے والے سیل کی نگرانی خود کرنے کا اعلان کیا تھا۔

اس کے علاوہ انہوں نے ایک ماہ کے اندر پولیس اصطلاحات کا عندیہ بھی دیا ہے اس کے علاوہ وہ مشاورت کے ساتھ جلد ہی الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے بھی خط لکھیں گے۔ سندھ میں اپنے تعلیمی دور میں گولڈ میڈل حاصل کرنے والے " محمد فرہاد" نے وزارت اعلیٰ کی بھاگ دوڑ سنبھال لی ہے اور عہدہ سنبھالتے ہی انہوں نے وزیر اعلیٰ ہاؤس کو انجینئرنگ یونیورسٹی میں تبدیل کرنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔

انہوں نے اپنی رہائش اپنے آبائی گھر میں رکھنے کو ترجیح دی ہے۔ " قاسم خان " جو کسی دور میں دشت گردی کے خلاف ایک تحریک بن کر ابھرے تھے خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ منتخب ہو گئے ہیں۔ انہوں نے سب سے پہلے تمام شورش زدہ علاقوں کا دورہ کیا اور وہاں کے لوگوں کے ساتھ گھل مل گئے۔ بلوچستان میں تاریخ میں پہلی بار " موسیٰ بلوچ" جیسا شخص اعلیٰ وزارت تک پہنچا ہے جس کا کوئی سیاسی پس منظر نہیں۔

بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے بلوچستان میں ہی سکونت اختیار کی۔ انہوں نے بلوچستان کے ذخائر کو مقامی لوگوں کی ترقی پر خرچ کرنے کا عزم دوہرایا جو ان کا انتخابی نعرہ بھی تھا۔ اس سلسلے میں انہوں نے عہدہ سنبھالتے ہی وفاق سے رابطہ کیا ہے۔
یہ صرف ایک خواب ہی رہے گا ۔کیوں کہ یہ سب فرضی کردار ہیں اور اگر اپنی سوچ کو بدلنے کا ارادہ نہیں کریں گے تو یہ فرضی کردار حقیقت کا روپ کبھی نہیں دھار سکتے کیوں کہ ان کرداروں کو حقیقت کا روپ دھارنے کے لیے ایک عام آدمی سے لے کر اس ملک کی اشرافیہ تک کہ ایک مصمم ارادہ کرنا ہو گا۔

اگلے پندرہ سال کے سیاسی منظر نامے پر نگاہ دوڑائیں تو ہمیں کوئی خاص تبدیلی نظر نہیں آتی۔ سندھ میں "بھٹوز" کا زور ٹوٹتا دکھائی نہیں دیتا۔ بلاول اپنے نام کے ساتھ بھٹو کا لاحقہ لگا کر مکمل اڑان بھرنے کی تیاری میں ہیں۔ پنجاب میں" میاں خاندان" پوری طرح حاوی نظر آتا ہے۔ حمزہ شہباز پنجاب کے غیر اعلانیہ سربراہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔

مریم نواز 100 ارب روپے کے منصوبے کی سربراہی سے سیاست میں پہلے ہی قدم رکھ چکی ہیں۔ بلوچستان میں" سردارانہ ملاپ" کے علاوہ کوئی نظام چلتا نظر نہیں آتاکیوں کہ جو ملا جلا رجحان س وقت ڈاکٹر عبدالمالک کی سربراہی میں کام کر رہا ہے اس میں تبدیلی کے آثار نہیں۔۔ خیبر پختونخواہ میں " ہوتی، مولانا، ولی" ایک طاقت رکھتے ہیں۔ لیکن افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ اگلے کم و بیش پندرہ سے بیس سال تک تبدیلی کے آثار نظر نہیں آ رہے۔

سندھ میں " بلاول" نے آئندہ الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا ہے۔ جب کہ پنجاب میں" محترمہ مریم " پہلے سے ہی سیاسی طور پر خود کو مضبوط کر رہی ہیں۔ خبیر پختوخواہ میں بھی ہوتی خاندان کے سپوت طاقت حاصل کر رہے ہیں جب کہ مولانا بھی ایک حلقہ اثر رکھتے ہیں اور ان کے بھائی بھی پہلے ہی سیاسی میدان میں آچکے ہیں۔ بلوچستان میں تو جو " چوں چوں کا مربہ "بنتا ہے اس کو کھانے کے لیے کسی نئے بندے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی ۔

اس تمام صورت حال میں " عام آدمی " کہاں گیا؟ جو لوگ باہر سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے آتے ہیں ان کا کردار ملکی سیاست میں کہاں گم ہو گیا؟ وہ کاروباری طبقہ کہاں غائب ہو گیا جو زر مبادلہ ملک میں بھیجتا ہے؟
اصل تبدیلی حکمران و اقتدار کے باسی طبقے کے دل و دماغ سے یہ خیال نکالنا ہے کہ سیاست ان کے گھر کی باندی نہیں ہے۔ نہ ہی یہ کسی کی ذاتی جاگیر ہے جو کسی اور کو منتقل نہیں ہو سکتی ۔

بلکہ سیاست پر اس ملک کے پڑھے لکھے طبقے اور عام آدمی کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا کسی بھی " چوہدری، ملک، میاں، مخدوم ، سردار، یا شاہ " کا۔ چند خاندان ہم پر سیاست ایسے کرتے ہیں جیسے عوام کوئی کیڑے مکوڑے ہو ں اور اسمبلی میں بیٹھ کر وہ عوام پر کوئی احسان کر رہے ہیں۔ تبدیلی اس سوچ کا نام ہے جسے آواز دینی ہو گی کہ عوام ان کے زرخرید نہیں نہ ہی وہ اپنے ذاتی خزانوں سے پیسہ عوام کی فلاح پر خرچ کرتے ہیں۔

بلکہ یہ تو عوام کے صرف "نوکر" ہیں کیوں کہ انہیں تنخواہ اسی پیسے سے ملتی ہو جو عوام کے ٹیکسوں سے حاصل ہوتا ہے۔ کاش یہ تبدیلی سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے ذہنوں میں آجائے کہ " کرسیء اقتدار" پر حق کسی "نواب ابن نواب ابن نواب " کا نہیں بلکہ اس عام سیاسی کارکن کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا کسی چوہدری ، خان، وڈیرے کے بیٹے کا۔ سیاسی کارکن کیا صرف گلے پھاڑ کر نعرے لگانے کے لیے ہیں؟
ہر دفعہ ایک قصہ ذہن میں ابھرتا ہے اور اس بات پہ یقین پختہ ہو جاتا ہے کہ بزرگوں کی بیان کی گئی کہاوتوں و کہانیوں میں کوئی نہ کوئی سبق پوشیدہ ضرور ہوتا ہے۔

ایک گاؤں کا نمبردار جب قریب المرگ ہوا تو ایک میراثی کے بیٹے نے اپنی ماں سے پوچھا کہ ماں نمبردار کے مرنے کے بعد نمبردار کون بنے گا ۔ جس کے جواب میں ماں نے کہا کہ نمبردار کا بیٹا۔ بیٹے نے پھر سوال کیا کہ اس کے بعد ۔ ماں نے پھر جواب دیا ۔ اس کا بیٹا (موجودہ نمبردار کا پوتا)۔ بیٹے نے لگ بھگ بیسیوں دفعہ پوچھا تو ماں نے اتنی ہی دفعہ ایک ہی جواب دیا۔

بالآخر ماں نے بیٹے کا اضطراب پڑھتے ہوئے نرم الفاظ میں سمجھایا کہ بیٹا تم پریشان کیوں ہوتے ہو نمبردار مر بھی گیا تو نمبرداری ہمارے حصے میں نہیں آئے گی کیوں کہ یہ نمبردار کی نسل میں ہی رہے گی ۔کیوں کہ یہ نصف صدی کا قصہ ہے وطن عزیز کا۔ (اس کالم کے ذریعے ایک تصیح ضروری ہے کہ لفظ میراثی کو ہم نے حقیر بنا دیا ہے جبکہ حقیقت میں لفظ میراثی میراث سے نکلا ہے جس کا تعلق وراثت سے جڑتا ہے۔

لہذا کسی بھی روایت یا ثقافت کے امین میراثی(یعنی میراث رکھنے والے) کہلواتے ہیں اس لحاظ سے یہ ایک ادبی لفظ ہے نہ کہ کوئی حقیر لفظ یا اصطلاح)۔
پاکستان کا سیاسی نظام بھی اس وقت نمبرداری نظام کے تحت ہی چل رہا ہے۔ جس کی وجہ سے " سٹیٹس کو (Status qou)" کی سی صورتحال ہے۔ یعنی اگلے کئی سال نمبرداروں کی نسلیں ہی ہم پر قابض رہیں گی۔بھٹو کے بعد ایک اور بھٹو، میاں کے بعد ایک اور میاں، ولی کے بعد ایک اور ولی، مولانا کے بعد ایک اور مولانا، یعنی ہم نسل در نسل ایک ایسے نظام میں جکڑے ہوئے ہیں جس سے نکلنے کے لیے ہمیں تبدیلی اپنے دل سے شروع کرنا ہو گی ۔

سب سے پہلے تبدیلی سیاسی کارکنوں کو اپنے دل و دماغ میں لانا ہو گی کہ وہ اپنے اندر اپنی قیادت سے سوال کرنے کی جرات پیدا کریں کہ کیا سیاست پر ان کے بیٹوں، بیٹیوں، یاقریبی عزیزوں کا حق ہے؟ کیا وہ صرف نعرے لگانے کے لیے ہیں؟ کیا اپنی زندگیاں سیاسی پارٹیوں کے نام کر دینے والے کارکنان کی قسمت میں یہ آکسفورڈ لب و لہجے والے بچے ہی لیڈر کے طور پہ ہیں؟ یا پھر ان کی محنت کا صلہ یہی ہے کہ کسی حکمران کا بیٹا یا بیٹی ہی ان پہ راج کرے؟
اراکین اسمبلی کو ان کی غلطی کا احساس دلانا یقینا ایک احسن قدم ہے۔

جن کی وجہ سے تمام مسافروں کو پریشانی ہوئی۔ لیکن تبدیلی صرف جہاز سے اقتدار کے نشے میں گم سیاستدانوں کو اتارنے کا ہی نام نہیں ۔ بلکہ یہ ایک انفرادی عمل ہے۔ جس دن ہم نے تبدیلی کو انفرادی حیثیت میں اپنا لیا اس دن یقینا ایک ایسی تبدیلی کا آغاز ہو گا جس کو روکنا " نام نہاد جمہوریت کے نام لیواؤں" کے بس میں نہیں ہو گا۔ قرائن بتاتے ہیں کہ تبدیلی بے شک چھوٹے پیمانے پر ہی سہی لیکن اس کا آغاز یقینا ہو چکا ہے۔ اب یہ تبدیلی مثبت سمت جاتی ہے یا منفی اس کا انحصار بحثیت مجموعی قوم پر ہے کہ وہ اس آغاز کو کس سمت لے جاتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :