امن کے رنگ

ہفتہ 4 اکتوبر 2014

Dr Awais Farooqi

ڈاکٹر اویس فاروقی

ایسے پاکستان کی بد قسمتی کہہ لیں یا انتظامی امور چلانے والے کی نااہلی کہ پاکستان بنتے ہی امن دشمن قوتوں نے یہاں کا امن و سکون غارت کرنا شروع کردیا جعلی کلیموں سے شروع ہونے والی کرپشن آج تمام شعبوں کے افراد معاشرہ کی رگوں میں لہو کی طرح دوڑ رہی ہے جیسے ختم کرنے کی کوئی بھی کوشش اس لئے ناکام ہو جاتی ہے کہ مقتدر طبقے ایسا نہیں چاہتے اس طرح روز اول سے پاکستان مخالف قوتیں جو پاکستان بننے کے خلاف تھیں اور جب بن گیا تو انہوں نے اپنی اجاراہ داری قائم رکھنے کے لئے حکمران طبقوں کے ساتھ مل کر پاکستانیوں کے زہن پر قبضہ کرنا شروع کردیا اور جو اتحاد پاکستان بنتے وقت قائم تھا کو پارہ پارہ کر کے عوام میں نفرت اور تعصب کے ایسے بیج بوئے کہ عوام کو تقسیم در تقسیم کے ایسے منحوس چکر میں ڈال دیا گیا کہ جس سے وہ آج تک باہر نہیں نکل سکی بلکہ اس نفرت،تعصب اور تقسیم نے پاکستان کا امن و سکون تباہ کر کے رکھ دیا جس ملک کو مسلمانوں اور پاکستانیوں کے لئے امن کا گہوار ہونا چایے تھا وہاں نفرت اور تعصب کی کوکھ سے اب ہر روز درجنوں لاشیں نکل رہی ہیں المیہ دیکھیے کہ اتنی لاشیں اٹھانے کے بعد بھی ہم عقل کے ناخن لینے کی بجائے اسے ہنود و یہود کی سازش قرار دے کر اپنا دامن صاف کر لیتے ہیں ،گزشتہ دنوں ”امن کے رنگ “ کے حوالے سے منعقدہ ایک سیمنار جس میں گورنر پنجاب کے علاوہ سیاسی و مذہبی شخصیات نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے امن کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے اس کے قیام کے لئے کوششیں کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ امن کے بغیر ملک اور معاشرے نہ ہی چل سکتے ہیں اور نہ ہی قائم رہ سکتے ہیں ، اس طرح کے سیمنار میں سطحی گفتگو ہی سننے کو ملتی ہے جبکہ حل کی طرف کوئی جاتا دکھائی نہیں دیتا راقم نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی بیماری کے علاج کے لئے سب سے پہلے اس کی درست تشخیص ضروری ہے اگر درست تشخیص ہو جائے تو سمجھیں آپ نے بیماری کا علاج کر لیا۔

(جاری ہے)

لیکن ہمارے یہاں تو تشخیص کا شعبہ ہی ناکام دکھائی دیتا ہے تو علاج کیسے ہو گا اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ معاشروں اور ملکوں کی بقاء ،ترقی اور کامیابی کا دارومدار پر امن معاشرے کا مرہون منت ہوتا ہے اور جہان اس کا فقدان ہو وہ معاشرے انتشار زدہ معاشرے ہوتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ پر امن معاشرے کے قیام کے لئے ہر سطع پر اقدامات اٹھائیں جس میں سب سے زیادہ ذمہ داری ریاست اور اس کے بعد دیگر اداروں جن میں سیاسی و مذہبی جماعتوں پر عائد ہوتی جن کا اثر و نفوژ افراد معاشرہ پر سب سے زیادہ ہوتا ہے اور جن کی وجہ سے عوام تقسیم کے عمل کا بھی شکار ہوتے ہیں اس کے ساتھ ہی میڈیا کا کردار بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے میڈیا کو ایسے پروگرام دکھانے اور بیانات شائع کرنے سے گریز کرنا چاہیے کہ جس سے نفرت اور انتشار پھیلنے کا اندیشہ ہو، جبکہ حکومت کو ایسی پالسیاں بنانی چاہییں جن میں امن کے فروغ اور قیام پر زور دیا گیا ہو ،ملکی تعلیمی نصاب سے نفرت انگیز مواد کو نکالنا اس سسلسلے کی ایک کڑی ہو سکتی ہے جبکہ ریاستی اداروں خصوصاً پولیس افواج پاکستان، اور دیگر سرکاری سول اداروں میں کام کرنے والے افراد میں اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ان کے اندر پاکستانیت کی سوچ پروان چڑھے تمام ریاستی اداروں میں کام کرنے والے سرکاری ملازمین کو تعصب اور نفرت سے دور رکھنے کے لئے حکومت ہی اقدامات اٹھا سکتی ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ پاکستانیت کو فروغ دیا جائے یہ چند ایک تجاویز ہیں جن سے پر امن معاشرے کے قیام میں مدد مل سکتی ہے۔


اس کے ساتھ ہی سب سے پہلے تو ہمیں اس بات کو زہن نشین کر لینا چاہیے کہ معاشرے پر امن اسی وقت ہو سکتے ہیں جب وہاں کا نظام انصاف ہر شہری کے ساتھ برابری کا سلوک کرتا ہو اور شہری بھی قانون کا احترام کرتے ہوں جس معاشرے میں چھوٹے بڑئے کے امتیازات ہوں بڑوں کے لئے اور قانون اور چھوٹوں کے لئے اور قانون تو ایسے معاشرئے امن سے محروم رہتے ہیں”امن کے رنگ“ قائم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ”قانون سب کے لئے برابر“ کے اصول پر عمل کیا جائے۔

۔۔اس حوالے سے مجھے ”ایتھنز کے معروف شاعر، قانون ساز اور سیاست دان سولون کا یہ قول یاد آتا ہے کہ ”قانون مکڑی کے جالے کی طرح ہے، جس میں چھوٹی چیزیں پھنس جاتی ہیں اور بڑی اسے پھاڑ کر نکل جاتی ہیں۔“
امن کے قیام کے لئے یہ بات بھی ضروری ہے کہ ملک کا نظام انصاف کیسا اور کن ہاتھوں میں ہے۔ امریکی سپریم کورٹ کے ایک سابق چیف جسٹس فیلکس فرنکفرٹر (Franfurter Felix )نے مدتوں پہلے کہا تھا کہ’ اگرہر ایک آدمی کو یہ اجازت دے دی جائے کہ وہ از خود یہ فیصلہ کرے کہ قانون کیا ہے تو اس کا پہلا نتیجہ افراتفری، گڑ بڑ اور بد نظمی کی صورت میں نکلے گا اور پھر جبر و استبدادغالب آ جائے گا۔

قانونی عمل ایک جمہوری عمل کا نتیجہ ہوتا ہے(کسی فردِ واحد کی خواہشات اور ارادوں کا نام نہیں ہوتا ) ‘ اس وقت ہمارا ملک جس فتنے اور فساد کی لپیٹ میں ہے اس کی بنیادی وجہ قانون کو ہاتھ میں لینے کا رجحان ہے ۔
کسی بھی ملک کی ٹوٹ پھوٹ میں اس کے انصاف اور قانون کے نظام کا بڑا دخل ہوتا ہے ،عظیم مفکر اور سابق برطانوی وزیراعظم چرچل نے دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانوی شہریوں کے ایک وفد سے ملاقات میں چرچل نے تابناک جملہ کہا جو آنے والے دنوں میں تاریخ کے ماتھے کا تاج بن گیا۔

چرچل نے استفسار کیا کیا ہماری عدالتوں میں انصاف کی فراہمی جاری ہے؟ کیا سرکاری ادارے اور انکے آفیسرز دلجمعی سے اپنا فرض انجام دے رہے ہیں یا نہیں شہریوں نے اثبات میں سرہلایا تو چرچل اونچی آواز میں گویا ہوا جہاں عدالتیں اور سرکاری دفاتر انصاف اورمساوات کا جھنڈا بلند رکھتی ہوں وہاں شکست کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس لیے امن کے قیام کے لئے نظام انصاف کو اولین فہرست میں رکھنا ہو گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :