تحریکِ انصاف کے سچ

جمعرات 2 اکتوبر 2014

Prof.Riffat Mazhar

پروفیسر رفعت مظہر

تحریکِ انصاف نے مینارِ پاکستان کے سائے تلے ایک دفعہ پھر بھرپور جلسہ کرکے یہ ثابت کردیاکہ اُس کے چاہنے والوں کی اب بھی کمی نہیں۔ماننا پڑے گا کہ جس طرح بھٹومرحوم نے غریبوں کو متحرک کیا تھا،اُسی طرح عمران خاں صاحب نے بھی ایک ایسے طبقے کو متحرک کر دیاجواِس سے پہلے گھروں سے نکلناگوارہ ہی نہیں کرتاتھا۔ یہ اپر مڈل کلاس جو سیاسی جلسے جلوسوں میں شرکت کرنے والوں کا مذاق اُڑایاکرتی تھی ا ب پورے جوش و خروش اور اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ متحرک ہے۔

اِس کلاس کاروٹی ،کپڑا اور مکان ہر گز مسٴلہ نہیں کیونکہ اِس کے پاس اللہ کا دیاسب کچھ ہے ۔اِس طبقے کے لوگوں کی دلچسپیاں ذرا مختلف ہیں اوربنیادی طور پر یہ طبقہ ”ہلّاگُلّا“ کا شوقین نظر آتاہے ۔کپتان صاحب نے اسی کومدّ ِنظر رکھتے ہوئے سیاسی جلسے جلوسوں میں ایک نئی طَرح ڈالی ۔

(جاری ہے)

وہ جہاں اپنی تقریر کاآغاز قُرآنی آیات سے کرتے ہیں،وہیں ابرار الحق جھوم جھوم کریہ بھی گاتے ہیں”اَج میرا نچنے نوں جی کردا“۔

اب کپتان صاحب جہاں بھی جاتے ہیں ڈی جے بٹ نے وہاں پہلے ہی میوزیکل کنسرٹ کا اہتمام کر رکھاہوتا ہے اور کہا جا سکتا ہے کہ عمران خاں کے بعد اگر کوئی سب سے زیادہ پاپولر ہے تووہ ڈی جے بٹ ہی ہے جس کی موسیقی پر لڑکے لڑکیاں ہی نہیں بڑے بوڑھے اور خود خاں صاحب اور اُن کے ساتھ کنٹینر پر کھڑے تمام لوگ جھوم رہے ہوتے ہیں۔عجیب بات یہ ہے کہ اگریہ لکھ دیاجائے کہ تحریکِ انصاف کے جلسوں اور دھرنوں میں سیاست کم اورموسیقی زیادہ نظر آتی ہے تو ایسا طوفانِ بدتمیزی بپا ہوتاہے کہ اللہ کی پناہ۔

ہم نے نواز لیگ ،پیپلزپارٹی ،ایم کیوایم اورقاف لیگ کے خلاف بھرپور کالم لکھے لیکن اِن سیاسی جماعتوں کے چاہنے والوں کی طرف سے کبھی اخلاق سے گرا ہوا تبصرہ نہیںآ یا لیکن جونہی تحریکِ انصاف کے بارے میں کسی”کڑوے سچ“ کی نشاندہی کی جائے تو سونامیے ننگی اور گندی گالیوں پر اتر آتے ہیں۔یہ ایسی سچائی ہے جس سے عمران خاں انکار کر سکتے ہیں نہ اکابرینِ تحریکِ انصاف۔


لاہور کے انتہائی متاثر کُن جلسے میں خاں صاحب نے ایک مصلح کاکردار اداکرتے ہوئے سچ بولنے پر لمباچورا لیکچر دے ڈالا۔اُنہوں نے اقبال کاایک شعر بھی غلط سلط پڑھااور پھر خود ہی یہ بھی کہہ دیا کہ اُنہیں شعر یاد نہیں رہتے ۔اُسی شعرکے حوالے سے صداقت ،شجاعت ،اور عدالت پر لیکچردیا ۔سوال مگر یہ ہے کہ کیا سچ بولناصرف عوام کے لیے رہ گیاہے اور سیاست دان اِس سے مبرّا ہیں؟۔

جہاں تک ہمیں یاد پڑتا ہے خاں صاحب نے 14 اگست سے اب تک اتنے یوٹرن لیے ہیں کہ حساب رکھنا مشکل۔ اُنہوں نے باآوازِ بلند بجلی کے نرخوں میں اضافے پر احتجاج کیا۔یہ احتجاج تو پوری قوم ہی کر رہی ہے لیکن کیا خاں صاحب یہ نہیں جانتے کہ مشترکہ مفادات کونسل میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نے تین برس تک بجلی اور گیس کے نرخ بڑھاتے چلے جانے پر اتفاق کیاتھا اور چاروں صوبوں کے اہم سیاسی رہنما اِس فیصلے پر متفق بھی تھے ۔

اگر خیبرپختونخوا کے وزیرِاعلیٰ پرویزخٹک صاحب نے خاں صاحب کی ایما ء کے بغیر بجلی اور گیس کے نرخ بڑھانے پر اتفاق کیا تو پھر خاں صاحب کو پرویزخٹک صاحب کی جواب طلبی کرنی چاہیے اور اگر یہ سب کچھ خاں صاحب کی مرضی سے ہوا تو پھر ایسا احتجاج چہ معنی دارد؟۔خاں صاحب سینکڑوں بار پارلیمنٹ کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے اسے مافیا قرار دے چکے ہیں لیکن اُن کے اپنے صوبے خیبرپختونخوا کا یہ حال ہے کہ 82 فیصد اراکینِ اسمبلی ٹیکس چور ہیں ،90 فیصد بجلی چوری ہوتی ہے ،کے پی کے کے گیارہ وزراء پر بَدعنوانی کے باقاعدہ مقدمات درج ہیں، وزیرِاعلیٰ دھرنوں میں پائے جاتے ہیں اور 23 میگاپراجیکٹس پر کام ٹھَپ ہے ۔

اِس کے علاوہ دَس لاکھ آئی ڈی پیز بنوں میں بے یارومددگار پڑے ہیں ۔اگر اِن مجبورومقہور آئی ڈی پیزنے پشاور میں دھرنے کی ٹھان لی تو کیا خاں صاحب سنبھال پائیں گے؟۔
شرجیل میمن کہتے ہیں” تحریکِ انصاف کو اسرائیل سے فنڈنگ ہورہی ہے اور تبدیلی ناچ گانے سے نہیں آتی“۔ہم آج بھی خاں صاحب کو محبِ وطن ہی سمجھتے ہیں اور ہمارا حسنِ ظَن یہی ہے کہ تحریکِ انصاف کو ہرگز ”فارن فنڈنگ“ نہیں ہوتی لیکن یہ بھی عین حقیقت ہے کہ دھرنوں کی وجہ سے ملکی ترقی کا پہیہ جام ہو کے رہ گیاہے اور اُمید کی ساری کرنیں نااُمیدی کے گھور اندھیروں میں ڈھَل گئی ہیں۔

جبکہ خاں صاحب اب بھی اپنی انانیت کے بُت کو پاش پاش کرنے کو تیار نہیں۔اُنہوں نے اپنے چاہنے والوں کو سِول نافرمانی کا درس دیتے ہوئے مجمعے کے سامنے اپنا بجلی کا بِل تو جلا ڈالا لیکن یہ سَچ بولنے کی توفیق نہیں ہوئی کہ زمان پارک کے بجلی کے تینوں بِل ادا ہوچکے،جہانگیر ترین نے اپنے سارے بِل اور ٹیکس بَروقت ادا کیے اور شاہ محمود قریشی نے بھی اپنے گھر ملتان میں لگے ہوئے بجلی کے آٹھ میٹروں کے بِل ادا کر دیئے ۔

خاں صاحب نے لاہور کے جلسے میں یہ بھی فرمایا کہ جب وہ وزیرِاعظم بنیں گے تو پنجاب کے گورنرہاوٴس کی دیواریں گرادی جائیں گی ،وزرائے اعلیٰ ہاوٴسزاور گورنر ہاوٴسز کولائبریریوں اور یونیورسٹیز میں ڈھال دیاجائے گا ۔لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ خاں صاحب نے سچ نہیں بولا کیونکہ اگر وہ ایسا کرنا چاہتے تو خیبرپختونخواکے گورنرہاوٴس کو نہ سہی وزیرِاعلیٰ ہاوٴس کوتو ختم کر ہی سکتے تھے لیکن سولہ ماہ گزرنے کے باوجود بھی اُنہوں نے ایسا نہیں کیا ۔

خاں صاحب نے فرمایاکہ گیارہ کروڑ افراد خطِ غُربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں اور وہ وزیرِ اعظم بن کر غریبوں کی تقدیر بدل دیں گے۔ دست بستہ عرض ہے کہ ملک و قوم کی تقدیریں بدلنے والے نہ تو سینکڑوں کنال پر محیط محلوں میں رہتے ہیں اور نہ ہی اِس طرح سے اندرونِ ملک طیاروں میں سفر کرتے ہیں جیسے خاں صاحب آجکل کر رہے ہیں۔اُنہیں ایسے بلند بانگ دعوے نہیں کرنے چاہیے جن پر عمل اُن کے بَس میں نہ ہو۔


آخر میں یہ قوم حکمرانوں سے سوال کرتی ہے کہ اُسے تو ٹریفک کا اشارہ توڑنے پر سزا مل جاتی ہے لیکن سول نافرمانی کا اعلان کرنے ،پارلیمنٹ ہاوٴس ،پی ٹی وی اور وزیرِاعظم ہاوٴس پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ وی آئی پی سلوک کیوں؟۔ تحریکِ انصاف کے جن 25 افراد نے استعفے دیئے وہ آئین کی رو سے اپنی سیٹیں کھو چکے پھر سپیکرصاحب کِس قانون کے تحت استعفے اپنے پاس رکھ کے بیٹھے ہیں؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :