پاکستان میں سیلابوں کی تباہ کاریاں اور ہماری قومی بے حسی

جمعرات 2 اکتوبر 2014

Munawar Ali Shahid

منور علی شاہد

پاکستان ایک مرتبہ پھر سیلاب سے دو چار ہے اور یہ مسلسل چوتھے سال کا سیلاب ہے۔2010کے تباہ کن سیلاب کے اثرات ابھی تک ختم نہیں ہوئے تھے اور نہ ہی متاثرین آباد ہوئے تھے کہ 2014میں ایک بار پھر سیلاب کے باعث ہزاروں لاکھوں لوگ بے گھر گئے۔سیلاب اور موسم سے متعلق سرکاری محکمہ کی رپورٹ کے مطابق ابھی تک 280قیمتی جانیں اس سیلاب کی نذر ہو چکی ہیں۔

500کے قریب لوگ زخمی ہوئے ہیں جبکہ 2 ملین افراد بے گھر ہوئے ہیں۔رپورٹ کے مطابق پنجاب کے 21اضلاع براہ راست شدید متاثر ہوئے ہیں۔اس سال دریائے راوی میں شدید سیلاب آیا ہے جبکہ دریائے چناب نے طول وعرض میں تباہی مچائی اور پہلی مرتبہ نیوی کی امدادی ٹیمیں بھی متاثرین کی امداد کے لئے منگوائی گئیں۔وزیر اعلیٰ پنجاب کا طیارہ شدید سیلاب اور ہر طرف پانی ہی پانی کی وجہ سے چنیوٹ میں نہ اتر سکا۔

(جاری ہے)

2011,2012میں سیلاب کے باعث 516اور571افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ گزشتہ تین سالوں میں مجموعی طور پر 3072 لوگ سیلاب کے باعث اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔پاکستان میں سیلابوں کا سلسلہ بہت پرانا ہے اور اب تک ہزاروں افراد سیلاب کی نذر ہوچکے ہیں اور اربوں مالیت کا قومی نقصان بھی ہو چکاہے لیکن سیاسی عدم استحکام اور آپس کی چپقلش کے باعث تاحال ملک کے اندر سیلاب سے بچاؤ کی کوئی قومی پالیسی مرتب نہیں دی جا سکی اورنہ ہی کوئی لائحہ عمل بنایا جا سکا۔

کچھ ادارے بنے بھی ہیں لیکن ان کی کارگردگی بھی غیر تسلی بخش ہے ۔اور وہ سیلاب سے بچاؤ میں اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں سیاست اور اداروں میں نااہل لوگوں کی بھرمار نے پاکستان اور اس کے لوگوں کا بھرتہ نکال دیا ہے۔جانوروں اور انسانوں کے مابین تمیز ختم ہو کر رہ گئی ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ اب سیلاب اور دیگر آفات سیاستدانوں اور مفاد پرستوں کے لئے خوشحالی کا باعث بن جاتی ہیں۔

اور تو اور بعض خود ساختہ فلاحی ادارے بھی موسمی جڑی بوٹیوں کی طرح نمودار ہوجاتے ہیں اور گلی گلی محلہ میں ہر کوئی کشکول اٹھائے مانگتا نظر آتا ہے۔فیڈرل فلڈکمیشن کے ریکارڈ اور اعداد و شمار کے مطابق1977میں سیلاب کے باعث 848افراد ہلاک ہوئے تھے اور 2185گاؤں تباہ ہوئے تھے۔1991میں 1000ہلاکتیں ہوئیں جبکہ13208گاؤں ملیامیٹ ہوئے تھے2010کا سیلا ب پاکستان کی تاریخ کا دوسرا بڑا سیلاب تھا جس میں 1985 قیمتی جانیں ضائع ہوئیں اور 17553گاؤں تباہی کی نظر ہوئے تھے،160000سکوئر کلومیٹر کا علاقہ سیلاب کی زد میں آیا تھا اور مجموعی طور پر 21ملین لوگ بری طرح متاثر ہوئے تھے۔

2010 کے اس ہولناک سیلاب کے بعد یہ قومی فریضہ تھا کہ ادارے اور سیاسی قوتیں جو باری باری اقتدار کے جھولے میں بیٹھتی ہیں وہ سیلاب سے بچنے کی تدابیر کرتیں اور کوئی لائحہ عمل تیار کرتی ہیں لیکن ان اندھوں،گونگوں اور بہروں نے ماسوائے ایک دوسرے کو ننگا کرنے کے دھیلے کا بھی کوئی کام نہیں کیا۔المیہ یہ کہ کافروں کے آگے کشکول پھیلاکر جو امداد متاثرین کے نام پر منگوائی گئی تھی وہ بھی ان تک نہیں پہنچی اور خود ہضم کرلی اور آج بھی ان متاثرین کی حالت پہلے سے بھی زیادہ خراب ہے۔

اداروں میں اقراء پروری اور سیاسی بیجا مداخلت کے باعث تمام بیرونی مالی امداد اور قرضے نہ صرف ضائع ہو رہے ہیں بلکہ الٹا ان کی ادائیگی بھی سود کے ساتھ کی جارہی ہے جبکہ جس غرض سے امداد یا قرضہ ملتا ہے وہ غرض بھی پوری نہیں ہورہی۔
پاکستان میں آزادی کے بعد اب تک بیس سیلاب آچکے ہیں 2014کا سیلاب اکیسواں سیلاب ہے۔سب سے پہلا سیلاب1950میں آیا تھا۔

اور 1959تک پانچ سیلاب آئے تھے لیکن 1973کے اسلامی آئین اور اس میں تبدیلیوں کے بعد تو سیلابوں نے غیرمعمولی شکل اختیار کی اور 2013تک 15سیلاب اس سرزمین پر آچکے ہیں گویا سیلابوں کا سیلاب ہے جو پاکستان میں آیا ہوا ہے۔فیڈرل فلڈکمیشن کے اعدادوشمار کے مطابق اب تک 63سالوں میں آنے والے سیلابوں میں 11239لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ہیں599459سکوائرکلومیٹر کاعلاقہ سیلاب کی زد میں آیا
39بلین روپے کا قومی نقسان ہوا اور 180234گاؤں صفحہ ہستی سے مٹ گئے بعد ازاں ان کو پھر آباد کرنے کی کوششوں میں درجنوں سیاستدانوں،بیوروکریٹس،اور دیگر سرکاری افسران کو کروڑوں کا مالی فائدہ ہوا جس سے ان کے گھروں میں نہ ختم ہونے والی خوشحالی آئی۔

جعلسازی ،کرپشن،بدیانتی،ذخیرہ اندوزی اور بے ایمانی کے اوصاف سے مالامال ہمارے ان سیاستدانوں،سرکاری افسروں اور بیوروکریٹس نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ہمیشہ کے لئے غربت کو وہاں کا مقدر بنا دیا ہے۔کوئی بلاول ہاؤس کا مالک ہے تو کوئی جاتی عمرہ رائیونڈ کا بادشاہ سلامت۔ہر ایک کے دور میں ان کے اپنے اپنے علاقوں کے مقدر چمکے جبکہ دور دراز کے علاقے آج بھی اندھیروں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔

لاہور کو پیرس بنانے والوں کو آسمان نے ان کی حقیقت پوری قوم کے سامنے کھول دی قومی خزانے کایکطرفہ اور بیدردی سے من مانے استعمال پر کوئی ادارہ نوٹس نہیں لیتا ۔ہماری سرکاری کرپشن اور عنوانیوں کے کارنامے اور قصے بیرونی اخبارات کی زینت بن چکے ہیں اور ان کی بد اعمالوں اور سیاہ کرتوتوں کے باعث سیلاب کے متاثرین کی بیرونی امداد بھی کم ہوتی جارہی ہے۔اب حالیہ سیلاب کے بعد اور دوران ان مظلوم ہزاروں لوگوں کو جانوروں کی طرح زندگی بسر کرنا پڑے گی،پانی،بسکٹ کے ایک ڈبے،دودھ اور مٹھی بھرخشک چنوں کے لئے اپنی عزت اور نفس کا جنازہ نکالنا ہوگا۔واہ رے مسلمان۔ تیرے تے سب قربان۔․

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :